Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Kashmir Ki Asal Kahani

Kashmir Ki Asal Kahani

آج وزیر اعظم عمران خان دنیا بھر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ہال سے بتائیں گے کہ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے اور اگر بھارت کی دیوانگی کو روکا نہ گیا تو پھر دنیا کا ہر بڑا ملک ذمہ دار ہو گا۔ خان صاحب اپنی تقریر کے اہم نکات کئی دفعہ بتا چکے ہیں اور اپنی بے شمار ملاقاتوں میں دنیا کے لیڈروں کو اچھی طرح سمجھا بھی دیا ہے مگر کشمیر کے اندر کیا ہورہا ہے اور وہاں کیا لاوا پک رہا ہے کسی قابل بھروسہ میڈیا کے ذریعے سے ابھی تک سامنے نہیں آیا تھا مگر ہندوستان کے ہی ایک بڑے مشہور میگزین نے جو داستان لکھی ہے وہ نہ صرف آنکھیں کھولنے کے لئے ہی نہیں بلکہ دماغ ہلانے کے لئے بھی کافی ہے۔ یہ کہانی ابھی تک منظر عام پر کیوں نہیں آئی یہ تو پاکستان کے ابلاغ عامہ کے ادارے اور بڑے بڑے عہدوں پر فائز ماہرین ہی بتا سکیں گے مگر ایک خلاصہ میں پیش کر دیتا ہوں اور باقی کام دوسرے لوگ کریں۔ آج اگر خان صاحب کی تقریر میں اس کہانی کا ذکر یا ریفرنس ہوتا تو کیا ہی بات تھی"دی کارواں "The carvan بھارت کا ایک سو سالہ پرانا میگزین ہے اور 1917ء میں یہ ماہانہ شروع ہوا۔ بیچ میں ایک دو دفعہ بند بھی ہوا اور 2010ء سے پھر شائع ہو رہا ہے۔ یہ کئی ملکی اور غیر ملکی ایوارڈ جیت چکا ہے اور ہماری فاطمہ بھٹو اس میگزین کی ایک Contribution Editor ہیں۔ 2010ء میں اس میگزین کے محبوب جیلانی کو کشمیری لیڈر سید علی گیلانی کی کہانی چھاپنے پر ایک بڑا ایوارڈ ملا۔ ستمبر 2019ء کے شمارے میں کاررواں کے مشہور رپورٹر پراوین ڈونتی نے پورے مقبوضہ کشمیر کا طویل دورہ کیا اور 22 ستمبر کو اپنی سولہ ہزار سے زائد الفاظ پر مشتمل تفصیلی رپورٹ چھاپی جس کا عنوان ہے"مودی کی جنگ، سلگتے کشمیر سے رپورٹیں "۔ اس رپورٹ کے لئے پراوین نے پورے کشمیر کا چکر لگایا ہر ایک سے ملے۔ عورتوں سے، فوجیوں سے، سیاستدانوں سے، ہر جگہ گئے اور اندر کی ایسی کہانیاں سنائیں ہیں کہ رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ میں نے کئی گھنٹے لگا کر ان کی یہ 16 ہزار الفاظ کی رپورٹ جب ختم کی تو احساس ہوا ہم اور ہمارے تجزیہ کار جن باتوں کا ذکر صرف اس بنا پر کرتے ہیں کہ یہ ہماری خواہش ہو سکتی ہے۔ پرواین نے خود کشمیر کے لوگوں ، افسروں اور لڑنے والے جوانوں سے بات کر کے 90 فیصد ان خدشات کی تصدیق کر دی ہے۔ مودی حکومت ان کے میگزین کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے وہ تو ابھی دیکھنا ہے لیکن پاکستانی اور دنیا بھر کے میڈیا کے لئے اس رپورٹ میں بے شمار مواد ہے۔ ان کی اہم باتوں کا کچھ ذکر میں کرتا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں 11 اگست کے بعد کشمیر کو سمجھنے کے لئے روزمرہ کی زندگی کو دیکھنا ضروری ہے۔ ایسا لگتا ہے کشمیر 20 سے 30 سال پہلے کے دور میں چلا گیا ہے۔ لوگ پرانے ریڈیو، DVD پلیئر سائیکلیں نکال رہے ہیں۔ ایک شہری نے کہا کوئی چیز نہ پھینکنا۔

سب سے اہم بات یہ لگی کہ ہر طرح کے لوگ اب عسکریت پسندی کو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے قبول کر رہے ہیں۔ چاہے وہ کسی سیاسی نظریے کے ہوں یا پہلے حکومت ہند کیساتھ تھے۔ کشمیر کے لوگ پاکستانی میڈیا کو بہت غور سے دیکھتے ہیں اور جب 16 اگست کو سکیورٹی کونسل نے کشمیر پر بحث کی تو سری نگر میں جوانوں نے سڑکوں پر پٹاخے چلائے۔ حکومت نے فوراً سارے کیبل بند کر دیے۔ کشمیری سمجھتے ہیں اگر پاکستان نے یہ مسئلہ اٹھانا بند کر دیا تو کشمیر میں گودھرا کی طرح کا قتل عام ہو گا۔ شکر ہے پاکستان عالمی سطح پر یہ مسئلہ اٹھا رہا ہے مگر ایک شخص بولا یہ کوئی گودھرا کا محلہ نہیں ہے یہ کشمیر ہے، کشمیر ہے۔ یہ مسئلہ 370 یا 35-A کا نہیں، یہ ایک ہندو مسلم مسئلہ ہے۔

امریکہ سے آئی ہوئی ایک ماہر بشریات Anthropologist نے کہا کشمیری امن پسند لوگ ہیں اور ابھی کسی پر تشدد ردعمل کا مظاہرہ اس لئے نہیں کر رہے کہ وہ جانتے ہیں بھارتی فوجی فوراً برس پڑیں گے۔ وہ اپنی قوت اس طرح ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ کشمیر نوجوانوں نے بتایا کہ ان کا اپنا ایک سول کرفیو کا سسٹم ہے۔ وہ دس دن بالکل خاموش رہے اور گیارہویں دن اچانک ہر شہر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ ان کے سسٹم میں ان کو پیغام مل گیا تھا۔ بھارتی فوجی سر پیٹ رہے تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ ریاست لوگوں کو حیران کر سکتی ہے مگر لوگ بھی ریاست کو حیران کر سکتے ہیں۔

ایک دکان جو باہر سے بند تھی، اندر بھری ہوئی تھی، ایک سر پنچ نے کہا میں کٹر ہندو ہوں مگر میرا خون کھولتا ہے جب بھارتی میڈیا دیکھتا ہوں۔ بھارت نے اب ایک پل توڑ دیا ہے بھارت کے لوگ خود گولہ باری کرتے ہیں اور الزام لگاتے ہیں کہ سرحد پار سے لوگ گھس رہے ہیں۔ مراٹھا رجمنٹ کے دو فوجیوں نے بتایا پاکستان کی طرف سے کوئی گولہ باری نہیں ہو رہی۔ جو لڑکے پتھر مارتے تھے اب وہ تشدد کی طرف بڑھ گئے ہیں۔ ایک ڈی ایس پی پولیس نے بتایا تشدد پسندی بڑھ رہی ہے اور اگر تم دہلی والے یہ سمجھتے ہو کہ یہاں باہر کے لوگ آ کر بسیں گے تو بھول جائو۔ یہاں کوئی باہر سے آ کر نہیں رہ سکتا۔ گل مرگ کے ایک دکاندار نے بتایا کہ دس سے 15 فوجیوں کے سرکاٹ دیے گئے ہیں اور گل مرگ کی پہاڑیوں سے تمام قلی نیچے بھیج دیے گئے ہیں اور کئی ہیلی کاپٹر آ جا رہے تھے۔ 17 اور 18 اگست کی رات کو ہمیں نہیں معلوم کیا ہو رہا تھا ہمارے خیال میں شاید پاکستان سے جنگ شروع ہو گئی تھی۔ دو پولیس والوں نے بھی تصدیق کی کہ تمام قلی گل مرگ سے بھگا دیے گئے تھے۔ ایسا لگتا ہے عوام اور پولیس کو دھکا دے کر متحد کر دیا گیا ہے۔ پولیس سے بندوقیں لے لی گئی ہیں اور پولیس والے شرمندہ شرمندہ نظر آتے ہیں۔ ہمارے افسر اور سپاہی دونوں بے بس ہیں بلکہ بڑے افسر ڈو وال (NSA) کو بھی نئی دہلی سے اجازت لینی پڑتی ہے۔ جب میں نے پوچھا کہ کیا دلی کو یہ اطلاع مل رہی ہے کہ کشمیر کی سڑکوں کا کیا حال ہے تو مجھے پتہ چلا کہ اوپر تک جاتے جاتے ساری اطلاعات "سب اچھا" میں بدل جاتی ہیں۔ ہر ایک کو اپنی نوکری بچانی ہے اور پروموشن بھی چاہیے۔ ایک بڑے افسر نے کہا یہ لوگ اس پروپیگنڈا پر یقین کر رہے ہیں ورنہ ڈووال کیسے یہ رپورٹ دے سکتا ہے کہ سب اچھا ہے۔ ایک سینئر افسر نے کہا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اب ان کے پاس کوئی باہر نکلنے کا یعنی Exit Plan نہیں ہے۔ ایک افسر نے کہا اب تشدد پسندی مقامی سطح سے آگے جا کر ریاست کے باہر پورے بھارت میں پھیلے گی۔

اب تشدد جان لیوا ہو گا۔ کشمیریوں کو لگ رہا ہے کہ وہ ہار رہے ہیں اور جب پوری قوم یہ سمجھنے لگے تو پھر وہ کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ تحریک اب بڑھے گی صرف ایک بٹن دبانے کی ضرورت ہو گی اور دھماکہ ہو جائے گا۔ اچھا ہے کہ بھارت نواز لیڈر بھی گرفتار ہیں ورنہ وہ خود کسی مندر کو یا DC کے دفتر کو آگ لگوا دیتے اور ہمیں مارتے۔

ایک نوجوان نے کہا ہم پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں اور بندوقوں کا انتظار ہے۔ اننت ناگ کے ایک درمیانی عمر کے شخص نے کہا پتھر پھینکنے سے بندوق اٹھانا بہتر ہے۔ کیونکہ پتھر مارنے کی بھی بھاری سزا ہے۔ تشدد ہی اب ایک واحد راستہ رہ گیا ہے۔ ایک تاجر نے جو چیمبر آف کامرس کا ممبر ہے کہا یہ ہمارے وجود پر حملہ ہے۔ چند دن میں BJP ارور RSS کا یہاں کوئی نام بھی نہیں لے سکے گا۔ عبدالقادر بھٹ پٹھان جو نیشنل کانفرنس کے ممبر ہیں اس نے بتایا اس سال 15 اگست کو ہم نے سوائے اننت ناگ کے 14 دوسرے ضلعوں میں بھارتی کا جھنڈا نہیں لہرایا۔ تشدد نہ صرف بڑھے گا بلکہ 100 فیصد بڑھے گا۔

یہ صرف چند نکتے اس طویل رپورٹ سے نکال سکا اور بے شمار ابھی باقی ہیں۔ ہمارے میڈیا اور ابلاغ عامہ کے ادارے اس رپورٹ پر غور کریں۔ اسی میگزین میں ارون دھتی رائے کا بھی ایک مضمون چھپا ہے اور اگست اور پرانے شماروں میں کئی دوسرے علاقوں جیسے آسام اور بنگلہ دیش کے اندر جو بھارت کر رہا ہے ان پر بھی ایسی ہی رپورٹیں موجود ہیں۔ میں اس میگزین کی انٹر نیٹ ویب سائیٹ کا نام بھی لکھ رہا ہوں اور ٹویٹر پر بھی یہ تفصیل موجود ہو گی۔

لگتا ہے اب بھارت نے غلط جگہ اور غلط وقت پر ہاتھ ڈالا ہے پاکستان کے پاس تو پہلے بھی کہنے کو بہت کچھ تھا مگر ہماری قیادت سستی دکھا رہی تھی۔ اب ایسا نہیں ہے۔

About Shaheen Sehbai

Shaheen Sehbai

Shaheen Sehbai is a Pakistani-American journalist and the current Group Editor of daily English newspaper The News International. Shaheen Sehbai resigned from The News International in March 2002 after receiving a memorandum from his publisher admonishing him for publication of libellous matter, alienating advertisers, and being generally inaccessible to senior government officials as well his own staff among other complaints; Mr. Sehbai defended himself saying that he was being persecuted for failing to support the Musharraf government. In August 2002, the Committee to Protect Journalists sent a public letter to then-President Pervez Musharraf to draw his attention to alleged harassment of Shaheen Sehbai's family members living in Pakistan.