فنانشل ایکشن ٹاسک فورس)ایف اے ٹی ایف(کے صدر ڈاکٹر مارکوس پلییر نے حالیہ اجلاس میں کہا ہے کہ اگرچہ پاکستان کی کارکردگی کافی حوالے سے حوصلہ افزا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کو بدستور نگرانی میں رکھا جائے گا، ہم امیدکرتے ہیں کہ وہ اگلے اجلاس سے قبل باقی ماندہ چار نکات پر بھی شفافیت کے ساتھ کام کرے گا۔
ان کے بقول پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کی بحث کہیں بھی ایجنڈے کا حصہ نہیں بلکہ ہم مزید شفافیت اور موثر اقدامات چاہتے ہیں۔ یہ فیصلہ غیر متوقع نہیں تھاکیونکہ عالمی اورعلاقائی تبدیلیاں یا واقعات رونما ہورہے ہیں ان میں فی الحال پاکستان پر دباؤ بڑھانا ہی عالمی سیاست او راس سے جڑے اداروں کا متفقہ فیصلہ ہے۔ بظاہر یہ ہی لگتا ہے کہ پاکستان پر دباؤ کی پالیسی مزید سخت ہوگی۔
پاکستان کو جون 2018میں ایف اے ٹی ایف نے گرے لسٹ میں شامل کیا تھا اورایک ایجنڈا ہمیں تھمایا گیا کہ اگر اس بحران سے باہر نکلنا ہے تو 27نکات پر عملدرآمد کرکے عالمی دنیا کو مطمئن کرنا ہوگا۔ 2018 کے ایکشن پلان میں شامل 27نکات کا بغور جائزہ لیں تو اس میں سے 26نکات پر ہم مکمل عملدرآمد کر چکے ہیں اور 15پر مختلف نوعیت کی قانون سازی بھی کی جاچکی ہے۔
امریکا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے پر زور دیا تھا۔ پھر جون 2021میں ہمیں ایف اے ٹی ایف کی جانب سے جو مزید سات اہم نکات دیے گئے تھے، ان میں سے بھی چار پر پاکستان مکمل عملدرآمد کرچکا ہے اور باقی تین پر مختلف اقدامات کا عمل بھی جاری ہے۔ اسی طرح دہری نگرانی کے 34میں سے 30نکات پر عمل کیا گیا ہے۔ اب ایف اے ٹی ایف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ آپ کا فیصلہ فروری2022کے اجلاس میں ہوگا۔
عالمی طاقت ور ممالک بشمول امریکا نے اپنے عالمی ایجنڈے اور سیاسی عزائم کی تکمیل کے لیے اس طرز کے اداروں کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی حکمت عملی بنائی ہوئی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف کو " فنانشل ایکشن ٹاسک فورس "کے مقابلے میں " پولیٹیکل ایکشن ٹاسک فورس " کہا جاتا ہے۔
اس وقت جن بڑے چیلنجز کو سامنے رکھ کر ہمیں ایف اے ٹی ایف کے فیصلہ کو سمجھنا ہوگا ان میں پاک امریکا تعلقات اور وزیر اعظم کی جانب سےNot Absolutely کا بیانیہ، افغانستان میں امریکا کی پسپائی، پاک بھارت تعلقات کا بگاڑ، افغانستان میں بھارت کی پراکسی وار، پاکستان چین تعلقات اور سی پیک سمیت نئے علاقائی بلاکس یا امریکا بمقابلہ چین جیسے امور کو سامنے رکھ کر ہی فیصلے کیے جارہے ہیں۔
ہم اگر آج چین کے مقابلے میں امریکا سے سیاسی پینگیں بڑھائیں او رامریکی ایجنڈے میں وہ سب کچھ کریں جو امریکا چاہتا ہے جس میں فضائی اڈوں کی فراہمی اور افغانستان سمیت خطہ میں بھارت کے کردار کو تسلیم کرلیں تو یہ سب مسائل او رمشکلات سے ہم باہر نکل سکتے ہیں۔
اصولی طور پر طاقت ور ممالک نے دنیا کے کمزور ملکوں کو دباؤمیں رکھنے کے لیے مختلف ادارے بنا رکھے ہیں۔ ایران پہلے ہی بلیک لسٹ میں ہے اور اب ترکی کو بھی نشانہ بنایاگیا ہے۔ پیغام یہ ہی ہے کہ ہمارے آگے جھکو وگرنہ نتائج کا سامنا کرو۔
ایف اے ٹی ایف نے جس انداز سے پاکستان پر اپنا دباو بڑھایا ہے وہ دباؤ بھارت کے لیے بالکل نہیں۔ حالانکہ دہشت گردی او ردہشت گردوں کو مالی معاونت کے سنگین الزامات بھارت پر ہیں۔ یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ بھارت پاکستان کو ہر صورت میں بلیک لسٹ میں ڈالنا چاہتا ہے اور وہ عالمی دنیا میں اس بیانیہ کو پھیلاتا ہے کہ پاکستان اور دہشت گردوں کا باہمی گٹھ جوڑ ہے او رپاکستان کی ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے تمام تر کوششیں یا دعوے جھوٹ پر مبنی ہیں۔
ایف اے ٹی ایف ہو یا ایشیا پیسیفک گروپ ہو ان کے مطالبات او راقدامات سمیت نگرانی کا عمل خود پاکستان کے لیے بھی ایک اچھا موقع ہے کہ وہ اپنے گھر میں موجود خامیوں کی اصلاح بھی کرے۔ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، اسلام آباد کے مرتب کردہ انفو لیٹکس ایشوز کے مطابق پاکستان ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں ایف اے ٹی ایف ایکشن پلان کی عدم تعمیل کا تناسب سب سے کم ہے لیکن اس کے باوجود دہست گردی کی جنگ میں امریکا کے اتحادی اور زیادہ قربانی دینے کے باوجود ہم بدستور گرے لسٹ میں ہیں، جب کہ اس کے برعکس فرانس جیسے ملک کی عدم تعمیل کی شرح 25فیصد ہے مگر ایف اے ٹی ایف اس پر خاموش ہے۔
لیکن اس کے باوجود ہمیں کسی بڑ ے جذباتی سطح کے ردعمل کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اپنی توجہ ان نکات پر دینی چاہیے جو ہمیں آگے جاکر سرخرو کرنے میں مدد دے سکے۔ لیکن اس کے لیے ہمیں ان موثر اقدامات کے ساتھ ساتھ سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ پر زیادہ سرگرم، مدلل، ٹھوس بنیادوں پر اپنا مقدمہ عالمی سفارت کاری میں پیش کرنا ہوگا۔ دنیا کو باور کروانا ہوگا کہ ہم جہاں درست سمت میں جارہے ہیں وہیں ہمیں عالمی طاقتوں کے دوہرے معیار کا بھی سامنا ہے۔