Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Blackmail, Blackmail Aur Blackmail

Blackmail, Blackmail Aur Blackmail

وزیر اعظم عمران خان تو چین کے کامیاب دورے کے بعد واپس آ گئے ہیں اور اب وہ شاید ایران اور سعودی عرب کے درمیان مصالحت کے لیے نکل کھڑے ہوں۔ خارجی سطح پر تو ان کو کامیابیاں مل ہی رہی ہیں لیکن داخلی محاذ پر ان کو بڑے مسئلوں کا سامنا ہے اور وہ ہیں بلیک میل، بلیک میل اور مزید بلیک میل۔ سیاسی پارٹیاں پہلے تو اداروں کو بلیک میل کر رہی تھیں جیسے ن لیگ نے عدلیہ کو یا کیوں نکالا مارچ میں انتظامیہ اور فوج کو، یا پی پی کا سندھ میں کچھ نہ کر کے حکومت کو دبائو میں لانے کا، یا میڈیا کے کچھ حصوں کا چھوٹی اور من گھڑت خبروں کو انتہائی اہم اور خطرناک بنا کر پیش کرنے کا، جیسے امریکہ میں میڈیا سمندری طوفانوں کو کوریج کرتا ہے اور چند دن خوب ریٹنگ ملتی ہے لیکن جیسے ہی طوفان زمین سے ٹکراتا ہے اور ٹھس ہو جاتا ہے میڈیا پر ایک ماتم کا منظر چھا جاتا ہے کیونکہ نہ کوئی درخت گرتا ہے اور نہ کوئی گھر۔ کیمرہ مین کے ساتھ کھڑے رپورٹرز کی حالت قابل رحم ہوتی ہے۔

پاکستان میں مولانا کے دھرنے یا آزادی مارچ کو بھی ایسی ہی کوریج مل رہی ہے حالانکہ نہ مولانا نے ن لیگ کو یا پی پی کو بتایا ہے کہ وہ کیا کرنے جا رہے ہیں اور کیسے، کس کے بل بوتے پر، صرف دھمکیاں ہیں کہ 15 لاکھ لوگ اسلام آباد پر یلغار کریں گے اور ہر طرف سے ابابیل آئیں گے اور اصحاب فیل کا حلیہ بگاڑ دیں گے۔ جب بیان زیادہ ہو گئے اور ن لیگ اور پی پی نے دوری دکھائی تو جعلی خبریں آنے لگیں جیسے وہ آرٹیکل 6 والا ہدایت نامہ۔ خاوند یا اسلام آباد کے DCکا جعلی آرڈر۔ یہ ایک طرح میڈیا کے کچھ حصوں کی بلیک میل کی کوشش تھی۔ تاجر حکومت کو بلیک میل کر رہے ہیں کہ ہمیں شناختی کارڈ منظورنہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہر پارٹی دوسری پارٹی کو بلیک میل کر رہی ہے اور بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ زرداری ن لیگ پر کبھی بھروسہ نہیں کر سکتے اور اسی طرح نواز شریف نہ مولانا فضل الرحمن پر اور نہ بلاول پر، ہر روز نئی کہانی سنا کر میڈیا کی توجہ لے کر گھر جا کر آرام کر رہا ہے اور اگلے دن پھر کوئی کہانی تیار ہوتی ہے۔ مولانا صاحب تو ہر ایک کو ان کی مرضی کی کتھا سنا رہے ہیں یعنی نواز لیگ کو کہا جا رہا ہے کہ آزادی مارچ نواز شریف کی آزادی کے لیے ہے، زرداری سے مدد مانگی جا رہی ہے کہ یہ مارچ ساری جعلی TTsکا مسئلہ حل کر دے گا اور خود مولانا اپنے لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ یہ ناموس رسالتؐ کا مسئلہ ہے۔ اب وہ اسے دھرنا نہیں بلکہ لانگ مارچ جو مائوزے تنگ نے کیا تھا کہہ رہے ہیں۔ مجھے ابھی تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ یہ آزادی مارچ کس سے آزادی کے لیے ہے۔ مولانا کہتے ہیں عمران خان کو ہٹایا جائے اور اس لیڈر سے آزادی دلائی جائے۔ ٹھیک ہے یہ سیاسی مطالبہ اور نعرہ ہو سکتا ہے لیکن کوئی الیکشن تو ہو نہیں رہا تو پھر کون ہٹائے خان صاحب کو۔ اگر مولانا صاحب چاہتے ہیں کہ ساری پارٹیاں مل کر یہ نعرہ لگائیں گی تو کوئی نہ کوئی ان کی بات سن لے گا۔ مگر وہ "کوئی" ہے کون۔ اگر ان کا مطلب فوج سے ہے تو پھر مطلب ہوا کہ یہ سب پارٹیاں مل کر فوج سے درخواست کر رہی ہیں کہ آپ مداخلت کریں اور ہماری جان چھڑائیں۔ ایک جمہوری سسٹم میں تو وزیر اعظم کو صرف تین طریقوں سے ہٹایا جا سکتا ہے یعنی ان کے خلاف اسمبلی میں عدم اعتماد پاس کیا جائے یا سپریم کورٹ ان کو نا اہل قرار دے یا پھر وزیر اعظم خود استعفیٰ دے دیں تو آزادی مارچ تو ان تینوں طریقوں میں کہیں فٹ نہیں ہوتا تو پھر یہ کیا صرف بلیک میل نہیں۔

مولانا صاحب سمجھتے ہیں 2014ء کے دھرنے میں فوج نے مداخلت کی تھی اور عمران خان اور مولانا طاہرالقادری کو آرمی چیف نے بلا لیا تھا۔ اسی طرح اگر وہ D چوک میں بیٹھ گئے تو ان کو بھی بلا لیا جائے گا اور کوئی وعدہ کر کے دھرنا ختم کرنے کا جواز دے کر یا لالی پاپ ہاتھ میں دے کر روانہ کر دیا جائے گا مگر وہ 2014ء تھا اور آج 2020ئآنے کو ہے اور حالات بالکل الٹ ہیں۔ فوج ہر طرف چوکنا اور مصروف ہے اور کسی گڑ بڑ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اسی لیے یہ خبریں بھی آ گئیں اور کسی نے تردید بھی نہیں کی کہ مولانا صاحب سے اہم غیر سیاسی لوگوں کی ملاقات یا ملاقاتیں ہو چکی ہیں مگر مولانا اپنی ضد پر قائم ہیں تو یہ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ اسمبلی کے اندر کوئی جان نہیں اور جس طرح سینٹ کے الیکشن اور چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد ناکام کی گئی تو وہاں سے بھی کوئی امید نہیں رہی۔ رہ گئیں عدالتیں تو ابھی کئی کیس پرانے حکمرانوں کے خلاف برسوں سے چل رہے ہیں اور ان کو سزائیں نہیں ہوئیں تو عمران خان کے خلاف تو کوئی کیس ہے ہی نہیں۔ اگر ان کی PTIکو غیر ملکی فنڈ کے کیس میں ہلایا گیا تو ایسے کیس تو ہر پارٹی کے خلاف موجود ہیں یعنی پھر سارے سسٹم کا ہی خدا حافظ۔ یہ صورتحال بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ پوری بساط لپیٹ دی جائے مگر پھر اس کے بعد کیا۔

ایک اور بلیک میل دو بڑی پارٹیوں یعنی ن لیگ اور PP کے حلقوں کی طرف سے اپنے معاون میڈیا کے ذریعے پھیلائی جا رہی ہے اور سوشل میڈیا کا خوب استعمال ہو رہا ہے کہ نومبر کے آخر اور ستمبر تک انتظار کیا جائے۔ مطلب یہ ہے کہ اس وقت تک خلا میں نئے ستارے سامنے آئیں گے اور ستاروں کی گردش ایسی ہو گی کہ عمران خان صاحب کے ستارے ڈوبنے لگیں گے اور قیدی اور جیل یا نیب کے اسیر مٹھائیاں بانٹنے میں حق بجانب ہو جائیں گے۔ یہ کہانیاں اس لیے پھیلائی جا رہی ہیں کہ فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا سرکاری نوٹیفکیشن ابھی جاری ہونا ہے۔ مجھے نہیں معلوم وزیر اعظم کے دستخط کے ساتھ جو اعلان ہوا تھا اس کے بعد وزارت دفاع نے وہ سرکاری گزٹ جاری کیا ہے یا نہیں مگر جس طرح حالات نظر آ رہے ہیں اگر وہ نہیں بھی ہوا تو اس کے جاری ہونے میں کیا رکاوٹ ہے۔ کسی کو کسی طرح کی گڑ بڑ کی اگر بو آ رہی ہے تو وہ اپنی گلی کی نالیاں صاف کروائے تا کہ بو اور بدبو میں فرق کر سکے۔ افواہوں کے سہارے زندہ رہنے والے لمبی عمر نہیں پا سکتے اور ابھی ایک ٹی وی پر بہت عمدہ بات کی ایک گورے تجزیہ کار نے۔ "ایک مردہ مچھلی کی بدبو ایک ہفتے بعد بھی خوشبو میں تبدیل کبھی نہیں ہوتی"۔ تو اس مچھلی بازار والے منظر نامے میں وزیر اعظم کے سامنے دو ہی راستے ہیں۔ ان کی خواہش تو یہ ہے کہ چین کی طرح 500لوگوں کو جیل میں ڈال دیں مگر وہ اصلی بات جو شاید کہنا چاہتے تھے نہ کہہ سکے یعنی چین میں چوروں اور ڈاکوئوں کو جیل میں کم ہی ڈالا جاتا ہے بلکہ بندوق بردار سکواڈ کے سامنے کھڑا کر کے گولی ماری جاتی ہے جس کی قیمت ملزم سے وصول کی جاتی ہے۔ خان صاحب یہ تو شاید نہیں کر سکتے مگر انہوں نے تو دبائو میں آ کر جو چور پکڑے گئے ہیں ان کو VIPبنا کر رکھا ہے۔ آخر ایسی کون سی مشکلات ہیں اور کون ان کے ہاتھ روک رہا ہے۔ اب شاید چین سے واپسی پر ان کو اتنی قوت مل گئی ہو گی کہ وہ ملزموں کو سرکاری بینڈ باجے کے ساتھ برات کی شکل میں عدالت لانے کا تماشہ بند کریں، ہلڑ بازی کی بنیاد پر جیل کے اندر ہی کیس چلے اور عوام کا دل مزید نہ جلائیں۔ لوگ مہنگائی اور معاشی افراتفری سے ویسے ہی بے زار ہیں وہ جب بڑے بڑے اربوں کھربوں لوٹنے والوں کو سرکاری پروٹوکول کے ساتھ بنے ٹھنے، بال کالے کر کے اور موچھوں کو تائو دیتے ہوئے میڈیا کے سامنے سب کا مذاق اڑاتے دیکھتے ہیں تو خان صاحب کی طرف ہی نظر جاتی ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور پھر سے مولانا صاحب جیسے لیڈروں کو اب اتنی جرأت اور ہمت مل گئی ہے کہ وہ ایک آزاد بلکہ مادر پدر آزاد سسٹم کو نہ معلوم کس سے مزید آزادی دلانے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔

About Shaheen Sehbai

Shaheen Sehbai

Shaheen Sehbai is a Pakistani-American journalist and the current Group Editor of daily English newspaper The News International. Shaheen Sehbai resigned from The News International in March 2002 after receiving a memorandum from his publisher admonishing him for publication of libellous matter, alienating advertisers, and being generally inaccessible to senior government officials as well his own staff among other complaints; Mr. Sehbai defended himself saying that he was being persecuted for failing to support the Musharraf government. In August 2002, the Committee to Protect Journalists sent a public letter to then-President Pervez Musharraf to draw his attention to alleged harassment of Shaheen Sehbai's family members living in Pakistan.