تقریباً سب لوگ ہی کہہ رہے ہیں کہ سازشوں کا موسم پورے عروج پر ہے اور ہر طرح کا حربہ اور ہتھیار استعمال ہو رہا ہے اور ہو گا۔ بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ خود وزیر اعظم کے وسیم اکرم پلس اپنا گروپ بنا کر اپنے ہی وزیر اعظم سے تقریباً دھمکی آمیز انداز میں مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں اختیارات دیے جائیں اور گورنر پنجاب نے تو کھلے عام کہہ دیا کہ وزیر اعظم کے نامزد چیف سیکرٹری اور پولیس کے آئی جی کسی کی بات نہیں سن رہے اور منتخب شدہ لوگوں کو ایک طرح سے نکوبنا دیا گیا ہے۔ اب جناب بزدار کا یہ کہنا کہ میرے پاس اختیار نہیں ایک سیاسی بیان تو ہو سکتا ہے لیکن بطور وزیر اعلیٰ ان کے پاس پورے اختیار تھے اور ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ عمران خان کا وہ خواب کہ اسلام آباد سے پنجاب کو چلا لیں گے اب ٹوٹتا نظر آ رہا ہے۔ تو کیا اس کا مطلب ہے بزدار صاحب کے جانے کا وقت آ گیا ہے اور اگر ایسا ہے تو خاں صاحب تو کئی دفعہ کہہ چکے ہیں کہ جب تک وہ رہیں گے بزدار ہی وزیر اعلیٰ رہیں گے۔ تو کیا دونوں کے راستے الگ ہو رہے ہیں یا پھر خان صاحب ایک بڑے سٹیج پر دنیا بھر سے آئے ہوئے لوگوں کے سامنے اپنی اچھی اچھی باتیں کر کے ایک بڑے یو ٹرن کی پھر تیاری کر رہے ہیں۔ جو بھی ہے داخلی معاملات میں خان صاحب کے لئے چیلنج بہت بڑھ گئے ہیں۔ اب فیصلوں کا وقت آ گیا ہے کیونکہ سازش کرنے والے تو سازش کریں گے اور انہیں روکنا خود وزیر اعظم اور ان کی کچن کابینہ کا ہی کام ہے مگر جب گھر کے اندر ہی بھانت بھانت کی بولیاں سنائی دینے لگیں تو مسئلہ کافی سیریس لگتا ہے۔
میں نے کئی ایسے لوگوں سے تفصیلی بات کی جو اندر کی خبروں کا ادراک رکھتے ہیں اور معلوم ہوا کہ حالات میں پچھلے کچھ مہینوں میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔ یہ وہ تبدیلی نہیں جو خان صاحب لانا چاہتے تھے بلکہ وہ تبدیلی ہے جو خان صاحب کے لئے وبال جان بن سکتی ہے۔ مثلاً کئی میڈیا کے لوگ اعلانیہ یہ کہہ رہے ہیں کہ خان صاحب اور پنڈی کے تعلقات اب اس طرح گرم جوش نہیں ہیں جیسے پہلے تھے اور معاملہ آرمی چیف کی مدت ملازمت کے مسئلے سے شروع ہوا۔ کچھ سردمہری ہے اور خان صاحب کے مخالفین نے اس سردی کی لہر کا خوب فائدہ اٹھایا ہے جو بڑے بڑے کام ہوتے ہوئے نظر آئے وہ سب کے سامنے ہیں۔ میاں صاحبان ملک سے باہر ہیں زرداری اور ان کی ہمشیرہ اپنے گھر میں ہیں۔ ضمانتیں در ضمانتیں ہو رہی ہیں۔ احتساب شاید سردیوں کی چھٹی منا رہا ہے خود خان صاحب کی حکومت میں لوگ بڑھ چڑھ کر اور کھل کر بول رہے ہیں اور حکومت ان تمام مشکلوں کو سنبھال نہیں پا رہی میڈیا کا ان تمام شطرنج کی چالوں میں بڑا ہاتھ ہے اور خان صاحب ابھی تک اس گُر کو نہیں سمجھ سکے کہ میڈیا کو کیسے قابو میں رکھیں یا آپے سے باہر نہ ہونے دیں۔ کئی لوگوں کا خیال ہے میڈیاکی جس طرح پالیسی بنائی گئی وہ انتہائی بچگانہ تھی اور ان گنت لوگوں کے اندر آنے اور باہر جانے کے باوجود خان صاحب میڈیا کو نہیں سمجھ سکے۔ اصل میں ہوا کیا۔ ایک کہانی یہ ہے اور کافی ٹھیک بھی لگتی ہے کہ میڈیا پر ہاتھ سخت رکھا گیاہے، کیونکہ بنی گالہ اور وہاں بیٹھے لوگ کامیاب نہیں ہو رہے تھے تو پھر خان صاحب کے پنڈی کے دوستوں نے براہ راست معاملات ہاتھ میں لے کر میڈیا سے بات چیت شروع کر دی اور وہ اس حد تک بڑھی کہ کئی نام بھی سامنے آنے لگے۔ اب حال ہی میں کچھ تبدیلیاں ہوئی ہیں اور امید کی جا رہی ہے کہ کچھ تبدیلی آئے گی مگر جو لوگ اندر کا حال جانتے ہیں وہ کہتے ہیں خود خان صاحب میڈیا کے ساتھ بیٹھ کر کچھ ان کے دکھ درد نہیں سنیں گے اور خزانے کا تھوڑا سا منہ نہیں کھولیں گے ہر طرح کا جعلی بحران سمندر کی لہروں کی طرح ایک کے بعد ایک کر کے آتا رہے گا۔ یہی دیکھ لیں کہ آٹے کا مسئلہ کھڑا ہوا تو میڈیا نے پہلے ہی سے کہنا شروع کر دیا کہ چینی کا بھی بحران آ رہا ہے اور جب چینی کی قیمتیں بڑھنا شروع ہو گئیں تو اب انڈے اور مرغی کے بحران کی بات بھی شروع ہو گئی ہے۔ میڈیا کا کام خوف و ہراس پھیلانا نہیں ہوتا مگر یہاں تو یہ کام کھل کر ہو رہا ہے اور حکومت نہ لوگوں کو یقین دلا رہی ہے اور نہ لوگ یقین کر رہے ہیں کہ یہ نئے بحران نہیں آئیں گے یا یہ جھوٹے ہیں۔
لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ خود بزدار صاحب کا گروپ بننے کے بعد اب کسی ہوائی مخلوق نے (خلائی نہیں کیونکہ یہ مخلوق زمین پر ہی رہتی ہے) مولانا فضل الرحمن کو دوبارہ لاہور سے اپنا "خان ہٹائو" مارچ کرنے کا اشارہ دے دیا ہے اور یہ مارچ تقریباً 8ہفتے بعد یعنی مارچ اپریل میں نظر آنا شروع ہو جائے گا۔ سازشی یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ خود تحریک انصاف کے اندر دو تین بڑے لیڈر جیسے شاہ محمود قریشی، اسد عمر، گورنر پنجاب تو پوری تیاری میں ہیں کہ خان صاحب کو مجبور کیا جائے کہ وہ "قائد اعلیٰ یا "گاڈ فادر"(یا رہبر)بن جائیں اور کسی اور کو وزیر اعظم بنا دیں جیسے نواز شریف یا زرداری باہر بیٹھ کر سارے معاملے چلاتے ہیں تو خان صاحب بھی اسی ماڈل کی گاڑی میں سوار ہو سکتے ہیں۔
یہ ساری کہانیاں خود خان صاحب نے بھی سن رکھی ہیں اور وہ پورے یقین سے کہتے ہیں کہ وہ آخری بال تک مقابلہ کریں گے اور یہ ساری صورتحال انہیں ڈرا کر کوئی ایسا فیصلہ کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی جو ان کی شخصیت اور مزاج کے خلاف ہو۔ مگر ایوان وزیر اعظم میں اس بات کا بھی ادراک ہے کہ کچھ انتظامی فیصلے اب اشد ضروری ہو گئے ہیں کیونکہ حالات تیزی سے بے قابو ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ کون سے فیصلے ہو سکتے ہیں۔
1۔ خان صاحب کو ایک بہت ہی اہم اور انتہائی ضروری ادارے کو فعال کرنا ہو گا اور وہ ہے IBیعنی سول حکومت کا انٹیلی جنس بیورو۔ IBکے بارے میں کوئی نہیں جانتا وہ کیا کر رہا ہے اور آیا خان صاحب اس کے سربراہ کو جانتے بھی ہیں اور ملتے بھی ہیں یا نہیں۔ ایک اندر کی معلومات رکھنے والے بندے نے بتایا IBکا نام آج کل ہومیو پیتھک بیورو رکھا گیا ہے یعنی نہ تین میں نہ تیرا میں اور نہ ادھر نہ ادھر۔ یہ ادارہ اتنا اچھا ہے کہ تین سال پہلے مجھے خود ایک جنرل صاحب نے بتایا تھا کہ اس کی تکنیکی قابلیت خود ISIسے بھی زیادہ ہے یا اس کے برابر تو ہے ہی۔ تو کیا IBنے خان صاحب کو آٹا چینی اور انڈے مرغی یا بزدار کے گروپ کے بارے میں پہلے اطلاع دی۔ اگر نہیں تو کیوں نہیں، اگر اطلاع تھی تو کچھ کیوں نہ کیا گیا ارو یہ اسکینڈل جب پھیل گیا تو پھر اب کمیٹی بنانے اور FIAکو اپنے ہی وزیروں مشیروں کے پیچھے لگانے سے کیا فائدہ ہو گا کیونکہ ناکامی تو حکومت کے اندر ہی کے لوگوں کی ہے۔
2۔ بزدار صاحب کے بارے میں فیصلہ اب ناگزیر ہو گیا ہے کیونکہ انہوں نے ایک طرح سے بذریعہ پریشر گروپ یہ کہہ دیا ہے کہ مجھے اختیارات نہیں دیے گئے تو پھر ذمہ دار عمران خان ہونگے۔ تو خان صاحب اب سوچ لیں وہ بزدار کو گھر بھیجتے ہیں یا پھر وہ خود بھی ان کے ساتھ جانا پسند کریں گے۔ دو عملی اب زیادہ دیر شاید نہ چلے۔
3۔ یہ تاثر کہ پنڈی کے بھائی اب اپنا ہاتھ کھینچ چکے ہیں اور خان صاحب کی کشتی موجوں اور اللہ کے سہارے چھوڑ دی ہے ایک بہت منفی تاثر ہے اور اسے باجوہ صاحب سے مل کر ہٹانا ہو گا اور اس میں میڈیا کا رول اہم ہو گا۔ اگر ایسا ہے بھی تو خان صاحب کو بڑے فیصلے خود اور جلدی کرنے ہونگے۔
4۔ مولانا فضل الرحمن کا مسئلہ اور کچھ نہیں صرف اقتدار اور حکومتی مراعات نہ ملنے کی تکلیف ہے۔ کوئی پارٹی انہیں نہ کچھ دے سکتی ہے اور نہ کچھ بنا سکتی ہے۔ تو سیاست کا تقاضا ہے کہ خان صاحب کوئی پتلی گلی کا راستہ تو ڈھونڈیں اور مولانا کو حلوہ کھلاکر خاموش کرا لیں۔ ہو جائینگے۔
5۔ یہ خبر ابھی آئی کہ چودھری نثار علی لندن کا ٹکٹ لے چکے اور ایک دو دن میں وہ نواز اور شہباز شریف سے ملیں گے اور واپس آ کر اپنا سپر سٹور پھر کھولیں گے۔ خان صاحب نثار سے بھی بات کرنے کا ذریعہ نکالیں کیونکہ وہ ان کے پرانے دوست ہیں۔ چیلنج بہت ہیں اور وقت کم۔