پاکستان کا حالیہ بحران سنگین بھی ہے اور ایک ادارہ جاتی عمل میں ٹکراؤ کی کیفیت کو بھی نمایاں کرتا ہے۔ دو بنیادی نوعیت کے مسائل اس وقت ہمیں درپیش ہیں۔
اول حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان نہ صرف بداعتمادی بلکہ ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو قبول نہ کرنے کی روش سے تلخی کا ماحول، دوئم اسٹیبلیشمنٹ اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے، بدگمانی سمیت عملی طور پر براہ راست اداروں اور ان کے سربراہان پر تنقید اور الزامات کی بوچھاڑ۔ حزب اختلاف کا نیا اتحاد "پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ" کا اس وقت خصوصی ٹارگٹ جہاں عمران خان ہیں وہیں وہ اسٹیبلیشمنٹ کو بھی متنازعہ یا فریق بنا کر اسٹیبلیشمنٹ اور حکومت کے درمیان ٹکراؤ پیدا کرنا چاہتی ہے۔ یہ ٹکراؤ کی کیفیت کسی بھی صورت پاکستان، سیاست، جمہوریت اور ریاست کے مفاد میں نہیں ہے۔
حزب اختلاف کے اتحاد کے تحت ہونے والے جلسوں میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر سیاسی گفتگو یقینی طور پر مناسب نہیں اور نہ ہی یہ ملک کے مفاد میں ہے۔ حزب اختلاف کے لوگوں کے لہجے میں تلخی کا پہلو نمایاں ہے۔ وہ براہ راست اسٹیبلیشمنٹ کو فریق سمجھتے ہیں اوران کے بقول عمران خان کی حکومت کی حقیقی حامی عوام نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ ہے۔
ان کا مطالبہ ہے کہ عمران خان کی حکومت کو اسٹیبلشمنٹ ہی چلتا کرے اورملک میں نئے منصفانہ اور شفاف انتخابات کو یقینی بنائے۔ یہ شفاف انتخابات کیسے ہونگے اور ہارنے والا کیونکر انتخابی نتائج کو قبول کرے گا اورکیسے اسے مداخلت سے پاک انتخاب بنایا جائے گا، خود ایک بڑا سوال ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف حزب اختلاف کی سیاست میں بڑی پرجوشیت یا جذباتیت کا پہلو نمایاں ہے تو دوسری جانب حکومت بھی معاملات کو ٹھنڈا کرنے یا حزب اختلاف کو سیاسی مکالمہ میں لانے کی بجائے خود ایک ردعمل کی سیاست میں الجھی نظر آتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان جارحانہ حکمت عملی کے تحت حزب اختلاف کو سخت چیلنج کررہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اوران کے وزرا، مشیروں کا لہجہ یا طرز عمل کافی جارحانہ ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ دونوں یعنی حکومت اورحزب اختلاف ایک دوسرے کو نیچا دکھانے یا گرانے کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ایک طرف حزب اختلاف اسٹیبلیشمنٹ کو ٹارگٹ کررہی ہے تو دوسری طرف حکومت کے بیانات میں بھی بلاوجہ اسٹیبلشمنٹ کو گھسیٹا جاتا ہے۔
اس صورتحال کے دو امکانی نظر نامے ہوسکتے ہیں۔ اول حکومت اورحزب اختلاف کی لڑائی میں اسٹیبلیشمنٹ کو اور زیادہ متنازعہ بناکر ان کی ساکھ پر سوالات اٹھائے جائیں۔ اس کا نتیجہ پہلے سے جاری ٹکراؤ کی سیاست میں اور زیادہ تلخی یا ٹکراؤ کو پیدا کرے گا یا اداروں کے درمیان مقابلہ بازی یا تقسیم کا سبب بنے گا۔ یہ عمل یقینی طور پر قومی مفاد میں نہیں ہوگا۔
دوئم طاقت کے تمام مراکز میں موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک نیا سنجیدہ مکالمہ کیا جائے۔ اس میں حکومت، حزب اختلاف سمیت تمام اداروں کے اہم افراد بھی بیٹھیں اور معاملات کو افہام تفہیم سے سلجھانے کی کوشش کریں۔ کیونکہ مسائل کا حل ہم ٹکراؤ کی بجائے مکالمہ سے ہی تلاش کرسکتے ہیں۔
طاقت کے مراکز میں اس مکالمہ کی بحث نئی نہیں ہے۔ پہلے بھی کئی افراد انفرادی سطح پر اس طرز کے مکالمہ کی حمایت کرچکے ہیں۔ چوہدری احسن اقبال، شاہد خاقان عباسی، سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی، سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ، کئی اہل دانش، علمی و فکری راہنما، سابق بیوروکریٹ، سابق فوجی افسران ایک سے زیادہ مرتبہ بحران کا حل " طاقت کے مراکز میں ایک نیا مکالمہ " تجویز کرچکے ہیں۔ لیکن اس تجویز کوکوئی بڑی سیاسی پزیرائی نہیں مل سکی۔
ماضی میں سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے براہ راست صدر مملکت عارف علوی سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ذاتی کوشش سے اداروں کے درمیان مکالمہ کا اہتمام کریں تاکہ ایک نیا چارٹر آف گورننس سامنے آسکے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ تمام اداروں کو اپنی سیاسی، قانونی، انتظامی یا ادارہ جاتی حدود میں رہنا ہوگا اوراپنے اپنے دائر ہ کار سے تجاوز کی پالیسی سے گریز کرنا ہوگا۔ اگرچہ بہت سی حدود اس وقت قانون میں موجود ہیں، لیکن سب جانتے ہیں کہ اس پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ خرابی کسی ایک فریق کی جانب سے نہیں بلکہ تمام ہی اپنی اپنی سطح پر غلطیوں یا حدود سے تجاوز کررہے ہیں۔ ایسے میں اس طرز کے "مکالمہ " کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کہ تمام فریق مل بیٹھ کر متبادل حکمت عملی پر اتفاق کرکے آگے بڑھیں۔
سیاست اورجمہوریت کے لیے خود ریاست اوراس کے اداروں کا مضبوط ہونا بھی بہت ضروری ہوتا ہے اورہمیں ایسے طرز عمل سے گریز کرنا چاہیے جو داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر بطور ریاست ہماری مشکلات میں اضافہ کرنے کا سبب بنیں۔ اس سوچ اور فکر سے بھی سب کو آزاد ہونا ہوگا کہ سب خرابیاں محض ایک ہی ادارے میں ہیں اور باقی سب شفافیت کے ساتھ کھڑے ہیں۔
مسائل سب میں ہیں اور سب نے اپنی اپنی سطح پر ماضی اورحال میں غلطیاں کی ہیں۔ اگر ان غلطیوں کی اصلاح کرنی ہے تو سب کو اپنی اپنی غلطیوں کو تسلیم کرکے ہار یا جیت کی بجائے ملکی مفاد کے تحت اصلاحاتی عمل کو آگے بڑھانا ہوگا۔
یہ مکالمہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ پاکستان داخلی اورخارجی دونوں محاذوں پر جس مشکل دور سے گزررہا ہے اورجو ہماری علاقائی سیاست سے جڑے مسائل ہیں یا جو ہمیں معاشی بحران کا سامنا ہے اس کا حل ایک مضبوط سیاسی استحکام سے ہے۔
عدلیہ کا شفاف نظام یا احتساب کا شفافیت پر مبنی نظام، سیاسی مداخلتیں، شفاف انتخابات، سیکیورٹی سے جڑے مسائل یا معاشی استحکام کے روڈ میپ پر ہمیں نئی سوچ کی ضرورت ہے۔ اسی طرح جو سیاسی یا ادارہ جاتی تلخی ہے اس کا علاج بھی اسی مکالمہ اوراس کے نتیجے میں بننے والا بڑا اتفاق رائے ہی مسائل کے حل کی کنجی بن سکتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ مکالمہ کیسے ہوگا اورکون اس کی پہل کرے گا۔ اصولی طور پر تو اس کا آغاز خود حکومت کو کرنا چاہیے یا صدر مملکت کو یہ ذمے داری دینی چاہیے کہ وہ اس کا آغاز کریں اور حکومت سمیت حزب اختلاف اس مکالمہ کی کھل کر حمایت کرے۔ کیونکہ جو بحران ہے اس کا علاج محض نئے انتخابات یا حکومت کا خاتمہ نہیں۔ کیونکہ طاقت کے زور پر حکومتوں کو گھر بھیجنا یا ماضی کی طرز کے انتخابات کا کھیل بھی مزید نئے انتشار کو جنم دے گا اور صرف کھیل کے فریق بدلیں گے اور تماشہ جاری رہے گا، جو ملکی مفاد میں نہیں ہوگا۔