ہمارا معاشرہ جوکہ اسلامی اقدار اور روایات پر مبنی ہے، روز اول سے ہمیں بزرگوں کا احترام و تکریم کا درس دیتا ہے۔ نبی کریم حضرت محمد مصطفیﷺ کی تعلیمات ہمیں اپنے والدین سے پیار، اخلاص اور شفقت سے پیش آنے کا درس دیتی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ایک فیصد طبقہ جوکہ مغربی تہذیب سے خود کو جوڑ تا ہے اور خود کو ترقی یافتہ تصورکرتا ہے اپنے والدین کو خود پر بوجھ جانتے ہیں جوکہ افسوس ناک پہلو ہے کہ اپنے والدین کو اولڈ ایج ہومز میں داخل کرا دیتے ہیں یا پھر خود یورپی ممالک میں قیام پذیر ہوجاتے ہیں اور یہاں ملک میں اپنے والدین کو قید تنہائی کے حوالے کر دیتے ہیں۔
سنگل فیملی سسٹم کا تصور بھی مغرب سے یہاں پہنچا ہے، جو پورے خاندان کا شیرازہ بکھیرکر رکھ دیتا ہے مگر اب مغرب بھی جوائنٹ فیملی سسٹم کی طرف گامزن ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ ہمارا معاشرہ چونکہ اسلامی اور مشرقی ہے، اس لیے ہمارے معاشرے کی خوبصورتی جوائنٹ فیملی سسٹم میں مضمر ہے جس میں خاص طور پر اپنے بزرگوں کی توقیر اور عزت کو اولیت حاصل ہے۔
یہ امر باعث تکلیف ہے جب درد دل رکھنے والوں کی نظروں سے ایسی خبریں گزرتی ہیں جس میں بتایا جاتا ہے کہ آج فلاں شخص نے اپنے والدین میں سے کسی ایک کو یا دونوں ( ماں، باپ ) کو اولڈ ہوم میں داخل کردیا ہے، جہاں وہ جیتے جی زنداں میں دفن ہوجاتے ہیں اور بد بخت اولاد پلٹ کر دیکھتی ہی نہیں کہ اولڈ ایج ہوم میں ان کے والدین کس کرب میں زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔
اکثر وبیشتر بذریعہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے اولڈ ایج ہومز میں موجود بزرگوں کے تاثرات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں جنھیں دیکھ کر، سن کرکلیجہ منہ کو آتا ہے اور دل خون کے آنسو روتا ہے کہ وہ ماں جس نے اسے نو مہینے اپنے کوکھ میں سنبھال کر رکھا اسے جنم دیا دوسال تک اسے اپنا دودھ پلایا، اسے دھوپ سے بچائے رکھا، خود غم سہہ کر اسے خوش رکھا، اس کی پرورش کی۔ وہ باپ جس نے نہ دھوپ دیکھی، نہ بارش دیکھی، دن رات ایک کرکے اس کے روشن مستقبل کے لیے اوروں کی باتیں سن کر محنت کی، اس کی انگلی پکڑکر اسے چلنا سکھایا، ہر لمحہ اس کی صحت کا خیال رکھا، اس کی ہر ضد کو پورا کیا، خود ستم سہہ کر اسے خوش رکھنے کی کوشش کی اس پر اپنی محبت وشفقت نچھاورکی، اسے اس قابل بنایا کہ آج وہ سر اٹھا کر معاشر ہ میں چلتا ہے تو وہ آج اپنے والدین کو بوجھ سمجھ کر ان کو اولڈ ایج ہومز میں داخل کرا کے غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اوپر جنت کو حرام کر رہے ہوتے ہیں۔ اللہ پاک ایسی اولاد کو نیک ہداہت دے اور انھیں اپنا فرض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
سندھ جوکہ قانون سازی میں ملک کے دیگر صوبوں سے امتیاز رکھتا ہے، ایسے ہی بزرگ شہریوں کی فلاح وبہبود کے لیے(سندھ سینئر سٹیزنز ویلفیئر ایکٹ 2014ء) منظورکروایا جس کا بنیادی مقصد صوبہ سندھ کے بزرگ شہریوں کی فلاح و بہبود کرنا ہے، جس کے خدوخال کچھ اس طرح سے ہیں۔ حکومت سندھ نے بزرگ شہریوں کی فلاح وبہبود کے لیے ایک کونسل قائم کی جس میں دو صوبائی اسمبلی کے ممبران سمیت وزراء، مختلف محکموں کے سیکریٹریز، ریٹائرڈ سیشن جج یا ایڈیشنل جج اور دو سول سوسائٹی کے بزرگ شہریوں کو شامل کیا۔ کونسل کے اہم عوامل۔ ( اس ایکٹ کے اہم نکات ) درج ذیل ہیں ٭بزرگ شہریوں کی فلاح و بہبود کے پالیسیاں مرتب کرے گا۔ ٭۔ بزرگ شہریوں کو سینئر سٹیزن کارڈ فراہم کرنا۔ ٭ بزرگ شہریوں کی جسمانی، ذہنی، سماجی اور معاشی بہتری کے لیے رہائشی عمارتیں اور گھر تعمیرکرے گا۔ ٭۔ بزرگ شہریوں کے مسائل کے حل، علاج و معالجے اور صحت کی مفت خدمات حکومتی اسپتالوں میں فراہم کی جائے گی، مفت ادویات فراہم کی جائے گی۔
٭پنشن اور دوسرے واجبات میں معاونت فراہم کی جائے گی۔ ٭۔ ٹرانسپورٹ کرایوں میں 25فیصد رعایت، تفریحی مقامات پر مختلف خدمات پر رعایت فراہم کی جائے گی۔ ٭ہر ضلع میں کم ازکم ایک اولڈ ایج ہوم کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ جہاں مقامی بزرگوں کو طبی سہولیات، دیکھ بھال، تفریح اور مختلف قسم کی خدمات فراہم کی جائے گی۔ ٭ بزرگ شہریوں کی جسمانی، ذہنی اور تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے کے لیے کیئر سینٹرکا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ ٭آمدن اور منافع پر ٹیکس سے چھوٹ۔ ٭ طبی اور معاشی مسائل کے لیے زکوٰۃ فنڈ اور بیت المال سے معانت کی فراہمی بنوولنٹ فنڈ کا قیام ٭خدمات پر ایوارڈ ز اور نقد انعام دیا جائیگا۔ ٭ قانونی معاونت فراہم کی جائے گی۔ ٭ بزرگ شہریوں کا عالمی دن سرکاری سطح پر منایا جائیگا۔ ٭ قانون سازی کا اصل مقصد ملک کے عام شہری کے لیے وہ ضابطے تخلیق کرنا ہے جس پر عمل پیرا ہوکر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتے ہوئے سماجی اور معاشی ثمرات حاصل کرنے ہیں۔
قانون توبنتے ہی ہیں عمل کرنے کے لیے، لیکن اس ایکٹ کی منظوری کے بعد اس پر عمل درآمد تاحال نہ ہوسکا اور نہ ہی بزرگ شہریوں کی کونسل نے فعال کردار ادا کیا ہے۔ سماجی تنظیمیں ہیلپ ایج انٹرنیشنل اور سندھ رورل سپورٹ آرگنائزیشن روز اول سے اس سماجی ایشو پرکام کر رہی ہیں۔ قانون سازی اور عمل درآمد کے لیے سماجی شعبوں سے وقتا فوقتا مکالمے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امید کامل ہے کہ اس ایکٹ پر من وعن عمل درآمدکیا جائے گا۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے 15ممالک میں ایک کروڑ بزرگ افراد ہیں جب کہ صرف پاکستان میں ڈیڑھ کروڑ بزرگ ہیں۔ 2050ء میں بزرگ افراد کی تعداد 4کروڑ سے زیادہ ہوجائے گی، اس طرح ڈیڑھ کروڑ بزرگ سہولتوں کے لیے حکومت کے موثر اقدامات کے منتظر ہیں۔
حال ہی میں سندھ ہائی کورٹ نے معمر شہریوں کے لیے اولڈ ایج ہومز میں سہولتوں کی عدم فراہمی سے متعلق سندھ حکومت کو تمام اولڈ ایج ہومز میں سہولتیں فراہم کرنے، ڈی جی نادرا سندھ کو معمر شہریوں کا ڈیٹا فراہم کرنے اور چیف سیکریٹری کو تمام امورکا خود جائزہ لینے کا حکم دے دیا۔ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس آغا فیصل پر مشتمل دو رکنی بینچ کے روبرو معمر شہریوں کے لیے اولڈ ایج ہومز میں سہولتوں کی عدم فراہمی سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔ این جی او کے وکیل نے موقف دیا کہ اولڈ ایج ہومز بنا دیے گئے مگر سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں، عدالت نے ریمارکس دیے قانون بنا دینے سے کچھ نہیں ہوتا، اس پر عمل درآمد کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔
سیکریٹری صحت تمام اولڈ ایج ہومز میں طبی سہولتوں کی فراہمی بھی یقینی بنائیں، سندھ حکومت ہر ضلع میں بنائے گئے اولڈ ایج ہومز کے لیے ضروری فنڈز جاری کرے، سرکاری وکیل نے موقف دیا کہ سندھ حکومت اولڈ ایج ہومز، شیلٹرز ہومز پر بھی توجہ دے رہی ہے، معمر شہریوں کے لیے آزادی کارڈز دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں نادرا سے معمر شہریوں کا ڈیٹا حاصل کیا جارہا ہے، عدالتی احکام پر مزید سہولتیں فراہم کردی جائیں گی۔ عدالت نے اولڈ ایج ہومزکی فلاح وبہبود کے لیے آگاہی مہم چلانے کا بھی حکم دیا۔
عدالت نے ہدایت کی کہ لوگوں کو ٹی وی اور اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے آگاہی فراہم کریں، لوگوں کو بتائیں کہ معمر شہریوں کو حکومت کی جانب سے سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں، معمر شہریوں کی فلاح وبہبود پرکوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ عدالت نے چیف سیکریٹری کو تمام امورکا خود جائزہ لینے کا بھی حکم دے دیا۔ بزرگ افراد ہمارے معاشرے کا اہم حصہ ہیں جن کے لیے حکومت اپنا کام کرے بزرگ افراد کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون پر فوری عمل کیا جائے۔