لیاری کی تاریخ قدیمی ہے، اس کے ابتدائی باسیوں میں بلوچ قوم سرفہرست ہے، 1727 عیسوی میں 25 جھگیوں پر مشتمل لیاری اب گیٹ وے آف ایشیا کا درجہ پا چکا ہے، کراچی کو جنم دینے والا لیاری کا محل وقوع جغرافیائی اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
لیاری کراچی بندر گاہ کے قریب واقع ہے، لیاری سے شعبہ ہائے زندگی کی تمام سہولیات قریب ترین ہیں جن میں کراچی کی تمام بڑی مارکیٹیں لی مارکیٹ، کجھور بازار، جونا مارکیٹ، جوڑیا بازار، کھوڑی گارڈن، میٹھا در بازار، کھارادر بازار، بولٹن مارکیٹ، صرافہ بازار، الیکٹرونک مارکیٹ، کپڑا مارکیٹ، مچھی میانی مارکیٹ، لنڈا بازار، بمبئی بازار، کاغذی بازار، جوبلی مارکیٹ، گل پلازہ، صدر بازار، جامع کلاتھ مارکیٹ، اللہ والا مارکیٹ اردو بازار، رنچھوڑ لائن مارکیٹ، ہوتی مارکیٹ، ٹمبر مارکیٹ، پرانا حاجی کیمپ مارکیٹ، عظیم پلازہ مارکیٹ اور دیگر علاقائی چھوٹی مارکیٹیں کھڈہ مارکیٹ، دریا آباد مارکیٹ، میمن سوسائٹی مارکیٹ، جھٹ پٹ مارکیٹ، غریب شاہ مارکیٹ، کچھی مارکیٹ، کمہار واڑہ مارکیٹ، بہارکالونی مارکیٹ، آگرہ تاج کالونی مارکیٹ شامل ہیں اور لیاری ندی کے پاٹ پر بہت بڑا دھوبی گھاٹ بھی موجود ہے۔
اسی طرح سول اسپتال، لیڈی اسپتال، ادیب رضو ی اسپتال، سروسز اسپتال، انکل سریا اسپتال، سیون ڈے اسپتال، اسماعیل برہانی اسپتال، بانٹوا اسپتال، اوکھائی میمن اسپتال ( سابقہ فدو ڈسپنسری) لیاری میں موجود اسپتالوں میں سندھ حکومت لیاری جنرل اسپتال، کھارا در اسپتال (سابقہ سیمنٹ اسپتال) لیاری جنرل کارڈیو اسپتال، لیاری جنرل بچوں کا اسپتال، میراں پیر اسپتال کے علاوہ لیاری میں موجود بیشمار کلینک شامل ہیں۔
لیاری میں لاتعداد بینک موجود ہیں جب کہ قریب ہی میں حبیب بینک پلازہ، مرکزی ایم سی بی بینک، مرکزی یو بی ایل بینک، مرکزی نیشنل بینک دیگر مرکزی بینک شامل ہیں۔ اسی روڈ آئی آئی چندریگر روڈ پر متعدد پریس میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا ہاؤس موجود ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد لیاری سے 1951ء سے 2014ء تک لیاری سے متعدد اخبارات اور رسائل نکلتے رہے ہیں، لیاری میں تین عیدگاہیں اور بیشمار مساجد، ایک مرکزی امام بارگاہ اور دیگر امام بارگاہیں مندر، ٹمپل، چرچ موجود ہیں۔ لیاری کے علاقہ شیدی ولیج روڈ پر بیشمار مسافر اور گڈز ٹرانسپورٹ کے اڈے قائم ہیں جہاں سے صوبہ بلوچستان کے لیے مسافر سفر کرتے ہیں۔
اسی طرح بلوچستان کے لیے ضرویات اشیاء برآمد کی جاتی ہے۔ اس اعتبار سے لیاری صوبہ بلوچستان کا دروازہ ہے اور یہی روڈ آگے جا کر آر سی ڈی روڈ سے مل جا تا ہے جو بلوچستان سے ہوتا ہوا ایران سے جا ملتا ہے اور ایران سے دیگر ممالک تک پہنچا جا سکتا ہے۔ تاریخی طور پر کراچی کے علاقے لیاری، منگھو پیر، اورنگی، ملیر، گڈاپ، مھیر، گسری، ریڑھی میانی اور حب پرانی تہذیبوں کے مراکز رہے ہیں۔
لیاری میں مسلم، عیسائی، کرسچن، ہندو، سکھ صدیوں سے آباد ہیں۔ لیاری کی قدیم اقوام میں بلوچ، مہاڑ، مسلم کچھی، میمن، قمبرانی شیدی، خوجہ، بوہرا شامل ہیں، تقسیم ہند کے بعد مہاجرین کا جو پہلا قافلہ آیا وہ لیاری ہی میں قیام پذیر ہوئے جنکے نام سے منسوب آج بھی بہار کالونی اور آگرہ تاج کالونی موجود ہیں۔ علاوہ ازیں عثمان آباد میں بھی آباد ہوئے۔ آج بھی لیاری میں بڑی تعداد میں اردو بولنے والے موجود ہیں پھر وقت کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر علاقوں کے باسیوں نے تلاش روزگارکے لیے کراچی کا رخ کیا۔ خاص طور پر انھوں نے لیاری کو ہی اپنا مسکن بنا لیا جن میں پنجابی، پٹھان، سندھی، میانوالی، ہزارہ اقوام شامل ہیں۔ لیاری میں آباد تمام مذاہب کے پیروکار اور تمام زبانیں بولنے والے آپس میں پر امن اور بھائیوں کی طرح رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے غم و خوشی میں شریک ہوتے ہیں۔
لیاری کی قدیم بستیوں میں کلری، عیدو لین، کھڈہ، شیدی ولیج، گل محمد لین، بغدادی، کلاکوٹ، چاکی واڑہ، رانگی واڑہ، میراں ناکہ، سیفی لین، سنگھولین، نوکیں لین، شاہ بیگ لین، ریکسر لین، کمہارواڑہ، لیمارکیٹ، آگرہ تاج کالونی، بہارکالونی شامل ہیں۔ 1998ء کی قومی مردم شماری کے مطابق لیاری کی آبادی 607992 افراد پر مشتمل تھی جب کہ قومی مردم شماری 2017ء کے ابتدائی نتائج کے مطابق لیاری کی آبادی 662816 ہے اس طرح گزشتہ 19سال کے دوران لیاری کی آبادی میں 54824 افراد کا اضافہ ہوا ہے۔ کسی زمانے میں بلوچ لیاری کے اکثریتی قوم تھی جو اب نہیں رہے۔
اس کی ایک وجہ لیاری میں ملک کے دیگر حصوں سے آئے ہوئے لوگوں کی آبادکاری ہے، دوسری وجہ لیاری میں امن و امان کی صورت حال کے پیش نظر بلوچوں کا لیاری سے شہر کے دیگر علاقوں جن میں مواچھ گوٹھ، نیول کالونی، مزدورکالونی، رئیس گوٹھ، حب چوکی و دیگر مضافات میں نقل مکانی ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ لیاری میں صدیوں سے آباد بلوچ قوم اقلیت میں بدل چکی ہے، اب لیاری میں بلوچوں کے محض درج ذیل علاقے ہیں۔
کلاکوٹ، نوکیں لین، ریکسر لین، گل محمد لین، کلری، شاہ بیگ لین، بغدادی، سنگھولین شامل ہیں اور بادی نظر میں ان علاقو ں میں بھی آنے والے وقتوں میں بلوچ اقلیت میں شمار ہونے والے ہیں، بلوچوں سے بلڈرز مافیا ان کے گھر و مکان اور خالی پلاٹ مہنگے داموں خرید کر ان جگہوں پر بلند و بالا رہائشی عمارات تعمیر کی جا رہی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان قیمتی عمارتوں میں کون لوگ آباد ہونے والے ہیں؟ کیوں کہ جو بلوچ اپنی جائیدادیں فروخت کر رہے ہیں وہ لیاری سے باہر دیگر علاقوں میں آباد ہو رہے ہیں۔ ان علاقوں کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔
باقی رہ جاتے ہیں وہ بلوچ جو کسی صورت اپنے آباؤ اجداد کا گھر مکان بیچنا نہیں چاہتے انھیں بھی زیادہ رقم دینے کا لالچ دیا جا رہا ہے کہ وہ بھی اپنا گھر مکان بلڈرز کے ہاتھوں فروخت کریں اس ضمن میں لیاری بھر میں مڈل مین سرگرم عمل ہیں اور ان مکینوں کو یہ آفر بھی دی جا رہی ہے کہ انھیں مجوزہ فلیٹ کے اوپر والے منزل پر پانچ کمروں پرمشتمل اپارٹمنٹ دیا جائے گا۔
لیاری میں نئے تعمیر شدہ فلیٹوں کی قیمت 27 لاکھ روپے سے شروع ہوتی ہے چونکہ لیاری میں آباد بلوچوں کی اکثریت انتہائی غریب ہیں جہنیں پیٹ بھرکر دو وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہے وہ تو ان مہنگے فلیٹوں کو خریدنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، پھر ان مہنگے فلیٹوں میں کون لوگ بسنے والے ہیں؟ اس طرح یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان فلیٹوں میں وہی لوگ آباد ہوں گے جو مالدار ہوں گے!یہ مالدار لوگ لیاری کے غیر بلوچ ہوں گے؟ یا لیاری سے باہر کے لوگ ہوں گے یہ منظر نامہ بعد میں نمودار ہوگا۔ ہر دوصورت میں یہ بات واضح ہے کہ اس طرح آنے والے وقتوں میں لیاری کے باقی بچا کھچا بلوچ بھی اقلیت میں بدل جائیں گے اور وہ دن دور نہیں جب لیاری کے بلوچوں کی صرف داستانیں ہی باقی رہ جائے گی!
ان بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر سے لیاری میں پانی، سیوریج، بجلی اور صفائی کی ابتر صورتحال بھی پیدا ہونے کے قوی امکانات ہیں کیوں کہ لیاری میں پہلے ہی سے یہ مسائل سر اٹھائے ہوئے ہیں۔ مزید ان میں اضافہ کسی آفت سے کم نہیں ہوگا۔ لیاری کے بلوچ قوم سے معاشی مذاق یہ بھی ہے کہ سیاسی لوگ انتخابات کے زمانے میں بلوچ نوجوانوں سے وعدے کرتے ہیں کہ انھیں سرکاری ملازمت دی جائے گی لیکن ووٹ لینے کے بعد یہ لیڈرمنظر سے اس طرح غائب ہو جاتے ہیں جس طرح گدھے کے سر سے سینگ۔ لیاری میں غربت کی انتہا ہے جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا بس دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اللہ پاک لیاری کے بیروزگار نوجوانوں پر اپنی رحمت نازل کرے۔ (آمین)