Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. NAB Ke Liye Akhri Dua e Khair

NAB Ke Liye Akhri Dua e Khair

ایک ادارہ تو اپنے منطقی انجام کو تقریباً پہنچ ہی گیا جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب گلزار احمد اور دیگر جج صاحبان نے جنوری 28کو نیب کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور واضح الفاظ میں کچھ یوں نیب کی تعریف کی"نیب استحصالی ادارہ بن چکا جس مقصد کے لئے ادارہ بنا تھا وہ ختم ہو گیا۔ نیب کو جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا وہ ادا نہیں ہو رہا۔ آپ کے اندر کام کرنے کی صلاحیت ہی نہیں آپ پر تو اربوں روپے کا جرمانہ ہونا چاہیے" ان کلمات الزامات یا احکامات کے بعد اب نیب کے سربراہ اور اس ادارے کو مزید کام کرنے اور عوام کا پیسہ ضائع کرنے کا کیا جواز رہ گیا ہے۔ کسی بھی معقول ملک میں ان القابات کے بعد چند ہی گھنٹوں میں نیب جیسے ادارے کا بستر گول کر دیا جاتا۔ ہمارے یہاں بھی یہی ہو گا مگر تھوڑی سیاست اور زور آزمائی کے بعد۔ اپنے ایک کالم میں 13دسمبر 2019ء کو میں نے نیب کے بارے میں یہ الفاظ لکھے تھے۔

"لگتا ہے نیب نے اپنی استطاعت اور Capacity سے زیادہ معاملات میں ہاتھ ڈال دیا ہے اگر اس کے پاس اتنے قابل اور اچھے لوگ اور افسر ہیں تو اس کی حکمت عملی بالکل مختلف ہونی چاہیے تھے۔ ضروری نہیں تھا کہ نیب ایک ساتھ کیس تیار کرے اور سارے ایک ساتھ عدالتوں میں لے جائے۔ ایک دو ٹھوس اور تگڑے کیس بنا کر عدالت میں ثابت کریں اور بڑے چوروں کو ٹھکانے لگائیں۔ اس لئے لوگ نیب پر کڑی تنقید کر رہے ہیں مگر نیب بجائے اپنی کارکردگی سے جواب دے، صرف تقریروں اور بیانات سے لالی پاپ دیا جا رہا ہے۔ کیا نیب نے احتساب کو مذاق نہیں بنا دیا۔ کیا نیب خود قانون کا مذاق اڑانے والوں کا معاون نہیں بن رہا"۔

تو اب سپریم کورٹ کے خیالات اور القابات کے بعد ملک میں احتساب کے جنازے کو کب اور کس طرح دفنایا جائے گا۔ وزیر اعظم عمران خان کے بے شمار بیانات کے بعد کہ میں چوروں کو نہیں چھوڑوں گا، اب ان پرانے چوروں کو اور نئے چوروں کو پکڑنے کے لئے کون میدان میں آئے گا۔ کیا اب سب کو کرپشن کرنے کا کھلا لائسنس مل گیا، کیا باقی ادارے اس قابل ہیں کہ وہ کسی کو پکڑ سکیں کیونکہ نیب تو پھر بھی ایک غیر سیاسی اور کچھ نہ کچھ آزاد ادارہ تھا مگر باقی سب یعنی حکومت کے تابع اینٹی کرپشن کا محکمہ یا ایف آئی اے یا بڑے تجارتی چوروں کو پکڑنے والے اور جیسے S E C Pیا ایف بی آر وغیرہ کچھ کر سکیں گے۔ ان اداروں پر تو آج تک کسی کے خلاف کچھ کرنے اور کسی کو سزا دینے کا الزام بھی نہیں لگایا جا سکا، تو پھر عمران خان اب کیا کریں گے۔ انہوں نے پچھلے دنوں حرکت میں آ کر اپنی ہی پارٹی کے تین وزیر تو فارغ کر دیے مگر کیا ان کا قصو سامنے آئے گا کیا جو الزامات ان پر لگ رہے ہیں وہ پرکھے جائیں گے اور اگر نیب کو اب ہار اور پھول ڈال کر دفنانا ہی باقی رہ گیا ہے تو کیا عمران خان صاحب کے پاس اتنی پارلیمانی اکثریت ہے کہ وہ ایک نیا قانون لا کر ایک نیا ادارہ بنائیں جو واقعی کسی چور کو پکڑ سکے کیونکہ آج کل جو بھی قانون بنانے کی طاقت رکھتے ہیں وہ خود چوری اور لوٹ مار کے الزامات کا شکار ہیں۔ تو کیا کوئی خلائی مخلوق آئے گی جو اصلی تے وڈے، چوروں کو پکڑے یا کوئی قانون اس طرح بنوا سکے جیسے ہمارے فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت کے بارے میں بنایا گیا۔ اگر یہ سب نہیں ہو سکتا تو پھر کیا عمران خان اس ساری صورتحال کو قبول کر لیں گے اور کب تک، ان کا تو سب سے بڑا نعرہ ہی "چوروں کو نہیں چھوڑونگا" تھا اور اب شکل یہ بن گئی ہے کہ چوروں کو تو ہر ادارہ سر پر بٹھا رہا ہے ان کے علاج کے لئے شاہی جہاز اور سرخ قالین بچھائے جا رہے ہیں حتیٰ کہ آخری حکم یہ آیا کہ اسحاق ڈار کے گھر کی نیلامی کو آخری گھنٹے میں روک دیا گیا۔ یہ تاثر تو اب بہت قوی ہو گیا کہ بڑے بڑے لوگ قانون کے لمبے ہاتھوں سے باہر ہیں کیونکہ ان کے اپنے ہاتھ اور آواز اور کارندے بہت دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں جس طرح سے ان بڑے لوگوں نے قانون کا مذاق اڑایا ہے اور ایک ڈرامے کے بعد دوسرے ڈرامے تک کھلواڑ کیا گیا ہے وہ تو یہ ثابت کرتا ہے کہ بہت لمبے عرصے تک اب کسی چور کو سزا نہیں ہو گی سوائے معمولی اٹھائی گرے جیب کتروں کے۔

اس صورت حال میں ہماری عدالت نے جو نیب کے بارے احکام جاری کئے ہیں ان کے پیش نظر اب صرف عدالت ہی بتا سکتی ہے کہ ملک میں احتساب اور لوٹ مار کے خلاف کون، کیسے اور کیا اقدام کرے گا۔ ایک بات تو بہت حوصلہ افزا ہے کہ سپریم کورٹ دوبارہ ایک غیر فعال کمرے سے نکل کر جسٹس ثاقب نثار اور چودھری افتخار کے ادوار کی جانب رواں دواں ہے۔ صرف ایک دن میں عدالت نے کہا ریلوے کو بند کر دیں، نیب ختم ہو گیا۔ تھر کول کی آڈٹ رپورٹ جمع نہ ہونے پر اظہار برہمی کیا۔ سندھ سے کہا واٹر کمیشن کی رپورٹ پر عمل کرے اور مزید کئی کیس سنے۔ یہ سفر عوام کے لئے تو خوش آئند ہے مگر حکومت کو اپنی کمر کس کے میدان میں آنا ہو گا۔ وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ نے فوراً ہی عدالت کے اس بڑھتے ہوئے ہاتھوں پر بحث کی اور کئی وزیر ناراض تھے اور شاید سمجھتے ہیں کہ کوئی عدالت ان کے کام کے بارے میں ان سے پوچھ گچھ نہیں کر سکتی مگر خان صاحب نے کہا وزیر عدالت میں جا کر جواب دیں اور عدالتوں کو قائل کریں۔ اب ایک بات سمجھ میں نہیں آ رہی کہ اس عدالت نے صرف 13دن پہلے ہی یعنی 15جنوری کو حکومت کو تین مہینے کا وقت دیا تھا کہ وہ نیب کے قانون میں ترمیم کرے اور ایک وارننگ بھی دی تھی کہ اگر یہ نہ ہوا تو عدالت مداخلت کرے گی، کیا حکومت چاہتی ہے کہ نیب کے قانون کو کالعدم قرار دے دیا جائے۔"چیف جسٹس صاحب نے 15تاریخ کو یہ سوال حکومت سے کیا تھا۔ جواب تو نہ آیا اور نہ نیب کے قانون میں تبدیلی ہوئی مگر اب نیب کے بارے میں عدالت نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس سے تو لگتا ہے نیب کا قانون تو گیا۔ غور سے دیکھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں تو نظر آئے گا کہ آئین کے تین بڑے شراکت داروں یعنی پارلیمان، عدلیہ اور انتظامیہ میں پارلیمان اور انتظامیہ تو اپنے فرائض انجام دینے اور احسن طریقے سے انجام دینے میں ناکام ہو گئے ہیں اور اب عدلیہ نے یہ بیڑہ اٹھایا ہے کہ وہ معاملات کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرے مگر کیا یہ ممکن ہو گا۔ عدالت کا کام حکم دینا اور حکم کی تعمیل ہے پھر اس گلی سڑی انتظامیہ اور سرکاری مشینری یا پارلیمان کے دروازے پر جا کر ٹھہر جاتی ہے۔ جج صاحبان نے کئی دفعہ حکومت کو اور بڑے بڑے اداروں کو حکم بھی دیا اور وقت بھی دیا مگر سالہا سال پرانے اس نظام کے پہیے میں اتنا زنگ لگ چکا ہے کہ وہ ہلتا ہی نہیں۔ ایک ادارہ دوسرے پر الزام لگا کر جان چھڑا لیتا ہے یا لوگ کھلا جھوٹ بول کر پتلی گلی سے نکل جاتے ہیں اور کوئی ان کو گرفت میں نہیں لا سکتا۔ تو اب کیا کرنا ہو گا حکومت کے تو ہاتھ پائوں سیاست نے آپس کی کشمکش نے باندھ رکھے ہیں اور عوام شور مچا رہے ہیں کہ وہ مہنگائی اور بدانتظامی کے وزن تلے دب گئے ہیں۔ پارلیمان میں جان نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ صرف اپنی ذات کے لئے تو ہاتھ پیر مار لیتے ہیں ورنہ ان کو کوئی فکر نہیں۔ عمران خان کے خلاف اس لئے تھے کہ وہ چوروں کو پکڑنے میں لگ گئے اب انہوں نے ذرا ہاتھ ہولا کیا ہے تو سب خوش ہیں سوائے خان صاحب کے۔ وہ اسمبلی توڑ نہیں سکتے کہ خطے کے حالات نئے الیکشن کی اجازت نہیں دیتے۔ حکومت چل نہیں رہی اور اب تو خان صاحب کے وزیر بھی گھبرانے لگے ہیں اور یہ بات خود انہوں نے بتائی۔ صرف کپتان اکیلا کھڑا ہے۔ مگر کہیں ایسا نہ ہو کہ حلوے والے مولوی کی طرح آخر کار کپتان بھی کمبل جھٹک کر بچوں کے پاس روانہ ہو جائیں۔ کوئی ملک کا بھی سوچے۔

About Shaheen Sehbai

Shaheen Sehbai

Shaheen Sehbai is a Pakistani-American journalist and the current Group Editor of daily English newspaper The News International. Shaheen Sehbai resigned from The News International in March 2002 after receiving a memorandum from his publisher admonishing him for publication of libellous matter, alienating advertisers, and being generally inaccessible to senior government officials as well his own staff among other complaints; Mr. Sehbai defended himself saying that he was being persecuted for failing to support the Musharraf government. In August 2002, the Committee to Protect Journalists sent a public letter to then-President Pervez Musharraf to draw his attention to alleged harassment of Shaheen Sehbai's family members living in Pakistan.