پاکستان کی سیاست کی سمجھ بوجھ رکھنے والے بیشتر سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ موجودہ سیاسی صورتحال میں ملک ایک بڑی سیاسی تبدیلی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ تبدیلی سے مراد حکومت کی تبدیلی ہے او ران کے بقول حکومت کے لیے نہ صرف حکومت کرنا مشکل ہوگیا ہے بلکہ اب حکومت کا بچنا مشکل ہوگا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں حزب اختلاف کی جماعتوں میں کافی گرم جوشی دیکھنے کو ملی ہے۔
حزب اختلاف کو لگتا ہے کہ حکومت مشکل میں ہے اور یہ ہی موقع ہے کہ حکومت کوکمزور یا بے دخل کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں پارلیمنٹ کی سطح پر بلاول بھٹو اور شہباز شریف کے درمیان نیا سیاسی رومانس بھی دیکھنے کومل رہا ہے او رمعاملات سڑکوں سے زیادہ پارلیمنٹ میں سرگرم نظر آتے ہیں جو یقینی طور پر مریم او رفضل الرحمن کی سیاسی خواہش کے برعکس ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ حزب اختلاف دو حصوں میں تقسیم ہے۔ اول پارلیمنٹ کی سیاست جس میں ہمیں بلاول بھٹو اور شہباز شریف کا کردار زیادہ نظر آرہا ہے۔ جب کہ مزاحمت یاٹکراؤ یا سڑکوں کی سیاست جس میں لانگ مارچ بھی شامل ہے میں نواز شریف، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن زیادہ سرگرم نظر آتے ہیں۔ حزب اختلاف کی یہ ہی سیاسی تقسیم پی ڈی ایم کی بھی سیاسی تقسیم کا سبب بنی ہے اور اب بھی ہمیں پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی میں فاصلوں کا کھیل نمایاں نظر آتا ہے۔ اس وقت حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے چار پہلو نمایاں ہیں۔
اول حزب اختلاف کی جماعتیں پنجاب او رمرکزمیں تحریک عدم اعتماد کی بنیاد پر حکومت کی تبدیلی یا کم از کم وزیر اعظم کی تبدیلی کی خواہش مند ہیں۔ دوئم ایک بڑی اجتجاجی تحریک یا لانگ مارچ کے نتیجے میں حکومت کو سیاسی، انتظامی طور پر مفلوج کردیا جائے اور اس کا عملی نتیجہ وزیر اعظم کا از خود استعفیٰ کی صورت میں سامنے آئے۔ سوئم حکومت پر دباؤ بڑھایا جائے کہ کسی طریقے سے حکومت اگلے برس کے پہلے تین ماہ یعنی اگلے برس مارچ 2022 میں نئے عام انتخابات کا راستہ اختیا رکرے۔ چہارم اس بحران سے نکلنے کے لیے تمام جماعتوں پر مشتمل " قومی حکومت " یا ٹیکنو کریٹ حکومتی فارمولہ کے قیام کی جانب پیش قدمی کی جائے۔
حالیہ دنوں میں جو سیاسی یا حکومتی تبدیلی کی جو بحث میں شدت آئی ہے یا اس کی بنیاد پر جو نئے نئے سیاسی امکانات کو پیش کیا جارہا ہے اس کی بڑی وجہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بڑھتی ہوئی دوری کو سمجھا جارہا ہے۔
اس تبدیلی کا خاکہ پیش کرنے والوں کا خیال ہے کہ موجود ہ صورتحال میں حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کا ایک پیج پر چلنے کے امکانات محدود ہوگئے ہیں اور دونوں طرف سے بداعتمادی بڑھ رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں قومی اسمبلی سے د و بلو ں میں حکومت کی پسپائی اور انتخابی اصلاحات کے لیے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا موخر ہونا ظاہر کرتا ہے کہ حکومت اور ان کی اتحادی جماعتوں کی صفوں میں بھی مختلف امور پر کافی مسائل موجود ہیں جو قانون سازی سے روکنے کا سبب بن رہی ہے۔
جہاں تک تحریک عدم اعتماد کا تعلق ہے اس پر کھیل کافی دلچسپ ہے۔ پیپلز پارٹی مرکز سے پہلے پنجاب میں تبدیلی چاہتی ہے۔ ان کے بقول پنجاب میں یہ کھیل کھیلنے کے بعد ہم مرکز کی طرف بڑھ سکتے ہیں، جب کہ مسلم لیگ ن کے اہم افراد پنجاب میں تبدیلی کے حامی نہیں۔ اس کھیل میں بڑی رکاوٹ بھی نواز شریف اورمریم نواز ہیں۔ شریف خاندان کسی بھی صورت میں پنجاب کی سطح پر چوہدری برادران کے سیاسی کردار کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔
مسلم لیگ ن یہ بھی سمجھتی ہے کہ عام انتخابات سے قبل پنجاب اور مرکزمیں تبدیلی کی صورت میں معاشی بدحالی، مہنگائی اور بے روزگاری کا سارا غصہ نئی حکومت پر پڑے گا اور ہم بھی کوئی بڑا معاشی ریلیف لوگوں کو نہیں دے سکیں گے۔ اس لیے ان کے بقول درست حکمت عملی یا آپشن نئے انتخابات کا راستہ ہی ہوسکتا ہے۔
ایک سیاسی خوف یہ بھی ہے کہ اگر حکومت یا وزیر اعظم کو محسوس ہوتا ہے کہ معاملہ تحریک عدم اعتماد کی طرف بڑھ رہا ہے تو وہ اسمبلیوں کو تحلیل کا آپشن اختیار کرسکتے ہیں جو پیپلزپارٹی کے لیے قابل قبول نہیں، وہ سندھ میں حکومت کررہی ہے او رچاہے گی یہ نظام اپنی سیاسی مدت کو پورا کرے۔ اسی طرح یہ آپشن کے وزیر اعظم عمرا ن خان کے بجائے تحریک انصاف میں کسی اورکو وزیر اعظم لاکر باقی مدت تک نظام کو چلانے کی کوشش کی جائے، یہ یقینی طور پر عمران خان کے لیے قبول نہیں ہوگا۔ ایسی صورت میں وہ نئی حکومت کو مشکل میں ڈالیں گے۔
سیاست دانوں یا ٹیکنو کریٹ پر مشتمل قومی حکومت کا فارمولہ بھی نہیں چل سکے گا۔ کسی ایک نام پر سب فریقین کا متفق ہونا بھی ممکن نہیں ہوسکے گا۔ جہاں تک وزیر اعظم کے استعفیٰ کا تعلق ہے تو اس کے لیے نہ تو اس وقت کوئی بڑی عوامی تحریک ہے او رنہ ہی اس کے امکانات ہیں۔ کیونکہ اگر لوگ حکومت سے تنگ ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ نئی امید کے طور پر حزب اختلاف کی تحریک کاحصہ بننے کے لیے بے تاب ہیں۔ اس کی ایک جھلک ہم حالیہ دنوں میں مہنگائی کے خلاف حزب اختلاف کے مظاہروں میں شامل عوامی تعداد سے دیکھ چکے ہیں۔
بنیادی طور پر سیاسی یا حکومتی تبدیلی میں بڑی وجہ حکومت او راسٹیبلیشمنٹ کے درمیان ٹکراؤ کو بنایا جارہا ہے۔ کیونکہ ہمارے یہاں سیاسی تبدیلی کا عمل بھی اسی صورت میں سامنے آتا ہے جب پس پردہ قوتیں متحرک ہوتیں ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان بہت سے امور پر تناؤ کی کیفیت مختلف حکمت عملیوں کی بنیاد پر ہے یا یہ کیفیت کسی بڑے ٹکراؤ کا سبب بن رہی ہے۔
ایسے میں جب یہ دلیل دی جاتی ہے کہ موجودہ حکومت کے معاملے میں اسٹیبلیشمنٹ نے خود کو نیوٹرل کرلیا ہے تو پھر یہ دلیل کہ اب وہ اپنی حمایت حز ب اختلاف کے پلٹرے میں ڈال دیں گے، کیسے ممکن ہوگا، اگر حزب اختلاف کے لیے تبدیلی کی بنیاد محض اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت کا حصول ہی ہے تو پھر یہ سارا سیاسی ڈراما جمہوریت، قانون کی حکمرانی، پارلیمانی بالادستی یا ووٹ کو عز ت دو کا کیا تھا۔ جو لوگ اسٹیبلیشمنٹ کا براہ راست کردار دیکھ کر کسی سیاسی مہم جوئی کو دیکھ رہے ہیں یا اس کی خواہش رکھتے ہیں اس کا امکان کم ہے ا وروہ بھی قومی مفاد میں نہیں ہوگا۔ یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ اگر حکومت کو زبردستی گھر بھیجا گیا تو اس کا فائدہ عمران خان کو سیاسی شہید بننے میں ہوگا اور وہ بھی ردعمل کی سیاست کریں گے۔
اسی طرح موجود ہ جو ہمارے علاقائی حالات ہیں جن میں بھارت، افغانستان اور امریکا سے جو تناؤ کے معاملات ہیں۔ ان میں کیا داخلی سطح پر تبدیلی کا عمل کچھ بہتر نتائج دے سکے گا۔ کیا ہمارے قومی حالات کسی نئی سیاسی مہم جوئی کو برداشت کرسکیں گے؟ اصولی طو رپر جو بھی سیاسی تبدیلی آنی ہے وہ آئینی او رقانونی فریم ورک میں ہو او راس کاایک راستہ تحریک عدم اعتماد اور دوسرا انتخابات کی مدد سے سیاسی قیادت کی تبدیلی کافیصلہ ہی ہوسکتا ہے۔ یہ انتخاب کب ہوں گے اس کا بھی فیصلہ خود حکومت کو ہی کرنا ہے اور فوری انتخاب حکومت کے حق میں نہیں اور کیا حزب اختلاف فوری انتخاب کے مطالبے پر حکومت کو دباؤ میں لاسکے گی، اہم سوال ہے۔