سیاست اور جمہوریت کی بنیادی خوبی مفاہمت یا آگے بڑھنے کا سیاسی راستہ تلاش کرنا ہوتاہے۔ یہ ہی عمل ملک کو سیاسی استحکام دینے کا سبب بنتا ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت ملک میں سیاست کا جو چال چلن ہے اور جو کچھ حالیہ دنوں میں سیاسی ماحول دیکھنے کا موقع مل رہا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم بند دروازوں کو کھولنے کے بجائے انھیں بند کرنے یا مفاہمت کے بجائے ٹکراؤ کی سیاست کو تقویت دینا چاہتے ہیں۔
حکومت ہو یا حزب اختلاف، میڈیا ہو یا اہل دانش سمیت علمی و فکری حلقوں میں محاذآرائی او رٹکراؤ کی سیاست غالب ہے۔ ہم بنیادی طورپر قومی سیاست سے جڑے مسائل جن میں سیاسی، سماجی، انتظامی، قانونی، علاقائی، عالمی یا داخلی سطح کے مسائل کو پہلے سے زیادہ گھمبیر بنانے کے کھیل کا حصہ بن گئے ہیں۔ یہ کھیل جہاں غیر شعوری طور پر ہورہا ہے، وہیں کچھ انفرادی یا اجتماعی سطح کے افراد یا ادارے شعوری طو رپر ملک کو کمزور کرنے کا کھیل کھیلنے کی کوشش کررہے ہیں۔
حالیہ بحران حکومت گرانے یا حکومت کو بچانے کی صورت میں سیاسی منظر نامہ پر غالب ہے۔ بدقسمتی سے اس ملک کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہاں حکومت اورحزب اختلاف دونوں کی سطح پر ایک دوسرے کے سیاسی مینڈیٹ کو قبول کرنے کا رواج نہیں۔ ہم حکومت میں ہوں تو حکومت بچانے اوراگر حزب اختلاف میں ہوں تو حکومت گرانے کے کھیل کا حصہ بن جاتے ہیں۔
اس کھیل میں ہم اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت اور مخالفت کو بطور ہتھیار استعمال کرکے اپنے سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں اورسیاسی قیادت کا یہ طرز عمل عملی طور پر ملکی سیاست او رجمہوریت کو کمزور کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ سیاسی فریقین اپنی اپنی سیاسی مخالف جنگ سیاسی اور قانونی دائرہ کار میں لڑنے کے بجائے ایسے طور طریقے یا طرز عمل اختیار کرتے ہیں جو سیاست اورآئین سمیت جمہوریت کے برعکس ہوتا ہے۔
حزب اختلاف کے پاس یہ سیاسی اورآئینی حق ہمیشہ ہوتا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف اپنی عددی برتری ظاہرکرکے وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو پیش کرسکتے ہیں۔ اسی طرح حکومت کے پاس بھی یہ ہی سیاسی اور قانونی اختیار ہوتا ہے کہ وہ اسی فریم ورک میں اپنی عددی برتری کو برقرار رکھنے کی حکمت عملی اختیار کرے۔ لیکن اس کے لیے اگر دونوں فریقین قانونی یا آئینی راستہ کو اختیار کرنے کے بجائے ایسا راستہ اختیار کریں جو ٹکراؤ یا تصادم کی طرف لے کر جائے تو اس سے حالات درست نہیں بلکہ اور زیادہ بگاڑ کا شکار ہوں گے۔
حکومت اور حزب اختلاف کا تحریک عدم اعتماد سے پہلے اسلام آباد میں دس سے بیس لاکھ افراد کی مدد سے اپنی اپنی سیاسی قوت کا عملی مظاہرہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم سیاسی اور قانونی معاملات کو پارلیمنٹ کے بجائے میدان میں جنگ کی بنیاد پر جیتنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ اصول تو یہ ہی کہتا ہے کہ " عددی برتری کو بنیاد بنا کر" اس بات کا فیصلہ ہونا چاہیے کے پارلیمنٹ میں کس کی برتری باقی ہے، کون جائے گا اورکون اس کے متبادل کے طور پر سامنے آئے گا۔
ارکان پارلیمنٹ کو دباو میں لانا، ہارس ٹریڈنگ کرنا، سیاسی اورمالی لالچ دینا، اپنی ہی جماعتوں میں ارکان پر شکو ک شہبات پیدا کرنا، ان کی جاسوسی یا نگرانی کرنا، ارکان کو بند کرکے یرغمال بنانا، ارکان پارلیمنٹ کو سیاسی دھمکیاں دینا، سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ کرنا یا ارکان کو توڑنا ظاہر کرتا ہے کہ ہماری موجودہ سیاست کی سیاسی اوراخلاقی قدریں کہاں کھڑی ہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ حکومت ہو یا حزب اختلاف اس طرز عمل سے وہ کوئی جمہوریت کی خدمت کررہے ہیں یا اس سے جمہوریت مستحکم ہوسکے گی تو ہمیں اس خوشی فہمی پر مبنی سیاست سے باہر نکلنا ہوگا۔
یہ جو حالیہ سیاسی بحران یا ٹکراؤ ہے وہ عام آدمی کے مسائل سے لاتعلق اورجمہوریت کے نام پر ذاتی اقتدار کی جنگ ہے۔ اس جنگ کا ایک ہی اصول ہے کہ کسی بھی جائز یا ناجائز طریقے سے اپنے سیاسی مخالفین کو ختم کرنا ہے۔ اس کھیل کا ایک دلچسپ پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ لوگوں کو اندازہ ہوگیا ہے کہ یہاں سب سیاسی فریقین نے جمہوریت کا نعرہ جمہوریت کی خاطر نہیں بلکہ ذاتی مفاد کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس پورے عمل میں جمہوریت، پارلیمانی سیاست، قانون کی حکمرانی بری طرح پامال ہوئی ہے۔
یہ سوال بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو یا ناکام دونوں صورتوں میں مستقبل کا منظرنامہ کیا ہوگا؟ کیا واقعی اس تحریک کی کامیابی یا ناکامی کے بعد کیا متبادل سیاسی نظام سامنے آئے گا اورکس کے پاس کیا کچھ ہوگا۔ اس وقت کسی کو کچھ نہیں معلوم کہ مستقبل کا منظر نامہ کیا ہوگا اورنہ ہی اس کے خدو خال سامنے آئے ہیں۔ اس تحریک عدم اعتماد کے نتائج سے ہٹ کر ایک بڑا سیاسی بحران سامنے آنے والا ہے۔
تحریک عدم اعتماد اگرکامیاب ہوجاتی ہے تو اس کے بعد ان ہی حزب اختلاف کے درمیان ایک نئی سیاسی جنگ بھی ہوگی اور ٹکراؤ بھی پیدا ہوگا۔ اسی طرح تحریک کی ناکامی کی صورت میں حکومت کا رویہ اپنے سیاسی مخالفین کے لیے اور زیادہ سخت ہوگا۔ اسی طرح تحریک کی کامیابی کے بعد عمران خان بطور حزب اختلاف اور زیادہ سیاسی مشکلات بھی پیدا کرسکتا ہے۔
دونوں صورتوں میں محاذ آرائی سے جان چھڑانا آسان نہیں ہوگا۔ یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ جو کھیل یہاں سیاسی محاذ پر دیکھنے کو مل رہا ہے، اس کے سیاسی تانے بانے داخلی یا خارجی محاذ پر کون رنگ بھر رہا ہے۔ جو بھی رنگ بھررہا ہے، وہ کیا اس کھیل سے حاصل کرنا چاہتا ہے اور کیوں پاکستانی سیاست کو عدم استحکام سے دوچار کرنا ان کے ایجنڈے کا حصہ بن گیا ہے۔
بدقسمتی سے میڈیا کے محاذ پر بھی جو جنگ جاری ہے وہ بھی مسئلہ کا حل کو مستحکم کرنے کے بجائے محازآرائی یا فیک نیوز کی بنیاد پر ایک ایسی مہم کو چلایا جارہا ہے جس میں سیاسی فریقین براہ راست ملوث ہیں۔ حکومت کے اتحادی بھی جو ساڑھے تین برس سے حکومت کے ساتھ اقتدارکو انجوائے کررہے ہیں، وہ بھی مشکل وقت میں حکومت کے مقابلے میں یا تو حزب اختلاف کے ساتھ جانے کی باتیں کررہے ہیں یا ایسی باتیں کرکے اپنی سیاسی قیمت بڑھا رہے ہیں۔
اس لیے حالیہ سیاسی لڑائی ہمیں آگے لے جانے کے بجائے پیچھے کی طرف دھکیل رہی ہے۔ اس لڑائی کے سیاسی فریقین براہ راست ذمے دار ہیں اوراگر واقعی جمہوری نظام کمزور ہوتا ہے یا اس پر کوئی سیاسی مہم جوئی ہوتی ہے تو اس کی ذمے داری کسی اور پر نہیں حکومت اور حزب اختلاف دونوں پر عائد ہوگی۔ اب بھی وقت ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں حکومت اور حزب اختلاف دونوں سیاست میں کشیدگی اور محاذآرائی یا ذاتیات پر مبنی الزام تراشیوں یا کردار کشی کی سیاست کو بند کیا جائے۔
حکومت کو گرانا مقصود ہے یا حکومت کو بچانا دونوں صورتوں میں سیاسی اور قانونی طریقہ کار ہی اختیار کیا جائے۔ سڑکوں پر جنگ لڑنے کے بجائے پارلیمنٹ میں اس جنگ کو لڑا جائے تاکہ سیاسی کشیدگی کا خاتمہ ہو۔ کیونکہ اگر سیاسی قوتوں نے حالیہ طرزعمل جاری رکھا تو پھر جو سیاسی ڈیڈلاک پیدا ہوگا، اس کے نتیجے میں سیاسی فریقین کو کچھ نہیں ملے گا اورسیاسی قوتیں ہاتھ ملتی رہ جائیں گی۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ کسی نے درست کہا کہ ماضی کا سب سے بڑا تاریخی سبق یہ ہی ہے کہ کسی بھی فریق نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔