وہ بھی ایک زمانہ تھا، کسی شادی والے گھرکے دلہا کی بارات پر بینڈ باجے والوں کی خدمات حاصل کرنا ایک شان سمجھا جاتا تھا۔ کلف لگی وردیوں اور طرح دارکلغی والی پگڑیاں باندھے بارات کے آگے آگے دھنیں بکھیرتے بینڈ باراتوں کی سج دھج اورخوشیوں کے لمحات کو یاد گار بنایا کرتے تھے۔
شادی بیاہ کے سیزن کے موقعے پر بینڈ باجے والوں سے تاریخ لینا بھی ایک مسئلہ ہواکرتا تھا کیونکہ ہرکسی دلہا یا اس کے گھر والوں کی خواہش ہوا کرتی تھی کہ شادی کی بارات میں بینڈ باجے والوں کو بلایا جائے تاکہ شادی کی خوشی دوبالا ہوجائے اورخاندان میں نام اونچا رہے کہ دیکھو فلاح کی شادی پر بینڈ باجے والوں کو بلایا گیا تھا، ہم بھی اپنے بیٹے، بھائی کی شادی پر بینڈ باجے والوں کو بلائیں گے۔
کراچی چڑیاگھر سے متصل قدیم عمارت جسے اب منہدم کیا جاچکا ہے، اس کی جگہ اب چاروں اطراف دیواریں کھڑی کردی گئی ہیں۔ اس عمارت میں درجنوں بینڈکمپنیوں کے دفاتر قائم تھے جہاں شادی سیزن کے دنوں میں یعنی عیدکے فوری بعد سیزن شروع ہوتا تھا کے دوران باراتوں میں بینڈ بجانے کے آرڈر دینے والوں کا رش لگا رہتا تھا، بڑی مشکل سے لوگوں کو من پسند تاریخیں ملتی تھی۔
بینڈ باجے والوں کو اچھی خاصی رقم ملتی تھی، علاوہ ازیں باراتوں میں دلہا پر نچاورکرنے والی رقم الگ سے انھیں ملا کرتے تھے۔ یہ سارے روپے بینڈ باجے والے جن کی تعداد 8، 10افراد پر مشتمل ہوا کرتا تھا، آپس میں بانٹ لیا کرتے تھے اس طرح ان کے گھرکا چولہا جلا کرتا تھا۔
کسی بھی بارات کے لیے تیاریاں دن سے شروع کردی جاتی تھی اور وردیاں و باجے تیارکیے جاتے تھے، دھنوں کی ریہرسل کی جاتی تھی جس کے بعد بینڈ ماسٹرکی سربراہی میں 10افراد کا بینڈ تیار ہوتا تھا، بینڈکی آمد رفت کے لیے گاڑی کا انتظام کیا جاتا تھا۔
کراچی میں بینڈ اور شادی میں شادیانے بجانے کی روایت قیام پاکستان کے وقت بھارت کے علاقوں ڈھول پور، اندور اور آگرہ سے آنے والے ماہر بینڈ بجانے والے فنکاروں نے شروع کی۔ ملکی اہم تہواروں، قومی ایام اور سرکاری تقریبات میں بھی بینڈ کے مظاہرے کی روایت رہی ہے۔ مثال کے طور پر یوم پاکستان، جشن آزادی و دیگر قومی تہواروں کے موقعے پر سرکاری اداروں، اسکولوں اور نجی اداروں میں بینڈزکو قومی دھنیں بکھیرنے کے لیے مدعوکیا جاتا تھا۔
ایک وقت ایسا آیا کہ شادی کا سیزن ہونے کے باوجود باراتوں میں بینڈ باجے بجانے والے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے، کچھ عرصہ بیشتر باراتوں کی شان سمجھے جانے والے بینڈ باجے معدوم ہونے لگے اور پڑے پڑے ان کے پیتل کے باجے زنگ آلود ہوگئے، بینڈ بجانے والے ماہر فنکاروں کے گھروں کے چولہے بھی ٹھنڈے ہونے لگے بیشتر بینڈ باجے والوں نے روزگارکے لیے دیگر ذرایع اختیار کر لیے، بینڈ باجے کے فن کی ترویج اور سرپرستی نہ ہونے کی صورت میں یہ ہنر بھی معدوم ہونے لگا۔
ایک طرف شہری طرززندگی میں تیزی سے تبدیلی کی وجہ سے شادی بیاہ کے رسومات پر بے تحاشہ پیسہ خرچ کیا جانے لگا تو دوسری طرف بینڈ باجے کی روایت تیزی سے ختم ہونے لگی۔ تقریبا دوسال قبل کراچی چڑیا گھر سے متصل عمارت میں جہاں پہلے درجنوں بینڈکمپنیوں کے آفس ہوا کرتے تھے ان کی تعداد 10رہ گئی، ان دنوں شادی بیاہ کا سیزن ہونے کے باجود سناٹے کا راج ہونے لگا تھا ان ہی دنوں عید کے فوری بعد شادی بیاہ کا سیزن شروع ہونے کے باجود ہفتہ بھر میں اکا دکا باراتوں میں بینڈ بجانے کے آرڈر ملنے لگے تھے۔
ان ہی دنوں سے بینڈ سے وابستہ فنکاروں کو بدترین بے روگاری کا سامنا کرنا پڑا۔ ہفتہ دس روز میں ایک سے دوآرڈر ملتے تھے جس میں بینڈ کے ہر رکن کو 500سے 700روپے تک کی آمدن ہوتی تھی۔ مہینے میں بمشکل 10سے 15ہزارروپے کی آمدن ہوتی تھی۔ جس کی وجہ سے بیشتر افراد یہ پیشہ ترک کرنے لگے تھے یا پھرکراچی سے پنجاب کے شہروں میں منتقل ہونے لگے تھے جہاں اب بھی بینڈ باجے والوں کا روزگار لگا ہوا ہے۔
آج سے دو سال قبل کراچی میں پارٹیاں زیادہ سے زیادہ 5سے7ہزار روپے معاوضہ دیتی تھی جس میں 8سے 10افراد کو پرفارم کرنا ہوتا تھا۔ کراچی میں دوسال قبل ہی شادیوں میں شادیانے بجانے والے بینڈ کی تعداد میں تیزی سے کمی آرہی تھی، دو سال قبل 15سے20بینڈ گروپ ہی کام کررہے تھے۔
بینڈ باجے کی روایت ختم کرنے میں مہنگائی کے ساتھ جدید ساؤنڈ سسٹم نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے، کیونکہ باراتوں میں اب ساؤنڈ سسٹم لگاکر موسیقی کا انتظام کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے بینڈ باجوں کی ضرورت نہیں پڑتی، بارات کے ساتھ بھی ٹرک پر بڑے ساؤنڈ سسٹم اور اسپیکر نصب کرکے چلائے جاتے ہیں جس پر کم سے کم 10سے پندرہ ہزار روپے خرچ کیے جاتے ہیں، کم بجٹ شادی والی پارٹیاں ڈھول بجانے والوں کو مدعوکرتی ہیں جو ہزار سے15 سو روپے میں ڈھول بجاکر باراتوں اور مہندی کی تقریبات میں رونق لگاتے ہیں۔ اس طرح وقت کے ساتھ بینڈ باجے کی روایت بھی تقریبا ختم ہوچکی ہے۔
کم ازکم اگرقومی تہواروں پر بینڈزکے مظاہرے کو فروغ دیا جاتا تو ایک معدوم فن بینڈ باجے کو زندہ کرنے کے ساتھ اس کام سے وابستہ سیکڑوں گھرانوں کے چولہے ٹھنڈے ہونے سے بچائے جاسکتے تھے، اگرچہ بینڈ سکھانے کے لیے فورسز میں خصوصی اکیڈمیاں قائم ہیں لیکن نجی شعبے میں اس طرزکی کوئی اکیڈمی موجود نہیں ہے۔ بینڈکی مہارت کو دیگر فنون لطیفہ کی طرح پذیرائی اور فروغ نہ ملنے سے اس فن کی نئی نسل کو منتقلی کا عمل رک گیا ہے۔