Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Hain Kwakab Kuch, Magar Kya?

Hain Kwakab Kuch, Magar Kya?

ملک کی صورتحال کچھ ایسی الجھی ہوئی اور گھمبیر سی لگ رہی ہے کہ اکثر وہ لوگ جو خود کو صورتحال سے واقف اور معلومات کا منبع سمجھتے ہیں، سوالات کرتے نظر آ رہے ہیں اور ان سے اگر کوئی سوال کیا جائے تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ اس طرح کی صورتحال کو غیر یقینی کہنا شاید چھوٹی بات لگے کیونکہ کچھ حکومتی اور ادارتی پالیسیوں میں تو غیر یقینی کا عنصر شامل ہو سکتا ہے لیکن پورا ملک اور جس طرف دیکھیں اگر یہی شکل نظر آئے تو شاید گڑ بڑ کچھ زیادہ ہی ہو گی۔ میری ایک ایسے ہی میڈیا کے بڑے، اندر کی معلومات رکھنے والے دوست سے بات ہو رہی تھی اور وہ حال ہی میں بڑے بڑے لوگوں سے بھی ملتے رہے ہیں لیکن ان کے پاس بھی کوئی جواب نہیں تھا اور خاصے پریشان تھے۔ میں نے تین چار سوال کئے تو جواب سمجھ میں نہیں آئے۔ مثلاً میں نے پوچھا کیا ان کو اندازہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان کیا چاہتے ہیں۔ ان کے عمران خان کو ہٹانے کا سیاسی مطالبہ الگ رکھیں لیکن اس کے علاوہ اگر مذاکرات کرنے ہوں تو وہ کون سی باتیں ہو نگی۔ جواب ندارد، صرف یہ کہ مولانا صاحب کا ذاتی مسئلہ ہے خان صاحب سے اور وہ کوئی حساب برابر کرنا چاہتے ہیں اسی لئے باقی سیاسی پارٹیاں بھی کھل کر ساتھ دینے کو تیار نہیں اور دو قدم آگے، تین پیچھے۔ آئیں بائیں شائیں کے علاوہ کوئی تیار نہیں کہ قدم آگے بڑھائے۔ مولانا کا شو اگر اچھا ہوا تو تقریریں کرنے سب آ جائیں گے کمر میں درد ہو یا کہیں اور، ورنہ مولانا خود بھگتیں۔

حکومت نے مولانا کو زیادہ گھاس نہیں ڈالی اور نہ ان کی دھمکیاں سیریس لیں۔ چنانچہ وہ آگے ہی بڑھتے گئے اور میڈیا کے ایک بڑے حصے سے مل کر اپنی قیمت بڑھانے کے چکر میں گارڈ آف آنر بھی وصول کرنے لگے۔ TVکے لئے تو یہ تصویریں اور فٹیج بڑی مزے کی لگتی ہے لیکن یہی مولانا کو قانون کی گرفت میں لانے کے لئے کافی ہیں۔ پھر لوگوں نے حکومت پر زور دیا کہ معاملہ کہیں زیادہ ہی نہ بڑھ جائے تو ایک بے دلی کے ساتھ کمیٹی بنا دی گئی جس کے ساتھ مولانا نے ملنے سے ہی انکار کر دیا کہ انہیں پہلے عمران خان کا استعفیٰ چاہیے۔ وہ تو آ نہیں رہا سو معاملہ آگے بڑھ گیا ہے۔ میرے میڈیا کے دوست کہنے لگے انہیں ایک بڑی گہری چال یا سیڑھی نظر آ رہی ہے، حکومت اور اس کے خیر خواہوں کی۔ وہ کیا بھائی؟ تو بولے حکومت بہت سارے محاذوں پر لڑ رہی ہے۔ معیشت اتنی خراب تھی کہ حالات قابو میں آنا مشکل ہو رہا تھا تو آئی ایم ایف کو بلایا گیا اور یہ تانگہ ان کے حوالے کر دیا گیا۔ اپنی سواریاں بھی وہ خود لے کر آ گئے اور لوگوں کو چابک مار کر گھوڑے کو کم ازکم دلکی چال تک لانے کی کوشش جاری ہے۔ بڑے کڑوے فیصلے کرنا پڑے اور مزید کرنے پڑیں گے مگر کم از کم عمران خان یہ تو کہہ سکیں گے کہ ہم نے دیوالیہ ہونے سے بچا لیا اور زیادہ تر فیصلے آئی ایم ایف والوں نے کئے جو ہمیں مجبورا ماننے پڑے کہ حالات ہی ایسے تھے پھر گرے اور بلیک لسٹ کا مسئلہ بھی دبائو کے تحت حل کیا جا رہا ہے چوروں کو پکڑکر اور منی لانڈرنگ کے بڑے بڑے کیس کھول کر دنیا کو بتایا جا رہا ہے کہ چوروں اور لٹیروں کے لئے کوئی این آر او نہیں ہے۔ اس پر بھی بہت سیاسی دبائو ہے۔ تیسرا پہاڑ مہنگائی کا، اوپر سے ڈینگی، کچرا کنڈیاں اور سب سے بڑا سوال پنجاب میں کیا ہو رہا ہے اور کیسے؟ تویہ سب مسئلے جب اکٹھے ہوئے تو دو طرف سے اللہ کی مدد آئی۔ ایک مودی نے کشمیر میں کھڑاک کر کے عمران خان کو ایک ایسا بڑا چوکے اور چھکے مارنے کا موقع دیا کہ خان صاحب سارے مسئلے بھول گئے اور دنیا بھر میں اپنی تقریروں اور اپنے اعتماد اور امیج کو خوب بیچا۔ لوگ ان کی خود اعتمادی اور دنیا کے بڑے بڑے لیڈروں کے سامنے دبنگ طریقے سے بات کرنے کو خوب سراہنے لگے اور نواز شریف یا زرداری کو بھول گئے کہ اب انہیں ایک عالمی سطح کا لیڈر مل گیا۔ کشمیر میں تو جو کرنا ہے مودی اور کشمیریوں نے کرنا ہے مگر خان صاحب نے اپنی سیاست کو چار نہیں کئی چاند لگائے اور کچھ دن کے لئے لوگ وہ کڑوے فیصلے اور مہنگائی کی چیخ و پکار بھول گئے۔ تو یہ اس گہری سٹریٹجی کا پہلا فائدہ ہوا اور اس کا کریڈٹ مودی کو دینا چاہیے کئی ہفتے اس میں گزر گئے اور مزید کئی ہفتے گزر سکتے ہیں، جب تک کشمیری گھروں سے نکل کر کوئی بڑا ہنگامہ نہیں کر دیتے اور مودی گھبرا کر سوپچاس لوگوں کا قتل عام نہیں کر دیتے پھر شاید دنیا بھی اس مسئلے میں دلچسپی لینے لگے۔

ابھی کشمیر چل ہی رہا تھا کہ گھر کے فرنٹ پر مولانا فضل الرحمن نے آزادی کا اعلان کر دیا۔ اندھا کیا مانگے دو آنکھیں۔ خان صاحب اور ان کے مشیر یہ جان گئے کہ مولانا بلف کر رہے ہیں اور اسلام آباد پر حملہ کرنے کا کوئی سیاسی قانونی اور آئینی یا اخلاقی جواز تو ہے نہیں۔ صرف بازوئوں کے زور پر دھمکی ہے کہ بھاگ جائو ورنہ میں آ رہا ہوں۔ اپنی پوری کوشش کے باوجود جواز پیدا نہ ہو سکا۔ تو حکومت نے بھی میڈیا کو خوب کھلی چھٹی دی کہ اٹھائو مولانا کو اور اس غبارے میں خوب ہوا بھرو۔ چال کام آ گئی اور مولانا پھولتے گئے۔ ہر وقت ٹی وی پر ان کا ہی چرچا۔ حکومت کی یہ سوچ رہی کہ جتنا اونچا اڑائیں گے اتنی ہی زور سے گریں گے اور جہاں جہاں چوٹ لگنی ہے لگے گی۔

تو اس عرصے میں خان صاحب دنیا بھر کے مسئلوں کے درمیان ثالثی کے مشن پر نکل کھڑے ہوئے۔ کشمیر میں ان کو ایک لنگڑا لولا ثالث واشنگٹن میں مل گیا مگر اس نے خان صاحب کو بھی اچھے کام پر لگا دیا کہ جائو امریکہ اور ایران کی دوستی کرائو۔ طالبان سے جان چھڑائو۔ سعودیہ اور ایران میں جنگ رکوائو اور بھی کوئی اگر لڑائی کے موڈ میں ہو تو اسے روکو۔ بڑا ٹیلر میڈ رول دیا گیا۔ جس سے خان صاحب کی عالمی سطح پر اور ایک منجھے ہوئے سٹیٹس مین کی امیج ابھری اور وہ اس میں بالکل فٹ بھی ہوتے ہیں۔ یعنی اگر کبھی ضرورت پڑے تو وہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بھی بنائے جا سکتے ہیں اور اگر طالبان یا ایران کے ساتھ وہ کوئی ڈیل کرنے یا کروانے میں کامیاب ہو گئے تو نوبل انعام کے بھی حقدار ٹھہر سکتے ہیں۔

تو داخلی محاذ پر خان صاحب نے فیصلوں کا اختیار ان لوگوں کو دے دیا جو پہلے بھی کافی الجھے ہوئے مسئلوں کو چٹکی بجا کر حل کرواتے رہے ہیں۔ یعنی جب سے الیکشن ہوئے اور ان کی پارٹی کو اتنی سیٹیں نہیں ملیں کہ وہ خود حکومت بنا سکتے تو سب نے مل جل کر کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑہ اکٹھا کر کے پنجاب اور مرکز میں انہیں وزیر اعظم بنوا دیا۔ پھر جب اسمبلی میں ضرورت پڑی اللہ تعالیٰ کی مدد ان کے ساتھ رہی اور بل بھی پاس ہوئے۔ قبائلی علاقوں کا کے پی میں انضمام بھی ہو گیا حالانکہ دو تہائی اکثریت چاہیے تھی۔ پھر سینٹ کے صدر کا بھی انتخاب ہو گیا اور جب ان کو نکالنے کی کوشش کی گئی تو سارے حلف اور قسمیں ایک طرف رہ گئیں اور سنجرانی صاحب بدستور اپنی جگہ قائم ہیں۔

تو اس گھمبیر نظر آتی شکل میں میڈیا کے دوست کہتے ہیں مولانا کا آزادی مارچ بھی وہیں لوگ سنبھال لیں گے جو اس قسم کے کام میں ماہر ہیں اور بلکہ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط کرسیوں پر بیٹھ چکے ہیں۔ یہ تو میں بھی ماننے کو تیار ہوں کہ وزیر اعظم کو کوئی ایسا خطرہ لاحق نہیں، جیسا سنجرانی صاحب کو سینیٹ میں تھا اور سارا ہمنوا اورموافق میڈیا اور سیاسی پنڈت گرج برس رہے تھے کہ اب سینٹ حکومت کے ہاتھ سے گئی اور حزب اختلاف کا کوئی کاغذی شیر جلد اس کرسی پر سوار ہو گا۔ جس میں زرداری کا نام بھی آ رہا تھا یہاں تک کہا گیا کہ جلد زرداری ایوان صدر میں بھی کرسی پر نظر آ سکتے ہیں۔ چاہے کچھ دن ہی کے لئے۔ مولانا صاحب اسلام آباد جائیں مگر پھر لبیک، یا سینٹ یا فاٹا پاٹا کی طرح ان کا بوریا بستربھی گول کر دیا جائے گا۔ کہانی تو ہے۔

About Shaheen Sehbai

Shaheen Sehbai

Shaheen Sehbai is a Pakistani-American journalist and the current Group Editor of daily English newspaper The News International. Shaheen Sehbai resigned from The News International in March 2002 after receiving a memorandum from his publisher admonishing him for publication of libellous matter, alienating advertisers, and being generally inaccessible to senior government officials as well his own staff among other complaints; Mr. Sehbai defended himself saying that he was being persecuted for failing to support the Musharraf government. In August 2002, the Committee to Protect Journalists sent a public letter to then-President Pervez Musharraf to draw his attention to alleged harassment of Shaheen Sehbai's family members living in Pakistan.