سیاست اگر سیاسی وجمہوری اصولوں، اخلاقیات، اقدار اورکسی نظریاتی سوچ اور فکر کی بنیاد پرہو تو وہی سیاست معاشروں کو سنوارنے کا سبب بھی بنتی ہے۔ کیونکہ سیاست سے مراد مثبت تبدیلی اور لوگوں کے بنیادی حقوق کی پاسداری کی جنگ ہے۔
عمومی طور پر سیاسی جماعتیں اور سیاست دان عام آدمی یا کمزور طبقات کے حقوق کی جنگ لڑتے ہیں۔ اسی بنیاد پر سیاست اور جمہوریت لوگوں میں اپنی سیاسی ساکھ کو قائم کرتی ہے۔ کیونکہ اگر سیاست و جمہوریت میں لوگوں کو باہر نکال دیا جائے یا ان کا سیاسی مفاد پس پشت ہو جائے تو پھر سیاست محض اقتدار کا کھیل بن جاتی ہے۔ اس کھیل میں اقتدار بالادست اورلوگ غیر اہم ہوجاتے ہیں اوران کا ہر سطح پر سیاسی، سماجی اور معاشی استحصال ہوتا ہے جو سیاست و جمہوریت کو کمزور کرنے کا سبب بنتا ہے۔
اس وقت پاکستان کی مجموعی سیاست کو دیکھیں تو اس میں امید کے پہلو کم اور مایوسی کا عنصر زیادہ غالب نظر آتا ہے۔ وجہ یہ کہ ہماری سیاست کے چاروں اطراف قومی کے حقیقی مسائل کی بجائے غیر اہم مسائل پرسیاست ہورہی ہے۔
بظاہر یہ لگتا ہے کہ مجموعی سیاست سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان الزام تراشیوں، کردار کشی، تضحیک، غیر شائستگی، الزامات، وفاداری کو چیلنج کرنا، ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو قبول نہ کرنا یا سیاسی مخالفین کو حقیر سمجھنے کے درمیان پھنس کر رہ گئی ہے۔ یہ ہی سیاست کا چال چلن ہمیں سیاسی ٹاک شوز، علمی سطح پر ہونے والی فکری مجالس میں بھی غالب نظر آتا ہے۔ حکومت یہ سارے منفی الزامات حزب اختلاف پر اور حزب اختلاف یہ ہی الزامات حکومت پر لگا کر مقابلہ بازی میں مشغول نظر آتی ہے۔
بدقسمتی سے یہ ہی سیاسی رویہ مجموعی طور پر قومی مزاج کا حصہ بھی بن گیا ہے۔ یہ جو ہمیں معاشرے کی سطح پر سنگین نوعیت کی سیاسی تقسیم جس میں نفرت، تعصب، غصہ اور محبت نظر آتی ہے اس کی وجہ بھی خطرناک حد تک موجود سیاسی تقسیم ہے۔ سیاسی تقسیم محض سیاسی جماعتوں یا سیاسی سطح پر موجود کارکنوں تک ہی محدود نہیں بلکہ ہر طبقہ میں یہ تقسیم اس حد تک غالب ہوگئی ہے کہ اہم معاملات پیچھے اور الزام تراشیوں پر مبنی سیاست کو بڑ ی بالادستی نظر آتی ہے۔
سیاست دان سمیت ہر طبقہ سیاست، جمہوریت، قانون کی حکمرانی کو سیاسی ڈھال بنا کر خود کو الزامات کی سیاست سے بچانے کی کوشش کرکے نیک نامی قائم رکھنا چاہتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ملک میں سب سے زیادہ کرپشن کی کہانیاں بھی سیاست دانوں کی ہی سننے یا پڑھنے کو ملتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کہانیاں جہاں دوسرے پس پردہ کردار پھیلاتی ہیں وہیں اس کا ایک بڑا سہرا خود سیاسی قیادت، جماعتوں کو بھی جاتا ہے جو ایک دوسرے پر کرپشن وبدعنوانی کے سنگین الزمات عائدکرکے سیاست دانوں کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہیں۔
حالانکہ کرپشن کی کہانی محض سیاسی لوگوں تک محدود نہیں بلکہ اس میں تمام شعبہ جات یا اداروں کے لوگ بھی ملوث ہوتے ہیں۔ کیونکہ کرپشن ایک گٹھ جوڑ کا کھیل ہے جس میں بڑے بڑے طاقت ور افراد یا ادارے شامل ہوتے ہیں۔ سیاست دانوں پر تنقید کی ایک بڑی وجہ یہ بھی بنتی ہے کہ جب یہ لوگ اقتدار میں ہوتے ہیں تو کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمہ کی بجائے اس کھیل میں اپنا بھی پورا حصہ ڈال کر معاملا ت کو درست کرنے کی بجائے اس میں اور زیادہ بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔ لوگوں کی توقعات کا مرکزسیاسی حکومتیں ہوتی ہیں جو سیاست اور جمہوریت کو بنیاد بنا کر شفافیت پر مبنی نظام کو لانے کی دعوے دار ہوتی ہیں۔ ا س لیے جمہوری یا غیر جمہوری حکومتیں ہوں سب ہی اس حمام میں شفافیت کا نظام قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہرفریق جب یہ منطق دیتا ہے کہ اس پر لگائے گئے تمام الزامات غلط ہیں اور وہ نہ صرف شفافیت رکھتا ہے بلکہ اسے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اگر یہ منطق سب کے لیے درست ہے تو پھر یہ بھی غورکرنا ہوگا کہ کرپشن اوربدعنوانی کس نے کی ہے۔ کیونکہ یہاں تو سب ہی خود کو فرشتہ ثابت کرتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ہم ملک میں شفافیت کی سیاست کے لیے پالیسیاں اور قانون سازی سمیت مختلف ادارے تو بنادیتے ہیں مگر اس پر عملدرآمد کا نظام یا تو کمزور ہے یا سمجھوتوں کی سیاست کا شکار ہے۔
ہمارا عدالتی نظام بھی ان لوگوں کے خلاف جن پر الزامات ہوتے ہیں کچھ ثابت نہیں کرپاتا یا وہ بھی ان کی خرابیوں کا حصہ بن گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں جو کرپٹ لوگوں کا بڑی دیدہ دلیری سے سیاسی تحفظ کرتے ہیں اور ان کے بارے میں قسمیں کھاتے ہیں کہ ان پر لگائے گئے الزامات سیاسی انتقام کا حصہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ سارے لوگ کیسے جانتے ہیں کہ یہ لوگ واقعی کرپٹ نہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ہم خود کو ہی عدالت بنا کرپیش کرتے ہیں اور عدالتوں کے مقابلے میں خود ہی ان کی شفافیت کی گواہی دیتے ہیں حتٰی کہ ان کے نجی اور خاندانی معاملات کی گواہی میں بھی ہم پیش پیش ہوتے ہیں۔
اسی طرح اگر عدالتیں کسی کے حق میں فیصلہ کریں تو وہ آزاد عدالتیں ہوتی ہیں اور اگر فیصلے مخالفت میں ہو تو یہ ہی عدالتیں الزامات سے گزرتی ہیں۔ اس لیے ہمیں اہل سیاست پر الزامات سے گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ اصولی طور پر سیاست دانوں سمیت سب ہی طاقت ور افراد یا اداروں کی شفافیت اور جوابدہی کی بحث کو ایک قومی بیانیہ کے طور پر پیش کرنا چاہیے۔ کیونکہ جب تک ہم خود ایسے لوگوں کے خلاف آواز نہیں اٹھائیں گے یا کھڑے نہیں ہونگے جو کرپشن کی بنیاد پر آگے بڑھتے ہیں تو اس مرض کا مقابلہ بھی ممکن نہیں ہوسکے گا۔ یہ کام کسی سیاسی محبت یا نفرت کی بنیاد پر نہیں بلکہ بلاتفریق ہونا چاہیے اور سب ہی اس نظام میں جوابدہ بھی ہوں اور شفافیت پر یقین بھی رکھتے ہوں۔
سیاست اور جمہوریت اوراصلاحات سے جڑی ہوتی ہے اوریہ تمام فریقوں کی ذمے داری ہے کہ ایسا نظام قائم کریں جہاں یہ نکتہ کہ ہمیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ حوصلہ شکنی ہو۔ مسئلہ یہ نہیں کہ کوئی سیاست اور جمہوریت یا سیاسی جماعتوں سمیت سیاسی نظام کے خلاف ہے۔ یہ سیاسی و جمہوری نظام ہماری قومی ضرورت ہے اور اسے ہر محاذ پر مستحکم کرنا بھی ریاستی ومعاشرتی ذمے داری ہے۔ لیکن سیاست میں موجود خرابیوں کو تسلیم کرنا، ان خرابیوں کی اصلاح کرنا، شفافیت اورجوابدہی کے نظام کو موثر بنانا، احتساب کے عمل میں سیاسی انتقام کے مقابلے میں شفافیت کا نظام اور عدالتی نظام سمیت دیگر اداروں کی شفافیت کو یقینی بنانا بنیادی کنجی ہے۔
یہ تمام کام سیاست اورجمہوریت یا سیاسی حکومتوں سے جڑے ہوئے ہیں اور اس کے بغیر کسی بھی معاشرے میں جمہوریت اور سیاست اپنی شفافیت پر مبنی ساکھ قائم نہیں کرسکے گی۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ سیاست اور جمہوریت میں کرپشن اور اسی طرح جو لوگ سیاست دانوں سمیت کسی بھی فرد یا ادارے پر کرپشن سمیت دیگر سنگین الزامات لگاتے ہیں تو ان کو ہر سطح پر مکمل شواہد بھی پیش کرنے چاہیے۔ لیکن اگر وہ فرد یا ادارہ الزامات ثابت نہیں کرتا تو الزام لگانیوالے کی بھی جوابدہی کا نظام ہونا چاہیے۔