جب سے موجودہ پی ٹی آئی تبدیلی سرکار برسر اقتدار آئی ہے، اپوزیشن کورونا کی طرح ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑی ہوئی ہے اور اسے سلیکٹڈ حکومت قرار دیتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اپوزیشن کے نمایندے بھی انتخابات جیت کر قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین ہیں اور خوب مراعات حاصل کر رہے ہیں۔
صوبہ سندھ میں پی پی پی کی حکومت ہے، جہاں سید مراد علی شاہ وزیر اعلیٰ ہیں۔ کون سلیکٹڈ ہے اور کون منتخب ہے یہ ایک الگ بات ہے۔ دھرنے، استعفے، جلسے و جلوس، احتجاجی مظاہرے، بیانات در بیانات جمہوری سیاست کا حصہ ہیں اور سیاست میں کچھ حرف آخر نہیں ہوتا۔ جو آج دوست ہیں، وہ کل ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوا کرتے تھے۔ ایسا ہمیشہ ہوتا رہا ہے اور آیندہ بھی یہی کچھ ہوتا رہے گا یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔
یہی کچھ جمہوریت کا حسن کہلاتا ہے، جسے آپ جدید سیاسی منافقت بھی کہہ سکتے ہیں۔ ذرا غور و فکرکریں آج جو سیاسی لوگ پی ٹی آئی حکومت کے حصے دار ہیں، پہلے وہ بھی ان کے ساتھی تھے جو آج اپوزیشن میں ہیں اور کوئی بھید نہیں کہ آنے والے وقتوں میں واپس ان کے حصے دار بن جائیں یہ کہہ کر کہ غلطی ہوئی، اصولوں کا سودا منظور نہیں۔ اس طرح یہ ہر حکومت کے وفادار رہ چکے ہیں۔ یہ سیاسی کھیل تماشا مدتوں پر محیط ہے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایک دوسرے کے رشتے دار ہی مختلف حکومتوں میں رہے ہیں اور آیندہ بھی یہی لوگ پرانا شکاری، نئے جال کے روپ میں نمودار ہوں گے اور غریب سادہ لوح عوام کے جذبات سے کھیل کر پھر حکومت میں شامل ہو جائیں گے۔
اس تناظر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ عوام کی بھلائی کے لیے نہ پہلے کچھ ہوا تھا اور نہ اب کچھ ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ دور نہ جائیں پی ٹی آئی کی مثال لے لیں بائیس سال پہلے والے اور موجودہ پی ٹی آئی برسر اقتدار پارٹی کا موازنہ کریں تو بہت ساری باتیں عیاں ہو جائیں گی۔ بائیس سال پہلے جب عمران خان نے کرکٹ کے میدان سے سیاسی کھیل کے میدان میں قدم رکھا اور اپنی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی اوردو دہائیوں تک عوام کے حقوق کی باتیں کیں اور جب ان کی حکومت آئی اور گزشتہ ڈھائی سالوں کی کارکردگی کا موازنہ کریں تو سب کچھ الٹا ہوتا ہوا دکھائی دے گا۔
جب پی ٹی آئی جماعت بنائی گئی تو اس میں نظریاتی سیاست دان اور پرعزم نوجوان جوق در جوق شامل ہو رہے تھے مگر انتخابی میدان میں وہ عمران خان کو مایوس کر گئے کیونکہ وہ موروثی سیاست میں فٹ نہیں تھے اس لیے وہ حکومت حاصل کرنے سے قاصر تھے جب یہ بات عمران خان کی سمجھ میں آئی تو وہ بھی اس بھیڑ چال کا حصہ بننے پر مجبور ہوگئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پی ٹی آئی میں وہی طبقہ براجمان ہو گیا جو اس فرسودہ سیاسی نظام کے حصے دار چلے آ رہے تھے۔
اس طرح پی ٹی آئی کے تن مردہ میں جان پڑگئی اور دوسری طرف بانی اراکین جوکہ نظریاتی تھے ایک ایک کرکے پی ٹی آئی سے الگ ہوتے گئے یا انھیں جدا کر دیا گیا۔ اس طرح حقیقی معنوں میں پی ٹی آئی کی باگ ڈور ان لوگوں کے ہاتھوں آگئی جن کے خاندان جدی پشتی حکمرانی کے مزے لوٹتے رہے ہیں۔ اس طرح نئے لیبل کے ساتھ تبدیلی کے نعرے کی گونج میں سادہ لوح عوام کو مست کر گئے جب ہوش آیا اس وقت تک جان لیوا مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر عوامی مسائل ان کے ہوش و حواس ٹھکانے لگا چکے تھے۔
تب انھیں احساس ہوا کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے اور اب بھی سادہ لوح عوام جاری سیاسی کھیل تماشے کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ کل تک ایک دوسرے کے خلاف صف آرا آج متحد و یک زبان ہیں۔ حکومت ہو چاہے اپوزیشن ان کو عوامی مسائل سے سروکار نہیں ہے، ان کی طرف سے عوام جائیں بھاڑ میں کیونکہ ان کی بھی حکومتیں رہی ہیں۔ ان کی حکومتوں میں بھی عوام کی چیخیں نکلتی تھیں۔ اپوزیشن اس فرسودہ سیاسی نظام کو جلا بخشنے کے اقدامات کر رہی ہے۔
متحدہ اپوزیشن انتخابات کے وقت پھر اپنی جدا جدا راہوں میں گامزن ہوگی اور پھر سے ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی کرکے سادہ لوح عوام کے جذبات سے کھیل کر برسر اقتدار آجائیں گے اور بے چارے عوام پھر منہ تکتے رہ جائیں گے۔ ایسا ہوتا رہا ہے اور آیندہ بھی یہی کچھ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس لیے سیاسی کارکنوں کو زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کل بھی وہ سیاسی ایندھن کے طور پر استعمال ہوتے رہے ہیں اور آیندہ بھی یہی کچھ ان کا مقدر ہے کیونکہ یہی فرسودہ سیاسی نظام کے طور طریقے ہیں جنھیں سمجھنے کے لیے سادہ لوح عوام کو مہلت نہیں دی جاتی ان کے دل و دماغ مختلف معاملات میں الجھا کر مفلوج کر دیے جاتے رہے ہیں اور اب بھی بڑے زور شور سے سنہرے سبز باغ دکھائے جا رہے ہیں۔
عوام نے تبدیلی کے نعرے پر اعتبار کرکے انھیں مسند اقتدار تک پہنچا دیا، اس امید کے ساتھ کہ ان کی تنگ زندگی میں آسودگی آجائے گی لیکن غریب عوام کو اس نہج پر پہنچا دیا گیا ہے کہ وہ خودکشی کا بھی سوچ نہیں سکتے کیونکہ موت کے بعد میت کے اخراجات بھی بڑھ گئے ہیں۔ غریب عوام کے منہ سے روکھی سوکھی روٹی بھی چھین لی گئی ہے پھر بھی کہا جاتا ہے کہ تمہیں گھبرانا نہیں ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر عوامی مسائل کے بوجھ تلے دبے کچلے عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں اور سننے والا کوئی نہیں۔ ریاست مدینہ اس طرح نہیں بنی تھی جس طرح ہمارے یہاں بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ریاست مدینہ کی بنیاد عوامی مصائب ختم کرنے پر پڑی تھی جب کہ ہمارے یہاں عوامی مسائل پر مسائل پیدا کیے جا رہے ہیں۔ کرپشن کا خاتمہ کروں گا، زرداری و نواز شریف کو نہیں چھوڑوں گا، این آر او نہیں دوں گا کی گونج میں مصنوعات اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں من مانے طور پر بڑھا دی جاتی ہیں اور جب ان کا نوٹس لیا جاتا ہے تو مہنگائی مستحکم ہو جاتی ہے۔ جب بھی مہنگائی کا نوٹس لیا جاتا ہے تو عوام گھبرا جاتے ہیں کہ مہنگائی مزید بڑھنے والی ہے۔ عوام کی یہ بے یقینی جمہوریت کے اس حسن کو جمہوریت کے لیے ایک بہترین انتقام تصورکرلیتی ہے۔
افواہ گردش میں ہے کہ تبدیلی سرکار کی چھٹی ہونے والی ہے۔ نگران حکومت قائم ہونے والی ہے لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری میں مزید اضافہ ہونے والا ہے۔ اللہ خیر کرے۔ سیاسی اچھل کود نظر بندی کا سیاسی تعویذ نہیں جس سے انسان کو وہ کچھ نظر نہیں آتا جو اس کے سامنے رونما ہو رہا ہوتا ہے بلکہ اسے وہی کچھ نظر آتا ہے جو اسے دکھانا مقصود ہوتا ہے۔ اس لیے کچلے ہوئے غریب عوام اس خوش فہمی میں مبتلا نہ ہوں کہ حکومت کی تبدیلی سے ان کی تقدیر میں بہتری آئے گی بلکہ دعائے خیر کریں کہ اللہ پاک پاکستان کی حفاظت فرمائے اور عوام کو صبر کی توفیق عطا کرے۔ (آمین۔)