مشہور مقولہ ہے "کراچی کے موسم، محبوب کے مزاج اور پاکستان کی سیاست کا کوئی اعتبار نہیں " کراچی کے موسم اور محبوب کے مزاج کے بارے میں تو شاید کوئی پیش گوئی کی جاسکتی ہے، لیکن ہمارے ملک کی سیاست کب کیا کروٹ لے اور کب کیا رخ اختیار کرے کچھ پتا نہیں ہوتا۔
ابھی کچھ دن پہلے ہی کی بات ہے حزب اختلاف کی جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم حکومت کے لیے خطرہ بنتا نظر آرہا تھا۔ پی ڈی ایم کے راہ نما جلسوں کے ذریعے اپنی تحریک کا سلسلہ دراز کیے جارہے تھے، حکومت مخالف تحریک اور لانگ مارچ کی باتیں ہورہی تھیں۔
ان رہنمائوں کی باتوں اور بلند دعوؤں کے ساتھ کی جانے والی تقاریر سے لگتا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دن گنے جاچکے ہیں اور وہ جانے والی ہے، لیکن پھر سیاست کے افق پر نئے منظر ابھرنے لگے۔ پی ڈی ایم میں منتخب ایوانوں سے حزب اختلاف کے ارکان کے مستعفی ہونے کے معاملے پر پھوٹ پڑی، آصف زرداری نے نوازشریف کو وطن واپس نہ آنے کا طعنہ دیا، جواب میں مریم نواز پیپلزپارٹی پر برسیں، یوسف رضا گیلانی "باپ" کے ووٹوں کی مدد سے سینیٹ میں قائدحزب اختلاف مقرر ہوگئے، جس پر مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام ف نے پیپلزپارٹی پر تنقید کی یہاں تک کہ اس ایشو پر پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو پی ڈی ایم کی قیادت نے شوکاز نوٹس جاری کردیے۔
شوکاز نوٹس جاری کرنے کے اس اقدام سے ایسا محسوس ہوا جیسے پی ڈی ایم سیاسی اتحاد نہ ہو کوئی کمپنی یا ادارہ ہو، جو کسی الزام پر اپنے ملازمین کو اظہاروجوہ کے نوٹس جاری کردے۔ پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت نے اس اقدام کو اپنی تذلیل محسوس کیا، جو کہ غلط نہیں، نتیجہ یہ نکلا کہ عوامی نیشنل پارٹی نے پی ڈی ایم سے علیحدگی اختیار کرلی اور بلاول بھٹو نے اپنی جماعت کے اجلاس میں پی ڈی ایم کی قیادت کا جاری کردہ شوکاز نوٹس پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔
حزب اختلاف میں ٹوٹ پھوٹ کے یہ منظر ابھی سامنے آہی رہے تھے اور حکومت کے مضبوط ہونے کا تاثر بڑھتا جارہا تھا کہ جہانگیرترین کے معاملے نے یہ حقیقت عیاں کردی کہ پی ڈی ایم کی طرح حکومت کے دروازے پر بھی بحران دستک دے رہا ہے۔
جہانگیرترین پر بننے والے مقدمات، ان کے اکائونٹس کی بندش اور پیشیاں بتارہی ہیں کہ اس سب کے نتیجے میں وزیراعظم اپنے حامیوں کو یہ تاثر دینے میں تو شاید کامیاب ہوجائیں کہ وہ شفاف اور غیرجانبدارانہ احتساب پر یقین رکھتے ہیں اور ان کا کوئی قریبی ساتھی بھی بدعنوانی میں ملوث ہو تو اسے بھی وہ معاف کریں گے نہ این آر او دیں گے، لیکن اس طرح اپنے حامیوں اور عوام کو خوش کرنے میں وہ جہانگیرترین ہی نہیں ان کے کتنے ہی دوستوں کو ناراض کر بیٹھے ہیں۔ اور اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ ان ناراض دوستوں میں ایک بہت بڑی تعداد قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے ارکان پر مشتمل ہے۔
گزشتہ دنوں جب وہ اپنے خلاف درج کیے جانے والے مقدمات میں عبوری ضمانتوں کی توسیع کے لیے سیشن کورٹ اور بینکنگ کورٹ پہنچے تو کئی اراکین اسمبلی بھی ان کے ساتھ تھے، اس موقع پر ان پر پھولوں کی پتیاں بھی نچھاور کی گئیں، اگرچہ جہانگیرترین کھل کر کہہ چکے ہیں کہ وہ عمران خان کے مقابل نہیں آرہے، لیکن بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر جہانگیر ترین کو دیوار سے لگایا گیا تو وہ اپنے دور تک پھیلے روابط اور اراکین اسمبلی کی ایک موثر تعداد کی حمایت کی بنا پر حکومت کے لیے خطرات پیدا کرسکتے ہیں۔
یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ جہانگیر ترین کا اگلا قدم کیا ہوگا اور وہ کیا لائحہ عمل اختیار کریں گے، لیکن محتاط سیاست کرنے والے اور بہ حیثیت صنعت کار فائدے اور نقصان کو پوری طرح سامنے رکھ کر فیصلے کرنے کے عادی جہانگیر ترین جانتے ہیں کہ وہ عمران خان کے مدمقابل آکر اپنی مشکلات کم نہیں کریں گے بلکہ ان میں اضافہ کرلیں گے، اس لیے امکان یہی ہے کہ ان کے حوالے سے حکومت کو درپیش خدشات پورے نہیں ہوسکیں گے۔
حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ جہانگیرترین کا ایشو ایسے وقت میں اٹھا ہے جب حزب اختلاف کی صفوں میں انتشار ہے اور وہ موقع سے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں، اگر حزب اختلاف یعنی پی ڈی ایم کی بات کریں تو وہ اب صرف دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن گروپ پر مشتمل رہ گیا ہے۔ اب یہ امکان واضح ہوتا جارہا ہے کہ عنقریب ایک نیا سیاسی اتحاد جنم لے گا، یوں ملک تین سیاسی فریقوں کے درمیان جنگ کا اکھاڑہ بن جائے گا۔ یعنی حکومت، پی ڈی ایم اور نیا سیاسی اتحاد۔ یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ پیپلزپارٹی پی ڈی ایم سے راستے جدا کرلینے کے بعد نئے سیاسی اتحاد کے قیام کے لیے کوششیں تیز کرچکی ہے۔
ایک ایسا پلیٹ فارم پیپلزپارٹی کی ضرورت ہے جو اسے ملک گیر سطح پر متحرک اور فعال رکھے۔ اس نئے سیاسی سفر میں عوامی نیشنل پارٹی کے پیپلزپارٹی کے ساتھ چلنا طے شدہ ہے۔ حکومت کے وہ مخالفین بھی پیپلزپارٹی کی زیرقیادت متوقع بلکہ یقینی طور پر تشکیل پانے والے نئے سیاسی اتحاد کا حصہ بن سکتے ہیں جو نوازشریف اور مولانا فضل الرحمٰن کے بیانیے کے ساتھ چلنے میں تحفظات کا شکار رہے ہیں۔ ایسے سیاسی رہنمائوں میں مولانا محمد خان شیرانی اور حافظ حسین احمد کا نام سرفہرست ہے، جو اپنے راستے مولانا فضل الرحمٰن سے جدا کرچکے ہیں۔ ممکنہ طور پر وہ جے یوآئی کا نیا گروپ بناکر متوقع سیاسی اتحاد کا حصہ بن جائیں گے۔
رہی کراچی کی وہ سیاسی جماعتیں جو حکومت کے ساتھ ہیں نہ پی ڈی ایم کے، جیسے مہاجرقومی موومنٹ، پاک سرزمین پارٹی اور ڈاکٹرفاروق ستار کی زیرقیادت ایم کیوایم کا دھڑا، تو وہ پیپلزپارٹی کے ساتھ چل کر ہونے والا سیاسی نقصان برداشت نہیں کرسکتے، اس لیے ان کے نئے سیاسی اتحاد میں شامل ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے، تاہم یہ ممکن ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کے بغیر سیاست کرنے والے پی ڈی ایم میں شامل ہوجائیں۔
اس حقیقت سے کسے انکار ہوسکتا ہے کہ نئے سیاسی اتحاد کا قیام حزب اختلاف کو نقصان پہنچائے گا اور حکومت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔ یہ اتحاد حکومت نہیں دراصل پی ڈی ایم کے خلاف بننے والا اتحاد ہوگا، یوں حکومت کے خلاف معرکہ آرائی آپس کی جنگ میں بدل جائے گی۔ اب تک کا سیاسی مطلع تو یہی کہہ رہا ہے، لیکن کب کیا بدل جائے، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔