80ء کے عشرے کی بات ہے ایتھوپیا افریقہ کا ایک تیزی سے ترقی کرتا ملک تھا، امید تھی کہ جلد ہی یہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں نظر آنے لگے گا، جہاں دس میں سے نو بچے پرائمری اسکول کی عمر کے تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
یہ ایک خوش آیند علامت تھی کہ آنے والے وقتوں میں ایتھوپیا ترقی کی بلندیوں پر نظر آئے گا لیکن یہ ایتھوپیا کے لوگوں کے لیے ایک خواب بن گیا۔ اس کے بعد کے وقتوں میں وہاں معاشی اعتبار سے اس قدر تنزلی دیکھی گئی کہ جس نے اسے دنیا بھر میں بھوک و افلاس کا نشان بناکر رکھ دیا۔
جہاں اشیا 250 سے 300 فیصد قیمتوں میں بڑھی ہوئی دیکھی گئیں جو ایک عام اوسط درجے کے گھرانے کی قیمت خرید سے باہر تھیں۔ بارشوں کے نہ ہونے کے باعث ایتھوپیا قحط و افلاس کے تاریک بادلوں میں گھرتا گیا، خواتین اور بچوں کے لحاظ سے 1984ء ایتھوپیا میں رسوائی ذلت کا سال بن کر اترا، خوراک کی کمی اور قحط کا یہ حال تھا کہ بہت سے بچے اسکول جانے کے قابل ہی نہ رہے۔
اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ ان کا پڑھائی سے دل اچاٹ ہوچکا تھا دراصل بھوک اور نقاہت کے باعث ان کے جسم گوشت پوست کی بجائے ہڈیوں کا پنجر نظر آتے تھے۔ ایک مقامی اسکول ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ وہ بچوں میں تعلیم کے شعور کو اجاگر کرنے کی خاطر شہری زندگی ترک کرکے دیہی آبادی میں منتقل ہوئی تھیں، یہ وہ علاقے تھے۔
جہاں شہری آبادی کے مقابلے میں پہلے ہی کم سہولیات تھیں لیکن غربت و افلاس اور قحط کے بھوکے پنجوں نے ان بچوں سے بھری جماعتوں کو آدھ سے پونا کر دیا۔ ایسے حالات میں جب کھانے کے لیے روٹی کا ٹکڑا بھی نہ ہو، پینے کے لیے گندا آلودہ پانی نصیب ہو، ایسے میں بچوں کے ذہن تعلیم حاصل کرنے کے لیے کیسے راغب ہوسکتے ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ آپ میں سے کئی لوگوں نے مٹی کی ٹکیوں یا روٹیوں کے کاروبارکو ایسے ہی علاقے میں فروغ پاتے دیکھا ہوگا۔
انٹرنیٹ کی بدولت جہاں دنیا بھرکی خبریں بجلی کے تاروں سے گھروں میں دیکھی جاسکتی ہیں وہیں ہم سب ایسی مٹی کی روٹیوں کو خوراک کی مانند فروخت ہوتا دیکھ رہے تھے جسے لوگ خوشی خوشی خرید رہے تھے۔ کیا مٹی کی روٹی بھی انسانی پیٹ کی خوراک بن سکتی ہے؟
مٹی کی یہ ٹکیاں ہیٹی میں اس وقت پیٹ بھرنے کے لیے خاصی مشہور ہوئیں جب وہاں مہنگائی نے بری طرح اپنے پنجے گاڑے۔ یہ بات 2008ء کی ہے اس کے بعد 2010ء کے بدترین زلزلے نے تو جیسے غریب عوام کی کمر ہی توڑ دی تھی چکنی مٹی کی بنی روٹیاں، کیک بہت مشہور ہوئے جو صحت کے اعتبار سے کتنے ہی غیر تسلی بخش ہوں لیکن پیٹ بھرنے کے لیے کسی غذا کی مانند کچھ تو کھانا ضروری ہی تھا یہ روٹیاں ہی سہی۔ چند برسوں پہلے مٹی کی بنی یہ ٹکیاں جو بنا مول کے بھی دستیاب تھیں دنیا بھر کے ضمیر کو جگانے کے لیے کافی تھیں۔ جس درد اور تکلیف کو دنیا بھر میں اس حوالے سے محسوس کیا گیا وہ ایک قدرتی عمل ہے۔
مون سون کے موسم سے قبل بھارت اور پاکستان میں بھی پانی کی قلت کے حوالے سے عوام الناس میں ایک بے چینی و تشویش کی لہر دوڑ رہی تھی، لوگ پریشان تھے کہ اگر بارش نہ ہوئی تو صورتحال قحط کی جانب بڑھ سکتی ہے۔ بات اگر صرف بھارت کی ہو تو اس وقت پاکستان کے پانی کے بند کرنے کی خبریں بھی سرگرم تھیں اور ایسے حالات میں ہی کشمیر کے خطے سے آزادی کی جدوجہد کی باتیں بھی تھیں لیکن مون سون کی بارشوں کے نظام نے بھارت کو اس طرح ڈبو دیا کہ پچھلے چار مہینوں سے سیلابی ریلے مستقل چل رہے ہیں اور آسمان سے برستی بارشیں تھمنے میں نہیں آرہیں۔
لوگوں کی جانوں کا ضیاع ہوا اور مال و اسباب بھی سب پانی بہا لے گیا۔ فصلیں تباہ ہوگئیں، کھانے پینے کی اشیا قلت کی صورت اختیار کرگئیں اس حوالے سے بہت سے علاقے پانی میں گھر جانے کے باعث قحط زدہ ہوگئے ہیں لیکن دنیا بھر میں اپنی خوشحالی اور امن و سکون کے گیت گاتا بھارت ان درد بھری داستانوں کا گلا اس طرح گھونٹ رہا ہے جو الیکٹرانک میڈیا کی نظروں سے بھی اوجھل کردیا گیا ہے لیکن حقیقت چھپائے نہیں چھپتی۔
عراق میں کچھ اسی طرح کی صورتحال اس وقت پیدا ہوئی تھی جب 9/11 کی اس بڑی کارروائی کا سہرا کسی ایک ناپسندیدہ شخصیت کے سر باندھ کر نشانہ بنایا گیا، صرف یہی نہیں تیل کی عالمی منڈی تک رسائی کے لیے راستے مسدود کردینے کے باعث عراق کی معیشت تیزی سے گرنے لگی، اس دھوپ چھاؤں کے سفر میں حال کی صورتحال بھی کچھ اچھی نہیں ہے جب وہاں کی عوام حکومت کی کرپشن، مہنگائی کے زور اور بے روزگاری کے ہاتھوں سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوگئی۔
جہاں انسانوں کے بیچ نا انصافیوں کے باعث جانوں کی بھی پرواہ نہ کی گئی، ٹکراؤ چاہے انسانوں کے بیچ ہو یا ملکوں کے درمیان اس کا انجام تباہی و بربادی اور بے سکونی پر ہوتا ہے، جہاں سسکیاں، مجبوریاں، دکھ اور اذیت کے طویل تھکا دینے والے سفرکے بعد امید کی کرن نظر آتی ہے، کچھ ایسا ہی پیلی جیکٹوں والی جنگ میں ہوا، جب عوام حکومت کی ہٹ دھرمی پر مشتعل ہوگئی جہاں گیس، بجلی اور ٹیکسز کے علاوہ دیگر اخراجات جو زندگی کی ضروریات میں شامل تھے۔
آسائشات کا تو ذکر ہی نہ تھا لیکن ان کی جیبیں خالی تھیں یہ ملک کا وہ طبقہ تھا جس کا تعلق کم آمدنی سے تھا جو محنت مزدوری اور ایسے ہی چھوٹے موٹے کام کرکے اپنا گزر بسر کر رہے تھے، ایک طویل عرصے تک ماضی کی کتابوں میں اسپین کی حکومت اور امیر عوام کے اسباق پڑھتے چلے آئے لیکن کچھ عرصہ پہلے پیلی جیکٹوں والوں کے احوال بھی سب نے دیکھے سنے اور بڑے دکھ سے محسوس بھی کیے اور کئی مہینوں کی اس جنگ، دھکم پیل کے بعد وہاں تبدیلی آگئی، سرکار بدل گئی، لوگوں کے لیے اور خاص طور پر اس غریب عوام کے لیے مراعات اور سہولیات ان کے لیے مرہم ثابت ہوئیں۔
پاکستان میں تبدیلی آچکی ہے، کچھ حوالوں سے عالمی برادری میں ہمیں شک کی نظروں سے بھی دیکھا جا رہا ہے تو کہیں نئے جال تیار کیے جا رہے ہیں۔ کہیں آوازیں اٹھ رہی ہیں تو کہیں دہشت گردی کے طعنوں کے پیچھے اسکیمیں چل رہی ہیں، کہتے ہیں کہ انسان باہر ساری دنیا سے لڑ سکتا ہے لیکن اپنے گھر والوں سے نہیں لڑ سکتا۔ کیونکہ گھر والے اس کے اپنے ہیں چاہے گھر میں کتنی بھی نفرتیں، چالیں اور ٹینشن ہو لیکن اپنے تو اپنے ہی ہوتے ہیں۔
جیسے ایک ماں چاہے وہ ایک مرغی ہی کیوں نہ ہو اپنے انڈے بچوں کو اپنے پاس سینت کر رکھتی ہے، کسی ماہر نفسیات نے اس سے نہیں پوچھا کہ اے مرغی یہ تمہاری اپنے بچوں سے محبت ہے یا تمہیں خوف ہے کہ کوئی تمہارے انڈے بچوں کو نقصان نہ پہنچائے۔ وہ تو بے زبان ہے کسی ماہر نفسیات کی زبان نہیں سمجھ سکتی حقیقت تو یہ ہے کہ اس کے پاس کوئی وجہ نہیں کیونکہ یہ تو قدرت کا نظام ہے کیا اس سے انکار ممکن ہے؟