کہا جاتا ہے کہ ایک مفتوح شہر میں ایک مغل سپاہی نے بیس آدمیوں کو اپنی قید میں لے لیا تاکہ انھیں قتل کرے، لیکن قید کر لینے کے بعد خیال آیا کہ وہ اپنی تلوار لانا بھول ہی گیا۔ اس نے ان بیس قیدیوں کو حکم دیا کہ وہ وہیں رکے رہیں اور مغل سپاہی کے تلوار ڈھونڈ کر لانے تک انتظار کریں۔ سوائے ایک کے باقی سب نے اس کا انتظارکیا اور وہی ایک کہانی سنانے کے لیے بچ گیا۔
خدا جانے یہ سچ ہے یا محض ایک من گھڑت بات لیکن یہ سچ ہے کہ تیرہویں صدی کے مغل فطرتاً جنگی قیادت کی طرف راغب تھے، ان میں اتفاق تھا اور تنظیم ایسی کہ جیسے شہد کی مکھیوں کی جو ایک دوسرے سے بات کیے بغیر ہی خاموشی اور مستعدی سے اپنے کام میں جتی رہتی ہیں اور ایک انتہائی شیریں اور صحت بخش شہد ہمارے اور آپ کے کھانے کے لیے دستیاب ہوتا ہے۔ اگر ہم ماضی کا جائزہ لیں تو ہمیں مختلف انداز سے عظیم فاتح افراد کی عملی کارکردگی ان کی تدبیریں، ترکیبیں، چالیں اور مزاج نظر آتے ہیں، دنیا کو تین آدمیوں نے فتح کیا ہے، سکندر اعظم، چنگیز خان اور تیمور جو تیمور لنگ کے نام سے زیادہ مشہور ہے۔
سکندر اعظم کا خاندانی پس منظر بہت زبردست تھا، اس کا باپ مقدونیہ کا بادشاہ فلپ تھا۔ اسے ورثے میں ایک زبردست فوج ملی تھی۔ اس زمانے میں ایران کی مملکت وسیع اور ناقابل تسخیر سمجھی جاتی تھی سکندر اعظم نے اس علاقے پر بھی اپنی فتح کا جھنڈا لہرایا۔ وہ ایک ذہین اور مضبوط جسم کا مالک ہی نہ تھا بلکہ اسے جنگی مہمات میں پلاننگ کرنے پر بھی عبور تھا، ایسا نہ تھا کہ وہ آرام سے کسی خیمے میں بیٹھا رہتا اور اس کے سپاہی اپنی جان جنگوں میں جلاتے۔ ایک بڑے اعلیٰ خاندان اور مقام رکھنے کے باوجود اس نے بھی ایک اچھے سپاہی کی مانند اپنی فتوحات پر اپنا نام کچھ اس طرح رقم کیا کہ آج بھی اسے سکندر اعظم کے نام سے یاد کرتے ہیں، بھارت میں حیدرآباد دکن کا سکندر آباد غالباً اسی کے نام پر رکھا گیا تھا۔
تیمور اور چنگیز خان دونوں خانہ بدوش قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے۔ تیمورکا قبیلہ مختلف ناموں سے مشہور تھا لیکن تاریخ میں انھیں " تا تاری " کے نام سے ہی پکارا جاتا ہے ویسے تو تیمور مسلمان تھا لیکن اگر یوں کہا جائے کہ کسی حد تک وہ آج کے دورکا مسلمان تھا تو بہتر رہے گا، کیونکہ اس میں مذہب کے حوالے سے وہ سب نہیں دیکھا گیا جو شاید اگر وہ کر جاتا تو۔ ۔ ۔ ۔ بہرحال اس نے اپنے بیٹوں کو بھی اسلامی نام نہیں دیے، البتہ اس کے پوتوں کے نام اسلامی نظر آتے ہیں مثلاً پیر محمد اور یہ نام تیمور نے ہی رکھے تھے، تیمور اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتا تھا، وہ سمجھتا تھا کہ خدا نے اسے دنیا کا بادشاہ مقرر کر رکھا ہے شاید یہ بھی وجہ تھی کہ وہ اپنے آپ کو ناقابل شکست سمجھتا تھا اور یہ حقیقت بھی ہے کہ اس کی قسمت بہت اچھی تھی۔
وہ آگے بڑھتا اور چھا جاتا تھا، اس کے منصوبوں میں سمجھداری کے ساتھ احتیاط اور سب سے بڑی بات اس کی اچھی قسمت کا دخل تھا آپ اس کی تاریخ پڑھیے اسے رب العزت کی جانب سے کئی بار مواقع ملے کہ وہ اپنے مذہب کے لیے بھی کام کرتا اپنی فتوحات میں جہاد کا عنصر بھی شامل رکھتا لیکن اس نے فتوحات کا سفر اپنی خود پسندی کے باعث جاری رکھا۔ شاید اسی طرح جیسے بارک اوباما کے امریکا میں برسر اقتدار آنے کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں کی ان سے ایک آس سی بندھ گئی تھی لیکن شاید اسی طرح تیمور کے ساتھ ہوا اس زمانے میں علما اسلام کا بھی یہ خیال تھا کہ تیمور اسلام کی سربلندی کے لیے کام کرے گا لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ایسا نہ ہوا اسے علما کے مشوروں کی ضرورت نہ تھی اسے عثمانیوں سے اختلاف ہی رہتا تھا۔ اس کے بعد پھر کسی نے دنیا فتح کرنے کی جرأت نہ کی، جنگ عظیم اول اور دوم غالباً اسی ناکام جرأت کا ثبوت ہیں چاہے اس میں کوئی ہٹلر ملوث ہو یا نپولین۔
ہندوستان کی تاریخ نے مغل بادشاہوں کی تاریخ بھی رقم کی لیکن یہ بھی تیمور کی مانند چند ایک کے علاوہ برائے نام مسلمان تھے جب کہ دوسرے مذاہب کے ساتھ ان کی رواداری کی مثالیں مشہور ہیں۔ اکبر اعظم کی کہانیاں کیا واقعی گھڑی گئی تھیں؟ جواب ملتا ہے نہیں، جودھا بائی اکبرکی من پسند ملکہ اس سچی کہانی کا ایک مشہورومعروف کردار ہے۔
یورپی مورخ چنگیز خان کو مغلوں کا بادشاہ کہتے ہیں جب کہ بادشاہ بابر نے خود اپنے آپ کو تیمورکی اولاد کہا ہے، چنگیز خان اور تیمور لنگ کے اسی بیک گراؤنڈ میں کہیں مطابقت ہے، چنگیز خان کے بعد تیمور نے دنیا فتح کی تھی۔ قدیم چین، ترکی اور ایران کی مٹی سے اٹھے منگول اور تاتاری ہمیشہ جنگ کے لیے تیار رہتے تھے، چنگیز خان پہلے تباہی مچا دیتا تھا اس کے غیظ و غضب کی داستانیں مشہور ہیں کہ اس نے کبھی کسی پر رحم نہیں کیا تھا، علاقوں کو پوری طرح برباد کرنے کے بعد وہ اس میں سے آگے بڑھنے کی تیاری کرتا، وہ باریک بینی سے اپنی طویل فوج کی دور درازی کی حرکات کے منصوبوں کی تفصیل میں جاتا، کھوپڑیوں کا ڈھیر بنا کر خوف و ہراس پیدا کرکے مخالفین میں کمزوری پیدا کرتا، منصوبے بناتا اور ہفتوں اپنے سپہ سالاروں کو بحث میں شریک رکھتا اور ٹھیک وقت اور موقع محل اور پوری صورتحال کو کنٹرول میں رکھتے ہوئے جنگ کرتا۔ پہلے سکندر اعظم پھر چنگیز خان دونوں غیر مسلم تھے، جب کہ چنگیز خان کا تو کوئی مذہب ہی نہ تھا جب کہ تیمور سب سے آخری دنیا کو فتح کرنے والا مسلمان تھا لیکن اس نے اپنے دین کی سربلندی کے لیے کوئی ایسا کام نہ کیا کہ اسے عظیم مسلمان بادشاہ کہا جائے۔
جولائی 2019ء کے اختتام تک بھارت میں اور اس سے باہر شاید لوگوں کے گمان میں بھی نہ تھا کہ ستر سال تک اپنی زمین پر آزادی سے سکھ کا سانس لینے کی خاطر نہتے کشمیریوں کی جدوجہد کو نریندر مودی اپنی گھناؤنی سازش کے ذریعے مٹی میں ملانے کی کوشش کرے گا۔ پچھلے کئی برسوں سے کشمیر کا مسئلہ اپنی جگہ جوں کا توں موجود تھا، وہ ہمت والے ہی تھے کہ جن کے خلوص، جذبے اور اپنے بھائیوں سے محبت کے جذبے نے کشمیر کے ایک حصے کو بھارت کے شکنجے سے آزاد کرایا تھا جو آج آزاد کشمیر کے نام سے محبتوں میں مہک رہا ہے۔
یقینا 370 آرٹیکل کو ختم کر کے زبردستی کشمیر پر ترنگا لہرانا مودی کی حماقت ہے کیونکہ نہ تو وہ سکندر اعظم ہے اور نہ ہی چنگیز خان۔ اس مسئلہ کشمیر کو ختم کرنا اگر اتنا ہی آسان ہوتا تو نہرو 370 اور 35A آرٹیکلز کی شق ہی نہ لگاتے۔ اس مسئلے کو ایک جھٹکے سے ختم کر دینے میں شاید مودی کو اپنا نام تاریخ میں سنہرے لفظوں سے لکھا نظر آرہا ہوگا لیکن اس ایشو کو ایک قدم آگے یا پیچھے دھکیلنے میں وہ کائی چکناہٹ ضرور الگ ہوئی ہے کہ جس سے مسئلہ کشمیر ایک مقولے کا روپ اختیارکرگیا تھا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں بھی ایک بار پوری طاقت سے کشمیرکی آزادی کے لیے متحد ہوکر صرف سوچنا ہی نہیں بلکہ عمل بھی کرنا ہے۔ ماضی کے عظیم روس کی ریاستوں کی آزادی ابھی اتنی پرانی بات بھی نہیں کیونکہ ایسا ہی زخم تو 1971ء میں ہم بھی کھا چکے ہیں، مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں پھر ڈرکیسا۔ ۔ ۔ ۔ !