ہر سیاسی لیڈر بڑے کام کرنے کے لئے اپنی دانست میں سب سے بہترین وقت کا انتخاب کرتا ہے اور ہر سیاسی فیصلے کی ٹائمنگ سب سے اہم ہوتی ہے۔ عمران خان نے جنرل اسمبلی میں ایک دبنگ خطاب کرکے جو کشمیر کے مسئلے پر اثر ڈالا وہ تو اپنی جگہ مگر داخلی ملکی سیاست میں انہوں نے اپنے لئے ایک ایسا موقع پیدا کر لیا ہے جس کی مثال اسی طرح ہے جیسے کوئی لیڈر الیکشن جیت کر جب آتا ہے تو کچھ مہینے اس کے پاس ہوتے ہیں کہ مشکل اور کڑوے فیصلے کرے جسے عام لفظوں میں ہنی مون پیریڈ کہا جاتا ہے۔ اصلی ہنی مون تو خان صاحب کا بہت دن ہوئے ختم ہو گیا تھا اور حالات اس نہج پر آ گئے تھے کہ انہیں اپنے ہی ٹاپ کے کھلاڑی اسد عمر کو ہٹانا پڑا۔ IMF کے حوالے ملکی معیشت کرنی پڑی ایک طرح سے حالات سے بڑے بڑے سمجھوتے کرنے پڑے اور باقی سب کچھ حالات کے دھارے پر چھوڑ کر صرف احتساب کا علم اٹھائے رکھا اور کوئی این آر او نہ دینے اور کرپشن پر کوئی ڈھیل نہ دینے کی پالیسی پر سختی سے عمل کیا۔ کئی فارمولے آزمائے مگر وہ نتائج نہ آئے جو انہیں ایک مضبوط initiativeلینے کی پوزیشن میں لے آتے۔
لوگ برداشت کرتے رہے اور اپوزیشن کی اجڑی ہوئی بستی میں بھی صرف مہنگائی اور لوگوں کی مشکلات اور عثمان بزدار کی دہائی ہی رہ گئی۔ یہ سب ہو رہا تھا اور جیلوں میں بیٹھے یا کیس بھگتے ہوئے لیڈر آخر اس کونے میں پہنچ گئے کہ انہیں مولانا فضل الرحمان کے مدرسے کے بچوں پر ہی انحصار کرنا پڑا۔ سب کو ایک ہی مصیبت پڑ گئی کہ کس طرح عمران خان کے شکنجے سے نکلیں، چاہے بچوں کو ہی استعمال کیا جائے۔ پھر یہ کہانیاں شروع ہو گئیں کہ جو خلائی مخلوق عمران خان کو بقول اپوزیشن کے لائی تھی اور ان کے پیچھے کھڑی تھی وہ بھی پیچھے سرکنا شروع ہو گئی ہے اور یہ شور مچنے لگا کہ حکومتی پارٹی کے لوگوں کا احتساب کیوں نہیں ہو رہا اور عمران خان کے پاس اب یوٹرن لینے کے لئے بھی کم وقت بچا ہے۔
نئے الیکشن کی آوازیں آنے لگیں اور نواز شریف اور زرداری اس خوش فہمی میں آنے لگے کہ یہ حکومت تو بس اب گئی کہ تب گئی، اس لئے جیلوں میں تھوڑے دن رہنا کوئی بڑی بات نہیں۔ دبائو بڑھتا گیا اور پھر جنرل اسمبلی کا اجلاس آ گیا اور عمران خان وہاں سے ایک نئے ہنی مون کا وقت خرید لائے۔ اب وہ عالمی سطح پر تو اپنا قد بڑھا کر آ گئے مگر داخلی صورتحال ابھی پوری قابو میں نہیں آ رہی جس کے لئے انہوں نے پھر سے ایک بڑی اکھاڑ پچھاڑ کا ارادہ کر لیا ہے۔ آتے ہی ملیحہ لودھی کی چھٹی کرنا ایک بڑا پیغام تھا اور اپنی کابینہ میں اسد عمر کی واپسی اور کئی دوسروں کی رخصتی کا بھی عندیہ دیا ہے۔
میرے خیال میں اب بڑے فیصلے کرنے کا وقت آ گیا ہے اور زیادہ دیر کی گنجائش نہیں رہی ہے۔ جن وزیروں نے چاہے وہ اپنی پارٹی کے ہوں یا مانگے تانگے کے، ان کی حکومت کو بدنام کیا ہے ان کی کھلے عام اور دبنگ انداز میں رخصتی کا اعلان ضروری ہے۔ جو وزیر حکومت میں بھی ہیں اور اپنا بزنس بھی چلا رہے ہیں یا وہ فیصلے نہیں کر رہے جن کی وجہ سے ان کا ذاتی کاروبار متاثر ہو سکتا ہے ان کا حکومت میں رہنا بہت نقصان دہ ہو گا۔ میڈیا والے بھی چھریاں تیز کر رہے ہیں کہ خان صاحب کی حکومت میں ان کا حقہ پانی کم ہو گیا ہے۔ صنعت کار بھی پریشان حال حکومت والوں اور ان کے ساتھ ایک صفحے پر کھڑے ہوئے اداروں سے کھل کر شکائتیں کر رہے ہیں۔ مگر جو ملاقاتیں یہ صنعت کار کر رہے ہیں ان کے پیچھے ایک چھپی ہوئی کہانی بھی ہے، ایک انگریزی روزنامہ نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ ایک وزیر نے یہ دھمکی دے دی کہ اگر ان کے کزن کو گرفتار کیا گیا تو وہ کابینہ سے استعفیٰ دے دینگے جو گروپ آرمی چیف سے ملا وہ پاکستان بزنس کونسل کا ہے جس کے کئی بڑے بڑے لوگ اب نیب کے ریڈار پر آ چکے ہیں اور ان میں شاہد خاقان عباسی اور حسین دائود بھی شامل ہیں۔ ان کی بڑی شکایت یہ ہے کہ ان کو نیب کی بڑھتی ہوئی زنجیروں سے نجات دلائی جائے۔ کئی لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ ایک الٹی طرف سے کان پکڑنے کی کوشش ہے یعنی اگر کسی طرح دبائو ڈال کر ان بڑے بڑے سیٹھوں کو نیب کے شکنجے سے بچا لیا گیا تو پھر سیاست دانوں کو بھی چھڑا لیا جائے گا یعنی ایک طریقے سے حکمت عملی بدلی ہے۔ کوشش وہی ہے جیسے مولانا فضل الرحمان کر رہے ہیں کہ حکومت ہٹائو یا این آر او دو، ورنہ ہم سڑکوں پر بچوں کو لے آئیں گے۔ عام الفاظ میں ہر طرح کی دھونس اور دھمکیاں یعنی بلیک میل وہ تو عمران خان صاحب کو کشمیر کی صورتحال نے ایک ایسا موقع فراہم کر دیا کہ وہ ان دھمکیوں کو سائیڈ پر رکھ کر کشمیر اور مسلمانوں کا مقدمہ لڑنے چلے گئے اور ایسا اچھا لڑا جس سے انہیں واپس آ کر ان سازشی عناصر کو ٹھیک کرنے کا موقع مل گیا۔ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ سارے صنعت کار اور بزنس ٹائی کون سب نواز حکومت کے ساتھ مل کر خوب کما رہے تھے اور پھر بھی ملک کی معیشت جہاں پہنچ گئی وہ سب کے سامنے ہے۔ اسحاق ڈار کی پالیسی تو تھی ہی یہ کہ حقیقت کو چھپا کر رکھو، جھوٹ پہ جھوٹ بولتے جائو۔ سارے اعداد و شمار اوپر نیچے کر دو اور قرضے لے کر سب اچھا کی شکل بنائے رکھو۔ سب مل کر کھا رہے تھے، لوگوں کو اور حتیٰ کہ آئی ایم ایف والوں کو بھی بے وقوف بنایا ہوا تھا۔ ہم کو یاد ہے جب ایک دفعہ تو آئی ایم ایف نے لکھ کر شکایت ہی کر دی تھی کہ ان کو جھوٹے اعداد و شمار دیے جا رہے ہیں۔ مگر عمران خان نے آ کر جب اصلی پٹاری کھولی تو اندر سے سوائے گرم ہوا اور گندے پانی کے کچھ نہیں نکلا۔ جب انہوں نے اصلی فیصلے شروع کئے تو لوگوں کی چیخیں تو نکلنی ہی تھیں لیکن عوام بھی سمجھدار ہیں اور انہیں معلوم ہو گیا کہ خان صاحب تو پرانا گندگی کا ڈھیر ہی سنبھال رہے ہیں۔ ظاہر ہے ان کی ٹیم بھی اس بدبودار کچرے کے ڈھیر اٹھانے کے لئے پوری تیار نہیں تھی مگر اب کئی ہچکولے کھانے کے بعد اور کئی سمجھوتے کرنے کے بعد کشتی ذرا سنبھلی ہے تو پھر سارے نیب کا رونا رونے اور وہی بلیک میل کے قصے لے کر ایوانوں کے چکر لگا رہے ہیں مگر اس دفعہ خان صاحب کو کمزوری دکھانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ بزنس والے جو خود نقصانات اور غلط فیصلوں کے ذمہ دار رہے ہیں اور اب حکومت میں آ کر اپنی جان بچانے کی کوشش میں مصروف ہیں ان کو معافی بالکل نہیں ملنی چاہیے۔ اگر سیاستدانوں سے این آر او نہیں ہو سکتا تو پھر کرپٹ اور چور بزنس والوں سے کیوں؟ خان صاحب کا ایک ہی مضبوط اور اصولوں پر مبنی موقف ہے کہ چوروں سے ہاتھ نہیں ملایا جائے گا۔ تو پھر دوہرا معیار کیونکر ہو سکتا ہے۔ اب تو یہ بھی کوئی نہیں کہہ سکتا کہ معیشت کی گاڑی کسی ناتجربہ کار ڈرائیور کے ہاتھ میں ہے۔ اب تو آئی ایم ایف جو سٹیرینگ وہیل پر براجمان ہے تو پھر کیا چوروں اور نااہل صنعت کاروں کو معاف کرنا آئی ایم ایف کی پالیسی سمجھی جائے۔
خان صاحب اپنے دوسرے ہی ہنی مون میں فوراً ڈنڈا اٹھائیں اور ڈیل یا ڈھیل کو بھول جائیں۔ مولانا فضل الرحمان کو تو اپنی اوقات معلوم ہو ہی گئی ہے کہ باقی پارٹیاں جو کرپشن کے کیس بھگت رہی ہیں وہ خواہ مخواہ حکومت گرانے کے لئے دھرنے نہیں دیں گی اور نہ اسلام خطرے میں ہے اور نہ ناموس رسالتؐ۔ یہ دونوں موضوع خان صاحب نے جنرل اسمبلی کی تقریر میں مذہبی عناصر سے چھین لئے ہیں۔ اب وقت سٹیل ملز کو اربوں کا نقصان پہنچانے والوں ریاست کو لوٹ مار کر کے کھوکھلا کرنے والوں اور چوروں ڈاکوئوں کی پٹائی کا ہے۔ پی ٹی آئی کو اس لئے تو لوگوں نے ووٹ دیے تھے۔