میں تیری یاد کو اس دل سے مٹاتا کیسے
تو کوئی ریت پہ لکھی ہوئی تحریر نہیں
وقت کے ساتھ جو مٹ جائے، وہ تصویر نہیں
9 جنوری 2019ء کی صبح میری والدہ اس دار فانی سے کوچ کر گئیں۔ ان سے بچھڑے ایک برس ہو چلا ہے۔ امی کی وفات سے ایک دن قبل میری بھتیجی کی تاریخ طے ہو گئی تھی، گھر میں خوشی کا سما تھا اور رات گئے تک سارا خاندان مل بیٹھ کر بھتیجی کی شادی کے متعلق مشورے کرتے رہے کہ کیا کرنا ہے اورکیا نہیں کرنا ہے، شادی سادگی سے کرنی ہے، کتنے مہمانوں کو دعوت دینی ہے، مہمانوں کی تواضع کس چیز سے کرنی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اس وقت والدہ کے چہرے پر ایک سنجیدگی تھی، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے وہ کہہ رہی ہوکہ میں اس شادی میں شریک نہیں ہونگی۔
ایک دو دن سے ان کے سینے کے بائیں جانب درد ہو رہا تھا اور بار بارکہتی رہیں کہ "میں مر جاؤں گی" میں کہتا کہ "ایک دن ہم سب کو دنیا سے جانا ہے مگر آپ کوکچھ نہیں ہو گا" مگر وہ مسلسل کہتی رہیں "شبیر، میں مر جاؤں گی" ڈاکٹر سے دل کا معائنہ کرایا، بی پی چیک کرایا، ڈاکٹر نے نارمل قرار دیا، اور چند ادویات دیں، جن سے آرام آ گیا تھا، لیکن شاید انھیں علم ہو چکا تھا، اس لیے اپنی پوتی کی شادی کی تاریخ طے ہو جانے پر بھی ان کے چہرے پر سنجیدگی نمایاں تھی۔ آخر کار رات گئے گفتگو کا سلسلہ ختم ہوا، ہم سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے، خیال رہے کہ ہمارا گھرانہ مشترکہ ہے جسے عرف عام میں جوائنٹ فیملی کہتے ہیں۔
ایک چھت تلے ہم تین شادی شدہ بھائی بیوی و بچوں والدہ اور چاچا، چاچی اس کے بچے اور بہو ساتھ رہتے ہیں۔ ذاتی اس تین منزلہ گھر میں سب خوش و خرم زندگی بسرکر رہے ہیں، ایک دوسرے کے غم و خوشی میں برابرکے شریک ہیں۔ والدہ اپنے کمرے میں سونے کے لیے چلی گئیں۔ والدہ کا کمرہ، میرے کمرے کے ساتھ واقع ہے، والدہ نے مجھے آواز دی "شبیر، میں ان کے کمرے میں داخل ہوا اور پوچھا " کیا بات ہے اماں؟ خیریت تو ہے، طبیعت کیسی ہے؟ ۔ مجھے سردی لگ رہی ہے مجھے مزید اڑا دو، (ایک کمبل پہلے سے لیا ہوا تھا) میں نے ایک اور رلی اوڑھا دی اور پوچھا "اب بھی سردی لگ رہی ہے؟ " کہا نہیں، اب ٹھیک ہے۔ تسلی کر کے میں اپنے کمرے میں سو گیا۔ معلوم نہ تھا کہ اماں سے یہ میری آخری ملاقات اور آخری گفتگو ہو گی۔
صبح بیگم نے بچوں کو اسکول کے لیے اٹھایا، میرے بیٹے تاج محمد نے آ کر اپنی ماں سے کہا کہ "بڑی اماں ابھی تک سو رہی ہیں، وہ روز میرے ساتھ اٹھتی ہیں " میری بیوی نے جا کر دیکھا تو اس نے محسوس کیا کہ اماں بالکل سیدھی لیٹی ہوئی ہیں۔ گھبرا کر مجھے نیند سے بیدار کیا اور کہا کہ جا کے اماں کو دیکھ لو، میں فورا اٹھا، جا کے دیکھا، اماں نے اپنے پاؤں سیدھے لمبے کر کے اپنے دونوں ہاتھ جس طرح نماز میں سینے پر رکھے جاتے ہیں، اسی طرح رکھے ہوئے ہیں، جس سے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ سیدھی لیٹی ہوئی نماز پڑھ رہی تھیں۔
میں نے نبض کو چیک کیا، سینے پر ہاتھ رکھا، میں سمجھ گیا، اماں اب اس دنیا میں نہیں رہیں، اتنے میں میری بیگم نے نیچے منزل پر موجود پورے خاندان کو اطلاع دی سب اوپر کمرے میں آ چکے تھے۔ میرا بڑا بھائی نذیر بھی آ چکا تھا، گھر کے برابر میں واقع قیام پذیر میرے خالہ زاد بھائی راشد پینٹر بھی آ چکے تھے، میری ہمت جواب دے چکی تھے، میں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ وقتی طور پر سانس رک گئی ہو، سول اسپتال لے چلو، چیک اپ کرا لو۔ صدمے کی حالت میں اسپتال نہ جا سکا۔ ایمبولینس بلوائی گئی، ایمبولینس اسپتال کی جانب روانہ ہوئی، اور میں ان کی زندگی کی دعا مانگنے لگا۔
مجھے اندازہ نہ ہو سکا کہ وہ کتنی دیر بعد اسپتال سے آئے، بھائی نے کہا "اماں نہیں رہیں " میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اور اپنے بڑے بیٹے سے کہا "بڑی اماں مر گئی ہے" یہ سنتے ہی اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے، میں نے اسے سینے سے لگایا اور تسلی دینے لگا۔ اس وقت مجھے یکایک خیال آیا، مجھے کون تسلی دے گا؟ تسلی دینے والی ہستی میرا ساتھ چھوڑ چکی ہے۔ اس کے بعد وہی ہوا، جو ہر میت والے گھر میں ہوتا ہے۔ والدہ کو میوہ شاہ قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
میں نے اپنے والد کو نہیں دیکھا ہے، ماں کہتی تھی کہ تم (شبیر) جب میرے پیٹ میں چار ماہ کے تھے کہ تو تمہارے والد کا انتقال ہو گیا تھا۔ تمہارے ابو موذن تھے اور گھر پر درزی کا کام بھی کرتے تھے۔ والدہ اپنی جوانی ہی میں بیوہ ہوئیں، انھوں نے دوسری شادی نہیں کی، والدہ ہم سے کہتی تھیں کہ میں نے دوسری شادی اس لیے نہیں کی کہ میرے تین بیٹے ہیں، یہی میری زندگی اور میرا سہارا ہیں۔ ہم تینوں بھائیوں کی پرورش دادا مستری داد محمد، دادی، نانی، نانا دونوں چاچوں مستری عبدالرشید، مستری بشیر بلوچ اور اماں نے مل کر کی۔ ماں نے علاقے میں قائم سلائی کڑھائی کے سینٹر میں اور پھر گھر پر سلائی کڑھائی کا کام کیا۔ غربت کی یہ ایک لمبی داستان ہے، انشاء اللہ اس موضوع پر، پھر کبھی لکھوں گا۔
اللہ کے فضل سے بزرگوں کی محنت، شفقت سے ہم تینوں بھائی جوان ہو گئے، سب سے بڑا بھائی نسیم احمد دیار غیر میں ہے، بڑا بھائی نذیر احمد تاج ہومیو پیتھک ڈاکٹر ہونے کے ساتھ اسکول ٹیچر بھی ہے جب کہ میں نے 17 سال کی سرکاری ملازمت چھوڑ کر صحافت کے میدان میں قدم رکھا۔ زندگی کی یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ بات ہو رہی ہے ماں کی۔ ماں، ماں ہوتی ہے، ماں کا کوئی بدل نہیں، ان کی باتیں اور یادیں نہ ختم ہونے والی ہیں۔ میں جب بھی گھر سے باہر نکلتا، دفتر جاتا تو ماں سے کہتا کہ " اماں میں جا رہا ہوں دعا کرنا " یہ میرا معمول تھا اور ماں ڈھیر ساری دعائیں کرتیں اور میں پراعتماد ہوتا تھا کہ مجھے کامیابی ہو گی، دن اچھا گزرے گا اور ایسا ہی ہوتا تھا، ماں کی دعاؤں نے میرا بہت ساتھ دیا۔ اب ماں اس دنیا میں نہیں رہیں لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے ماں ہر وقت میرے ساتھ ہے اور کامیابی میرا نصیب ہے۔ آخر میں، میری دعا ہے کہ اللہ تبارک تعالیٰ میری والدہ کی مغفرت اور انھیں اپنے جوار رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ (آمین)