Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Uftada e Zameen

Uftada e Zameen

تین صدی قبل ایران کی ساحلی پٹی اور موجودہ پاکستان کے صوبے بلوچستان کے مکران ڈویژن سے بسلسلہ روزگار بلوچ ماہی گیروں نے کراچی کا رخ کیا اور ساحل سمندر پر واقع علاقے لیاری اور کیماڑی میں سکونت اختیار کرلی تھی۔

عیسیٰ بلوچ کے آباؤ اجداد بھی ایران سے ہجرت کرکے لیاری میں آن بسے تھے اور ماہی گیری کا آبائی پیشہ جاری رکھا، جو عیسیٰ بلوچ تک پہنچتے پہنچتے تقریبا ختم ہوگیا ہے، خاندان کے دیگر افراد بھی الگ الگ شعبوں میں منسلک رہ کر جینے کی کوشش کررہے ہیں۔ عیسیٰ بلوچ کے والد سیلان بلوچ (مرحوم) بھی شعبہ ماہی گیری سے وابستہ رہے اور تاحیات کڑی محنت و مشقت کرتے رہے۔ ان کی تعلیم و تربیت میں ان کے والدین کے علاوہ ان کے بڑے بھائی نواز بلوچ کا بھی مثالی کردار رہا ہے۔

عیسیٰ بلوچ کا پورا نام عیسیٰ بزنجو بلوچ جو 2جنوری 1962 میں کراچی کے قدیمی علاقے لیاری میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم محلے کے اسکول سے حاصل کی، حاجی عبد اللہ ہارون کالج کھڈہ لیاری سے بی اے کی سند حاصل کی اور جامعہ کراچی سے ایم اے کیا۔ اسکول ہی کے زمانے سے ترقی پسند دانشور و سیاسی رہنما لالا لعل بخش رند کی صحبت کی وجہ سے ان میں سیاست سے لگاؤ پیدا ہوا۔ علاوہ ازیں ادبی محفلوں میں شرکت کیا کرتے تھے خاص طور پر عوامی ادبی انجمن کی تنقیدی نشستوں میں بڑے شوق سے جایا کرتے تھے۔

فیض احمد فیض، ساحر لدھیانوی اور حبیب جالب ان کے پسندیدہ شاعر تھے اور انھی کی بدولت انھیں بھی شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ 1992 میں بسلسلہ روزگار کویت چلے گئے، کویت کا ماحول سیاست کے لیے ناسازگار ہونے کے سبب صرف شعر و شاعری میں زیادہ دلچپسی لی۔ آج کل دوبارہ اپنے آبائی علاقہ لیاری میں رہائش پذیر ہیں۔

گزشتہ دنوں عیسیٰ بلوچ کی نظموں و غزلیات کا مجموعہ کلام " افتادہ زمیں " کی تقریب رونمائی گل محمد لین لیاری میں ہوئی، جس میں رمضان بلوچ نے میزبانی کے فرائض سر انجام دیے۔ اس موقع پر وحید نور، واحد کامریڈ، لطیف بلوچ، جاوید، گل ملیری، عیسیٰ خان بلوچ، مصنف عیسیٰ بلوچ، اسحاق خاموش، سلیم بلوچ، شبیر احمد ارمان، اصغر لعل، اورنگ زیب بلوچ، زبیر زباد اور شریف شاد سربازی کے علاوہ دیگر ادبی و سماجی شخصیات شریک تھے۔

اس موقع پر اہل قلم نے مصنف کی کتاب پر سیر حاصل تبصرے کیے اور مصنف کی کاوش کو سراہا۔ مستاگ فاؤنڈیشن کراچی کی جانب سے شایع کردہ اس کتاب کی سرورق دیدہ زیب ہے جو اپنے نام (افتادہ زمیں) کی عکاس ہے یعنی بغیر جوتی ہوئی ناکارہ زمیں کی عکس ہے۔ 160صفحات پر مشتمل اس کتاب میں 49نظمیں 34 غزلیں اور 2 قطعہ ہیں جو رومانوی، انقلابی اور سماجی جذبوں کی عکاسی کرتے ہیں جو شاعر کے داخلی دکھ سکھ کی ترجمانی بھی کرتے ہیں۔

عیسیٰ بلوچ کی شاعری لیاری اور اس کے مضافاتی آبادیوں سے لے کر بلوچستان اور سندھ کے دور دراز علاقوں میں پروان چڑھنے والی نوجوان نسل کے خوابوں کی ترجمانی بھی ہے۔ کتاب کا دیباچہ معروف سینئر صحافی توقیر چغتائی نے لکھا ہے کہ کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے قاری کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف اردو کی روایتی اور رومانوی شاعری کے قریب ہیں بلکہ انھیں اپنے اظہار کے لیے ہم عصر سماجی و سیاسی ٹوٹ پھوٹ کا بھی ادراک ہے۔

دنیا بھر کے ساتھ وہ اپنے قبیلے کے نوجوانوں، مزدوروں، سماجی کارکنوں، عورتوں اور بچوں کے مسائل پر بھی بات کرتے ہیں اور ان کے اشعار میں ایسی قوتوں کا ذکر بھی جا بجا پایا جاتا ہے جن کی وجہ سے لیاری کے نوجوانوں اور اس بستی کے مکینوں کی زندگی مختلف مسائل کا شکار ہوئی یا ہو رہی ہے۔ کتاب پر اظہار خیال کرتے ہوئے بد سیماب لکھتے ہیں کہ افتادہ زمینوں کے دکھ اس کے دل پر پھوار کی صورت گرتے ہیں اور خوشبوئے سخن بن کر سارے جہاں میں پھیل جاتے ہیں۔ معروف شاعر وحید نور افتادہ زمیں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ واقعی لیاری سے ہر دور میں ایسا کمال ادب تخلیق ہوکے سامنے آتا رہا ہے جس کی انفرادیت اور حساسیت نے پڑھنے والے کو چونکا کے رکھ دیا ہے ایسا ہی کچھ کامریڈ عیسیٰ بلوچ کی کتاب میں بھی آپ کو جا بجا پڑھنے کو ملے گا۔

عیسیٰ بلوچ اپنے اظہار کے لیے بلوچی زبان کے بجائے اردو زبان میں شاعری کرتے ہیں تاکہ ان کا پیغام دوسروں تک بھی آسانی سے پہنچ پائے۔ اس کتاب سے قبل ان کی شاعری کی دو کتابیں بھی چھپ چکی ہیں۔ شاعر کا ذریعہ اظہار الفاظ ہیں جن کے استعمال کا شاعر حق بجانب ہوتا ہے۔ عیسیٰ بلوچ کے اظہار میں سوز و الم ہے اور یہ دل آویزی اپنے لیے نہیں بلکہ کچلے ہوئے غریب عوام کے لیے ہے جو صبح و شام فرسودہ نظام کی چکی میں پس رہے ہوتے ہیں۔

عیسیٰ بلوچ لکھتے ہیں کہ:

باد صر صر کے مارے ستائے ہوئے

ہم نہیں ایسے صحرا میں آئے ہوئے

ظلم سہنے کی عادت میں خلق خدا

سہتی جاتی ہے سر کو جھکائے ہوئے

ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ:

تیری دنیا میں تعزیریں ہیں بہت

نکتہ چیں میری تحریریں ہیں بہت

نا جانے کیوں سیدھے سپنوں کی مرے

ایسی پیچیدہ تعبیریں ہیں بہت