پاکستان کی نظریاتی اور فکری صحافت کی جانب نظر ڈالیں تو ہمیں دائیں اور بائیں بازو کی سطح پر کئی ایسے بڑے نام نظر آئیں گے جنھوں نے اپنی فکری و عملی بیانیہ کی بنیاد پر صحافتی محاذ پر ایک بڑی جنگ لڑی ہے۔ یہ جنگ محض صحافت کے میدان تک محدود نہیں بلکہ ان کی جنگ کا دائرہ کار جمہوریت، قانون کی بالادستی، انسانی حقوق اور عام آدمی کے تحفظ سمیت آئین کی حرمت سے جڑی ہوئی ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ آج اگر ہماری صحافت کو کسی بھی محاذ پر ایک اچھے نام سے یاد رکھا جاتا ہے تو اس کی ایک بڑا سہرا ان بڑے صحافیوں کو جاتا ہے جنھوں نے اس صحافتی محاذ پر اپنے قلم کی مدد سے پڑھنے والوں کو فکری راہنمائی یا روشنی فراہم کی ہے۔ انھوں نے صحافتی اور سیاسی محاذ پر نیک نامی اور جرات کے ساتھ اپنا صحافتی سفر جاری رکھا۔
اب بھی کئی ایسے نامور صحافی موجود ہیں جو اب80برس کی عمر کو پہنچ چکے ہیں لیکن اس پیرانہ سالی کے باوجود صحافت اور قلم سے رشتہ قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے بقول جب تک زندگی کی آخری سانس باقی ہے تو وہ اس محاذ پر ڈٹے رہیں گے۔ صحافت محض ان کا پیشہ ہی نہیں بلکہ ایک جنون اور لگن یا شوق کی حیثیت رکھتاہے۔ ان بزرگوں نے پڑھنے لکھنے کو اپنے جنون کا حصہ بنایا اور یہ عمل آج تک جاری ہے۔
بدقسمتی سے کئی بڑے صحافی اپنی یاداشتوں کو ترتیب دیے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اصولی طور پر یہ کام افراد نہیں بلکہ ادارے کرتے ہیں۔ یہ نوجوان صحافیوں کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ان بڑے ناموں کی یاداشتوں کو ترتیب دینے میں ان افراد کی معاونت کرتے مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ البتہ چند ایسے ہیں جنھوں نے اس کی اہمیت کو سمجھا اور اپنی زندگی میں ہی اپنی صحافتی و سیاسی یاداشتوں کو ترتیب دے کر بڑا کام کیا ہے۔۔ ایک صحافتی کارکن سے ایڈیٹر تک کا سفرایک ایسی داستان ہوتی ہے جو صحافت کے میدان میں نئے آنے والے دوستوں کے لیے بہت کچھ سیکھنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔
جمہوریت، اسلام، نظریہ پاکستان، قانون کی بالادستی یا حکمرانی اور اخلاقی قدروں پر وابستگی کسی شک وشبہ سے بالاتر رہی ہے۔ دائیں بازو اور بائیں بازو دونوں نظریات کے حامی سنئیر صحافیوں نے صحافت کے پیشہ کو ایک نظریہ کے طور پر اختیار کیا اور اس مشن پر ابھی تک قائم ہیں۔ عمومی طور پر نئی نسل کے لوگ پرانے دور کی صحافت اور اس سے جڑے معاملات سے آگاہی نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کو اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ یہ بڑے نام کیسے بڑے نام بنے اور اس کی پیچھے ان کی کیا جدوجہد تھی۔ خاص طور پر ان بڑے ناموں کی جدوجہد، مطالعہ اور اپنے کام میں مستقل مزاجی سمیت محنت کی عادت نے ان کو کیسے اس بڑے مقام تک پہنچایا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہم بزرگوں کی صحافتی زندگی کے معاملات پر نئی نسل کو ضرور آگاہی ہونی چاہیے۔
وہ نسل جو میڈیا کو بطور پروفیشن اختیار کرنا چاہتی ہے، انھیں ان نامور سنئیر صحافیوں کی کتابیں پڑھنی چاہیں جھنوں نے اپنی سوانح عمری تحریر کی ہیں۔ یہ کتابیں نوجوان صحافیوں کو راہنمائی دے سکتی ہے کہ کیسے ان کو اس پروفیشن میں آگے بڑھنا چاہیے۔ کیونکہ عام طور پر لوگ ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھ کر یا علم حاصل کرکے ہی اپنے مستقبل کا تعین کرتے ہیں۔ اسی طرح ہماری صحافتی تاریخ ایک اہم دستاویز ہے جس کی مدد سے ہماری صحافتی تاریخ اور اس سے جڑے معاملات کو بھی سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔