Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Nai Siyasi Saf Bandi Aur Jor Tor Ki Siasat

Nai Siyasi Saf Bandi Aur Jor Tor Ki Siasat

انتخابات 2023پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے لیے ایک بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ حالیہ دنوں میں ہمیں حکومت اور حزب اختلاف کی سیاست میں جو نئی سیاسی جھلک نمایاں طور پر دیکھنے کو مل رہی ہے اس میں انتخابی سیاست کی حکمت عملی کو فوقیت نظر آتی ہے۔

قومی سیاست میں تین بڑے سیاسی فریق ہیں۔ اول حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اور حزب اختلاف کی دو بڑی جماعتیں جن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نمایاں ہیں جب کہ اس کے برعکس دیگر جماعتوں کے پاس واحد آپشن یہ ہی ہوگی کہ وہ ان تینوں بڑی سیاسی قوتوں کے ساتھ باہمی تعاون یا اتحادی سیاست کو بنیاد بنا کر انتخابی میدان میں حصہ دار بنیں۔

بظاہر جو سیاسی منظر نامہ غالب ہوگا اس میں پرو پی ٹی آئی اور اینٹی پی ٹی آئی کی بنیاد پر سیاسی معرکہ سجے گا۔ یہ بھی کافی حد تک نظر آتا ہے کہ یہ تینوں جماعتیں اپنے اپنے سیاسی پلیٹ فارم پر تنہا انتخابات میں حصہ لیں گی جب کہ دیگر جماعتوں کے ساتھ انتخابات کے نتائج کے بعد سیاسی اتحاد بننے کے امکانات ہونگے۔

پنجاب میں سب سے بڑا سیاسی معرکہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے درمیان ہوگا اور یہ کانٹے کا مقابلہ ہوگا البتہ پیپلزپارٹی یہاں مسلم لیگ ق، جہانگیر ترین گروپ اور جنوبی پنجاب میں بااثر سیاسی خاندانوں کی حمایت سے ایک بڑا سیاسی گروپ بنانا چاہتی ہے۔ پیپلزپارٹی کو احساس ہے کہ وہ پنجاب کی سیاست میں تنہا کچھ نہیں کرسکے گی۔ اس کے پاس واحد آپشن پنجاب میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے مقابلے میں اپنا سیاسی وجود طاقت ور سیاسی خاندانوں کی مدد سے قائم کرنا ہے۔

پنجاب میں ایک بڑا فیصلہ مسلم لیگ ن کی داخلی تقسیم سے بھی جڑا ہوا ہے اور دیکھنا ہوگا کہ پنجاب کی سیاست میں اصل فیصلہ کن حیثیت شہباز شریف اور مریم نواز میں کس کی ہوگی اور انتخابی سیاست میں کون پارٹی کی قیادت کو لیڈ کریگا۔ اصل فیصلہ نواز شریف نے ہی کرنا ہے اور دیکھنا ہوگا کہ وہ اپنا سیاسی وزن کس کے سیاسی پلڑے میں ڈالنا پسند کرینگے۔

پیپلزپارٹی کی توجہ کا بنیادی مرکز سندھ ہی ہوگا۔ وہ پنجاب اور بلوچستان میں اپنے لیے ایک محفوظ راستہ بنانا چاہتی ہے۔ اسی بنیاد پر چند دن قبل بلوچستان سے اہم لوگوں کی مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر پیپلزپارٹی میں شمولیت ہے۔ اسی طرح کی ایک جھلک آصف زرداری جنوبی پنجاب کو بنیاد بنا کر کچھ لوگوں کی شمولیت کو ممکن بنانا چاہتے ہیں۔

دیکھنا یہ بھی ہوگا کہ کیا پنجاب میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ق کا سیاسی انتخابی اتحاد ممکن ہو سکے گاکیونکہ اس بات کے امکانات محدود ہونگے کہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق میں انتخابی اتحاد ہو سکے اور اس بار عمران خان مسلم لیگ ق کے مقابلے میں اپنے امیدوار بھی کھڑا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں یعنی مسلم لیگ ق کے مقابلے میں تحریک انصاف کا امیدوار نہ کھڑے کرنے کا فیصلہ ختم ہوسکتاہے۔ یہ ہی وہ نقطہ ہوسکتا ہے جو مسلم لیگ ق اور پیپلزپارٹی میں انتخابی اتحاد کو قائم کرسکے۔

تحریک انصاف کی سیاسی حکمت عملی میں اس بار سندھ کارڈ بھی نمایاں ہوگا۔ آنیوالے کچھ عرصہ میں ہمیں سندھ کی سطح پر تحریک انصاف کا ایک سرگرم سیاسی میدان دیکھنے کو ملے گا۔ اس بار تحریک انصاف گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے مقابلے میں خود بطور جماعت انتخابی سیاست میں سامنے آئیگا۔ اسی بنیاد پر پیپلزپارٹی مخالف لوگوں کی براہ راست تحریک انصاف میں شمولیت کے مناظر بھی دیکھنے کو ملیں گے۔ اسی کو بنیاد بنا کر وزیر اعظم کے سندھ کے دوروں کو حتمی شکل دی جا رہی ہے کیونکہ اگر زرداری پنجاب میں سرگرم ہوتے ہیں تو جوابی حکمت عملی کے تحت سندھ میں تحریک انصاف بھی اپنا سیاسی رنگ دکھانے کی کوشش کریگی۔

عام انتخابات سے قبل اس بات کے امکانات بھی موجود ہیں کہ ہمیں چاروں صوبوں میں مقامی حکومت کے انتخابات کے مناظر بھی دیکھنے کو ملیں گے۔ اگرچہ صوبائی حکومتیں ان انتخابات کے انعقاد میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہی، مگر سپریم کورٹ کے دباؤ پر ان انتخابات کا انعقاد کا امکان ہوسکتا ہے۔ ان مقامی حکومتوں کے انتخابات کے نتائج میں بھی کافی حد تک عام انتخابات کے سیاسی نتائج کی ایک جھلک دیکھنے کو مل سکتی ہے۔

صوبائی حکومتوں کی پوری کوشش ہوگی کہ وہ ان مقامی حکومتوں کے انتخابی نتائج کو اپنے حق میں تبدیل کریں تاکہ عام انتخابات کے نتائج کو اپنے حق میں کرنے کی طرف پیشرفت کرسکیں۔ مقامی حکومتوں کے انتخابات کی بڑی جنگ بھی ہمیں پنجاب کی سیاست میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان دیکھنے کو ملے گی۔ اس کی پہلی جھلک ہمیں کنٹونمنٹ بورڈ کے مقامی انتخابات ہیں جو اس برس ستمبر میں ہورہے ہیں اور یہ انتخابات بھی جماعتی بنیادوں پر منعقد ہونگے۔

تحریک انصاف کا بڑا چیلنج اپنی حکومت کی کارکردگی کو بہتر انداز میں پیش کرنا ہے۔ ان کے بقول صحت کارڈ، احساس پروگرام، خدمت کارڈ، کسان کارڈ، مکانوں کی تعمیر کے لیے کم شرح پر قرضوں کی فراہمی، تین مرحلہ تعمیر شدہ پانچ لاکھ مکانوں کی تقسیم اور انتخابات سے قبل مہنگائی پر قابو پانے کے لیے سبسڈی دے کر اپنی حکومت کی بہتر تصویر پیش کرنا ہے لیکن اہم بات یہ ہی ہے کہ کیا عام انتخابات سے قبل حکومتی بہتر کارکردگی کی تصویر عام آدمی میں مثبت طور پرپیش ہوسکے گی۔

مذہبی سیاست کے حوالے سے ایک امکان یہ موجود ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے کوئی بڑا انتخابی اتحاد یا باہمی انتخابات لڑنے کی حمایت نہیں مل سکے گی۔ ایسی صورت میں مولانا فضل الرحمن کی کوشش ہوگی کہ وہ اسلامک فرنٹ کی طرز پر مذہبی جماعتوں کا انتخابی اتحاد قائم کرسکیں۔ اسی طرح اگر تحریک لبیک پر پابندی ختم ہوتی ہے تو وہ کسی اتحاد کا حصہ بنتی ہے یا تنہا انتخاب میں حصہ لے گی۔

ہر حلقہ میں ان کے پاس دس سے پندرہ ہزار ووٹ موجود ہیں اور وہ تنہا اگر انتخاب میں حصہ لے گی تو اس کا نقصان پنجاب میں دونوں بڑی جماعتوں کو ہوگا۔ ایم کیوایم کی بھی کوشش ہوگی کہ وہ کراچی کے اگلے انتخابات متفقہ طور پر لڑیں۔ مولانا فضل الرحمن کو آج بھی خیبر پختونخواہ میں کافی چیلنج کا سامنا ہے اور ان کے لیے سیاسی طور پرخبریں بھی اچھی نہیں ہیں اس لیے ساری سیاسی جماعتیں نئی صف بندی میں مصروف ہیں اور خو کے لیے اپنے اپنے سیاسی محفوظ راستے کی تلاش میں ہیں۔