ہمارا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے جسمانی امراض اور تکالیف کے بارے میں تو بہت حساس ہوتے ہیں اور کسی بیماری کے آثار نمودار ہوتے ہی یا ذرا سی تکلیف ہونے پر ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں، بلکہ اکثر خود ہی اپنے معالج بن کر دوائیں استعمال کرنے لگتے ہیں۔
دوسری طرف ذہنی امراض کے حوالے سے ہمارا رویہ بالکل برعکس ہے، ہم خود سے بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کتراتے ہیں کہ ہمارے بہت سے یا بعض رویے نامناسب، نقصان دہ اور غیرعقلی جو ہم میں موجود کسی ذہنی مرض یا نفسیاتی مسئلے کا نتیجہ ہیں۔
شدید اور بات بے بات آنیوالا غصہ، بے جا حساسیت، جذباتیت، ڈپریشن اور ان جیسے ان گنت مسائل ہماری شخصیت کا حصہ بن کر ایک طرف سماج میں ہمارے تاثرکو بھی خراب کرتے ہیں، دوسری طرف ان کی وجہ سے ہماری ذہنی حالت اور صلاحیتوں پر بھی نہایت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اتنا ہی نہیں۔ یہ کیفیات تواتر اور تسلسل کے ساتھ جاری رہنے کی صورت میں ہماری جسمانی صلاحیتوں کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہیں، لیکن ہم اپنی تباہی کا سامان کرتے اور اس کا تماشہ دیکھتے رہتے ہیں، مگر ماہرین نفسیات کے پاس جانے سے گریزکرتے ہیں کہ یہ ذہنی مریض ہونے کا اعتراف ہوگا، جو ہمارے لیے گالی سے کم نہیں۔ اگر کوئی ہمارے ان عارضوں کی طرف ہماری توجہ مبذول کرائے اور نفسیاتی معالجین سے رجوع کرنے کا مشورہ دے تو ہم اسے اپنی شدید ترین بے عزتی تصور کرتے اور مشورہ دینے والے کو اپنا دشمن سمجھ بیٹھتے ہیں۔
اس حوالے سے دوسری انتہا اور خطرناک چلن یہ ہے کہ توہم پرست لوگ بہت سے نفسیاتی مسائل کو جادو ٹونے کا اثر، جن چڑھ جانے اور آسیب کا سایہ سمجھتے ہوئے جعلی پیروں اور عاملوں کا سہارا لیتے ہیں، جو اپنی ریاکارانہ ترکیبوں کے ذریعے ان کے وہم کو یقین میں بدل دیتے ہیں، نتیجتاً یہ لوگ اپنا پیسہ گنواتے ہیں اور خواتین ہوں تو بعض اوقات عزت بھی لٹا بیٹھتی ہیں۔
ہمیں اس ضمن میں اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔ ذہنی دبائو، معاشی مسائل، روزمرہ کی زندگی میں مسلسل جھیلی جانے والی پریشانیاں (جیسے ٹریفک جام، بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ وغیرہ) اور اردگرد موجود لوگوں کے رویے ہمیں ذہنی امراض اور نفسیاتی عارضوں میں مبتلا کرنے کا باعث بن جاتے ہیں۔
ان ذہنی امراض کی ایک خوفناک ترین انتہا خودکشی ہے۔ پاکستان میں خودکشی کے بارے میں سرکاری یا غیرسرکاری سطح پر اعدادوشمار دستیاب نہیں ہیں، تاہم بی بی سی پر 2019میں آنیوالی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ ایک اندازے کے مطابق ملک میں روزانہ 15 سے 35 افراد خودکشی کرتے ہیں۔ یعنی تقریباً ہر گھنٹے کے دوران ایک شخص اپنی جان لے رہا ہے۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ "عالمی ادارۂ صحت کے 2012 میں لگائے گئے تخمینے کے مطابق اُس سال تقریباً 13 ہزار پاکستانیوں نے خودکشی کی جب کہ 2016 میں یہ تعداد پانچ ہزار کے قریب رہی۔"
ماہرین نفسیات کے مطابق خودکشی کسی سانحے، المیے یا حادثے کے نتیجے میں محسوس ہونے والی تذلیل اور شرمندگی کے باعث بھی کی جاتی ہے، تاہم عموماً ذہنی دبائو یا ڈپریشن کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اور ڈپریشن کی ایک نہایت اہم علامت یہ ہے کہ اس میں خودکشی کرنے کے خیالات آنے لگتے ہیں۔ خوداعتمادی سے محرومی، احساس کم تری، بہت زیادہ حساس ہونا خودکشی کی اہم وجوہات میں شامل ہیں۔
اس حوالے سے ماہرنفسیات عطیہ نقوی کا کہنا ہے کہ جو لوگ خودکشی کر گزرتے یا کم از کم اس کی کوشش کرتے ہیں ان میں بھی دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ جو واقعی اپنی زندگی ختم کرنا چاہتے ہیں اور دوسرے وہ جو اپنے اردگرد لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے ایسا قدم اُٹھاتے ہیں کیوں کہ بقول اُن کے کوئی بھی شخص ان کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتا۔"عطیہ نقوی خود بھی اس صدمے سے گزر چکی ہیں جن کے 24 سالہ بیٹے عماد نے خودکشی کرلی تھی۔
نفسیاتی مسائل اور عارضے کتنے بھیانک اور دور رس نتائج مرتب کرتے ہیں، اس کی ایک مثال ڈپریشن ہے۔ ہم اپنے یا دوسروں کے ڈپریشن کو سنجیدگی سے نہیں لیتے اور اسے ایک عام سی اور عارضی کیفیت سمجھ کر نظرانداز کردیتے ہیں، حالانکہ یہ ایک نہایت مہلک عارضہ ہے۔ ایک رپورٹ کیمطابق، "ہر 40 سیکنڈ میں دنیا میں کہیں نہ کہیں ایک مرد (ڈپریشن کے باعث) خودکشی کرتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مرد اپنے مسائل کے بارے میں کم بات کرتے ہیں یا کم ہی مدد کی تلاش میں ہوتے ہیں۔"
ڈپریشن اور انیگزائٹی (Anxiety) جیسے عارضوں کو تو خیر نہ ان کے شکار افراد قابل توجہ اور قابل علاج گردانتے ہیں نہ ان کے اہل خانہ اور اردگرد موجود افراد ان عوارض کو بیماریوں میں شمار کرتے ہیں، لیکن جہاں تک شیزوفرینیا اور ہسٹیریا جیسے خاصے پیچیدہ نفسیاتی امراض کا تعلق ہے تو انھیں جادو کا اثر جن آسیب کا سایہ سمجھنے کا رجحان ہمارے یہاں عام ہے، اور ان مسائل کے تدارک کے لیے معالجین کے بجائے عاملوں اور بابائوں کا رُخ کیا جاتا ہے۔
عصرحاضر کی طبی سائنس کا کہنا ہے کہ "دماغ میں موجود اعصابی خلیے سیروٹونن، آکسیٹوسین اور ڈوپامین نامی کیمیائی مادے بناتے ہیں جن کی متوازن مقدار انسان میں اطمینان، خوشی، تحریک اور جوش جیسے جذبات کو قائم رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ مختلف عوامل کے باعث اگر ان مادوں میں عدم توازن پیدا ہو جائے تو انسان بے چینی، اداسی یا گھبراہٹ محسوس کرنے لگتا ہے اور انھی کیفیات کو طبی زبان میں اینگزائٹی اور ڈپریشن کہا جاتا ہے۔"
ان کیمیائی مادوں کی مقدار میں عدم توازن کی اپنی مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔ ان وجوہات کو تلاش کرنا، ان کا تدارک اور ان مادوں کو دوبارہ متوازن کرنے کے لیے نفسیاتی معالجین مختلف ادویہ کے ساتھ کئی طرح کی مشقیں تجویز کرتے ہیں۔ ان دوائوں کا استعمال اور مشقوں کا انجام دینا اس عارضے سے چھٹکارا دلا سکتا ہے۔
ادویہ اور مشقوں سے قطع نظر ماہر نفسیات اور ذہنی امراض سے متعلق معالج سے گفتگو، اس سے اپنے جذبات، احساسات اور تکلیف کا اظہار اور بعض ایسے ذاتی مسائل اور تکالیف پر بات کرنا جن کا تذکرہ ہر ایک کے سامنے کرنا ممکن نہیں ہوتا، ڈپریشن اور انیگزائٹی کے عارضوں میں مبتلا فرد کو اظہار کا موقع دیتا ہے، اور معالج کا ہمدردانہ اور دوستانہ رویہ اس کے لیے سکون اور تقویت کا باعث بنتا ہے۔
ایسے معاملات میں ماہرین نفسیات اور ذہنی امراض کے معالجین سے رابطہ اس لیے بھی ضروری ہوتا ہے کہ عموماً وہ متاثرہ فرد کے لیے یکسر اجنبی ہوتے ہیں، جو نہ مریض کے اہل خانہ کو جانتے ہیں نہ اس کے دوستوں اور شناسائوں سے واقفیت رکھتے ہیں، چناں چہ ان کے سامنے زندگی کے بہت سے تلخ حقائق، زندگی میں پیش آنیوالے کربناک واقعات اور تکلیف میں مبتلا رکھنے والے سانحات کا بیان کردینا مریض کے لیے آسان ہوتا ہے۔ کبھی کبھی تو صرف یہ اظہار ہی تکلیف سے نجات دلا دیتا ہے۔
ذہنی امراض کے شکار افراد کو اس حال تک پہنچانے کے ذمے دار ہمارے رویے بھی ہوتے ہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ ان مریضوں کے ساتھ بڑا سفاکانہ اور خود غرضی پر مبنی سلوک کرتے ہیں۔ ان کی کیفیت اور حالت کو سمجھے بغیر اور اس حقیقت کو پہچانے بنا کہ یہ لوگ نفسیاتی عارضوں کا شکار ہیں، کوئی ان کا مذاق اڑاتا اور ان کی کیفیت کو ان کی چڑ یا چھیڑ بنا لیتا ہے، تو کوئی توہین و تذلیل کرکے یا انھیں احساس کمتری میں مبتلا اور اشتعال دلا کر ان کے ڈپریشن، انیگزائٹی اور دیگر نفسیاتی عارضوں کو بڑھا دیتا ہے، جس کا نتیجہ ان کے تنہا رہ جانے اور مرض میں اضافے کی صورت میں نکلتا ہے۔
ہم اگر اپنے اردگرد موجود ایسے لوگوں کا درد سمجھیں اور ان سے اخلاص، ہمدردی اور محبت کا رویہ اپنائیں تو ممکن ہے یہ ان کے بہترین معالج ثابت ہوں۔ ذہنی امراض کے شکار افراد کے ساتھ اس طرح کے رویے اپنانا ہماری دینی تعلیمات کا تقاضا بھی ہے اور ہمارا اخلاقی ومعاشرتی فریضہ بھی۔
دوسری طرف حکومتی سطح پر بھی ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جن کے نتیجے میں ہمارے ملک میں بڑھتے نفسیاتی امراض کے پھیلائو میں کمی لائی جاسکے۔ اس سلسلے میں شفاخانوں کا جال بچھانے کی ضرورت ہے، ساتھ ہی حکومت کو میڈیا پر ذہنی امراض سے اور ذہنی مریضوں سے رویے آگاہی مہم بھی چلانی چاہیے۔ میڈیا، دانشوروں اور سماجی تنظیموں کا بھی فرض ہے کہ اس ضمن میں اپنا کردار ادا کریں۔ یہ فریضہ ادا کرنا ہم سب کی ضرورت ہے، کیونکہ اچھی ذہنی صحت کے حامل افراد خاص طور پر نوجوان ہی ملک وقوم کو درست سمت میں لے جاسکتے اور ملک کا مستقبل سنوار سکتے ہیں۔