Saturday, 16 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Pak Bharat Taluqat Aur Pas e Parda Diplomacy

Pak Bharat Taluqat Aur Pas e Parda Diplomacy

پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری میں بڑی رکاوٹ دونوں اطراف موجود بداعتمادی، تعصب اور مخاصمت کی شکل میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ نریندر مودی کے دور اقتدار میں بالخصوص ہمیں بھارت کی جانب سے پاکستان سے تعلقات کے تناظر میں زیادہ شدت پسندی، انتہا پسندی یا ڈیڈلاک کا سامنا رہا ہے۔

حالیہ کچھ عرصہ میں ہمیں پاکستان اور بھارت کی جانب سے کچھ پس پردہ مذاکرات کی خبریں ملی ہیں۔ جس سے یوں لگتا ہے کہ دونوں ممالک " بیک ڈور چینل ڈپلومیسی یا سفارت کاری " کی صورت میں ایک دوسرے کے ساتھ بہت سے اہم امور پر بات چیت کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ شاید اسی بیک چینل ڈپلومیسی کے نتیجہ میں دونوں ممالک کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر سیز فائر پر رضامند ہوگئے۔

پچھلے کچھ عرصہ میں ہم نے دیکھا کہ بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر شدید بمباری کے باعث صورتحال کافی بدتر تھی۔ اب نئی جنگ بندی کے بعد لائن آف کنٹرول پر صورتحال پرامن اور مستحکم ہے، جو مثبت پیش رفت ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی بھارت اس وقت پاکستان سے حقیقی معنوں میں دو طرفہ تعلقات کی بہتری کا حامی ہے یا اس وقت ہم جو کچھ بھارت کی طرف سے مثبت پہلو دیکھ رہے ہیں وہ محض عالمی دباؤ کا نتیجہ ہے۔

بہت سے لوگوں کی رائے ہے کہ حالیہ پاک بھارت پس پردہ چلنے والی ڈپلومیسی کے پیچھے بڑی طاقتوں کی بھی دباؤ کی سیاست ہے۔ یہ دباؤ جہاں پاکستان پر ہے وہیں بھارت پر ہم سے زیادہ دباؤ ہے۔ کیونکہ بھارت پاکستان کی طرف سے مسلسل مذاکرات اور تعلقات کی دعوت یا خواہش کو پاکستان کی کمزوری سمجھ کر نظر انداز کرتا رہا ہے۔ لیکن اب امریکا سمیت سعودی عرب، متحدہ عرب امارات نے بھی بھارت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ خطے کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر پاکستان سے تعلقات میں بہتری پیدا کرے اور دو طرفہ مذاکرات کی سیاسی میز کو سجانے کا اہتمام کیا جائے۔

امریکا کی پالیسی چاہے وہ ٹرمپ کے دور کی تھی یا اب بائیڈن کے دور کی ہے ان کی پالیسی میں پاک بھارت ٹکراؤ نہیں بلکہ سیاسی فاصلوں کو بڑھانا اور بداعتمادی کو کم کرنا ہے۔ یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ چین کے اس خطہ میں موثر اور بڑھتے ہوئے کردار کے بعد بھارت میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ ہمیں چین اور پاکستان کو کسی نہ کسی شکل میں اعتماد میں لے کر آگے بڑھنا اور ٹکراؤ کی پالیسی سے گریز کرنا ہوگا۔ کیونکہ بھارت کوخطہ میں بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال سمیت خود ایران سے بھی مشکلات کا سامنا ہے۔

اگرچہ امریکا چین کے مقابلے میں بھارت کی بڑی حمایت کرتا ہے مگر اب امریکا کو بھی اس بات کا اندازہ ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت میں ٹکراؤ برقرار رہتا ہے تو اس سے خود امریکا کے مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جو لوگ اس وقت پاک بھارت مفاہمتی سیاسی میز سجانے میں پیش پیش ہیں ان کے بقول دونوں ملکوں کے درمیان فوری طور پر تنازعات سے جڑے معاملات کا حل ممکن نہیں۔ کوشش یہ کی جارہی ہے کہ کم ازکم دونوں ملکوں میں مختلف امور پر جو تناؤ یا بدمزگی ہے اسے کم کیا جائے تاکہ کم از کم یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی، تجارتی اور سماجی رابطے بحال کرسکیں۔

میں یہ بات تواتر سے لکھتا رہا ہوں کہ اگر دونوں ممالک کے درمیان کچھ مثبت ہونا ہے تووہ عالمی قوتوں کی مداخلت اور دباؤ کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔ پاکستان نے پچھلے چند برسوں میں ہر محاذ پر یہ واضح پیغام دیا کہ ہم بھارت سے بہتر تعلقات کے حامی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے بقول بھارت ایک قدم آگے بڑھائے ہم تین قدم آگے بڑھائیں گے اور دونوں ممالک کو تنازعات، ٹکراؤ، ڈیڈلاک یا کشیدگی سمیت جنگی ماحول کو پیدا کرنے یا الزام تراشیوں کی سیاست کے بجائے دونوں ملکوں کے عوام کی ترقی اور خوشحالی کو بنیاد بنانا ہوگا۔

آرمی چیف جنرل باجوہ نے ایک قدم آگے بڑھ کر بھارت سمیت تمام علاقائی ممالک کو واضح پیغام دیا کہ ہمیں ماضی سے باہر نکل کر مستقبل کی طرف اور معاشی ترقی اور دوطرفہ امکانات کو بنیاد بنا کر نہ صرف اپنے ملک کو بلکہ مجموعی طور پر خطہ کی معاشی ترقی کے امکانات کو آگے بڑھانا ہے۔ عالمی سطح پر سفارت کار اور میڈیا سمیت پاک بھارت تعلقات کی سمجھ بوجھ رکھنے والے ماہرین بھی اتفاق کرتے ہیں کہ اس وقت بھارت کے مقابلے میں پاکستان کا بیانیہ زیادہ تعلقات کی بہتری چاہتا ہے۔

اصل مسئلہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال ہے۔ پاکستانی حکومت یہ واضح پیغام بھارت سمیت عالمی دنیا کو دے رہی ہے کہ اگر کچھ مثبت طور پر آگے بڑھنا ہے تو پہلے مسئلہ کشمیر پر کوئی بڑی پیش رفت کرنی ہوگی۔ وزیر اعظم عمران خان کے بقول مقبوضہ کشمیر میں 370 سمیت 35-Aاور انسانی حقوق کی پامالی اور کرفیو کے خاتمہ تک پاکستان کچھ نہیں کرسکے گا۔

بھارت کو داخلی اور خارجی سمیت انسانی حقوق سے جڑے اداروں کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی پر شدید تنقید کاسامنا ہے۔ پاکستان کو بنیادی طور پر اپنی سیاسی، سفارتی اور ڈپلومیسی کو بنیاد بنا کر اسی بیانیہ کو ملکی، علاقائی اور عالمی سطح پر اجاگر کرنا ہے کہ تعلقات کی بہتری میں رکاوٹ پاکستان نہیں بلکہ خود بھارت ڈیڈ لاک پیدا کرنے کا اصل ذمے دار ہے۔

کیونکہ ممکن ہے کہ بھارت پر جو عالمی دباؤ ہے وہ اسے کم کرنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ کسی نہ کسی سطح پر پاکستان کو اس سے جوڑ کر تاخیری حربے اختیار کیے جائیں۔ بنیادی طور پر پاک بھارت تعلقات میں جہاں دونوں ملکوں پر بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے وہیں اصل کنجی بھارت کی کورٹ میں ہے اور یہ بھارت کو ہی طے کرنا ہے کہ کیا وہ پاکستان سمیت خطہ میں ترقی، خوشحالی اور معاشی ترقی کو بنیاد بنانا چاہتا ہے یا وہ ہی روائتی جنگی جنون، دشمنی کی بنیاد پر معاملات کو جوں کا توں رکھنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے اسے مقبوضہ کشمیر میں پانچ اگست 2019سے قبل کی حیثیت کو کسی نہ کسی شکل میں بحال کرنا اور وہاں انسانی حقوق کی پامالی کو ختم کرکے کچھ غیر معمولی اقدامات اٹھانے ہونگے۔

وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر عملی طور پر بھارت کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اگر وہ کشمیر کی سابقہ حیثیت کو بحال کرنے کا روڈ میپ دے تو مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ ان کے بقول بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے ریڈ لائن کراس کی ہے، جب کہ میں ہمیشہ سے مہذبانہ طور پر تعلقات کی بہتری کا حامی رہا ہوں اور بھارت کو مذاکرات کی ہی راستہ اختیار کرنا ہوگا اور یہ ہی عمل خطہ میں غربت کے خاتمہ میں بھی مدد دے گا۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ بھارت میں جو ڈپلومیسی کا عمل جاری ہے۔

اس پر نریندر مودی کہاں تک آگے بڑھتے ہیں اور خاص طور پر جنونی ہندوؤں کو کس حد تک روکتے ہیں جن میں دشمنی کا پہلو بہت نمایاں ہے۔ اصولی طور پر جو ابتدائی ڈپلومیسی کا عمل شروع ہوا ہے اسے ہر سطح پر نہ صرف ہم سب کو مستحکم کرنا ہے بلکہ اس عمل کو اب سیاسی، سماجی اور حکومتی سطح پر بھی آگے بڑھانا ہوگا۔

بالخصوص دونوں ملکوں کا میڈیا اور سول سوسائٹی اس عمل میں دشمنی اور تناؤ کی سیاست کے بجائے ایک دوسرے کو قریب لانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ کیونکہ اب دورجنگی جنون، تنازعات، تناؤ اور دشمنی کی بنیاد پر ایک دوسرے کے وجود کو چیلنج کرنے کا نہیں بلکہ معاشی ترقی کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنے کا ہے۔ اگرچہ دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کی موثر اور پائیدار بحالی ایک بڑا چیلنج ضرور ہے، مگر یہ عمل ناممکن نہیں اور اس کے لیے اسے ترجیحی بنیادوں پر اپنی بنیاد بنانا ہوگا۔