مریم طلائی کا تعلق ایران سے ہے لیکن وہ کینیڈا کی شہری ہیں۔ انتالیس سالہ مریم موٹر بائیک چلانے کی شوقین ہے۔ دستاویزی فلمیں بنانے کے پیشے سے منسلک ہے۔ چند مہینوں پہلے کی بات ہے جب مریم نے تہران کی سڑکوں پر اپنی بائیک دوڑائی، دو پہیوں پر مشتمل یہ سواری جو نہایت سہل اورکم خرچے پر چلنے والی ہے لیکن ایران میں خواتین پر پابندی ہے کہ وہ ایران کی سڑکوں پر کھلے عام بائیک نہیں چلاسکتی لیکن شوقین خواتین چھپ چھپا کر اپنے اس شوق کو پورا کرتی رہتی ہیں۔
وہ بخوبی جانتی ہیں کہ اگر وہ پولیس کی نظروں میں آجائیں گی تو نہ صرف ان پر جرمانہ عائد ہوگا بلکہ شاید انھیں جیل کی ہوا بھی کھانی پڑ جائے کیونکہ 2017ء میں ایسا ہی کچھ ہوا تھا جب دو خواتین کو تہران کی سڑکوں پر بائیک چلاتے پولیس نے دھر لیا تھا۔ یہ دونوں خواتین بھی فلم میکرز تھیں، یہ معاملہ بہت ہائی لائٹ ہوا، لیکن گزرتے وقت کے ساتھ اب یہ سوچا جا رہا ہے کہ کیا خواتین کے لیے اس میدان میں قانونی نقطۂ نظر سے گنجائش پیدا ہوسکتی ہے۔
قانونی حیثیت سے ایک خاتون موٹر سوارکی کیا ذمے داریاں ہوسکتی ہیں اور اس کے اس عمل سے کیا بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے؟ بگاڑ سے مراد معاشرے میں تبدیلی کا خیال ہے کیونکہ حال میں ہی ایک ایرانی خاتون نے یہ سوال اٹھایا کہ اسے موٹر بائیک کا لائسنس پولیس کی جانب سے کیوں جاری نہیں کیا جا رہا؟ مارال ہزارلو بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہیں، جنھوں نے مارکیٹنگ میں ایم بی اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کر رہی ہے۔
2017ء میں مارال اس وقت ابھر کر نظر آئیں جب انھوں نے موٹر بائیک پر پینتالیس ممالک اور سات براعظموں کو محض اٹھارہ مہینوں میں سر کرنے کی ٹھانی۔ یہ پینتس سالہ خاتون ایران سے پونا (بھارت) میں منتقل ہوئی تھیں ِ۔ موٹر بائیک چلانا اس کا جنون تھا لیکن ایران میں خواتین پر اسے چلانے کی پابندی عائد تھی لیکن مارال کے جذبے بلند تھے۔ میانمار سے تھائی لینڈ پھر آسٹریلیا اور پیرو سے کینڈا، امریکا، میکسیکو اور انٹارکٹیکا جیسے برفیلے براعظم پر موٹر بائیک چلانا آسان کام نہ تھا۔ اس خاتون کی ہمت کی داد دینی چاہیے جس کا ساتھ ایک فوٹو گرافر اور ڈاکومینٹری فلم میکرز پنکج تریودی نے دیا جس کا تعلق بھارت سے ہی تھا۔
پاکستان میں خواتین کے لیے سائیکل کی سواری ہو یا موٹر بائیک کی دوسرے اسلامی ممالک کے حوالے سے اتنی دشواریاں نہیں ہیں۔ البتہ معاشرے میں خود ساختہ پابندیاں ہم نے خود اپنے اوپر لاگو کر رکھی ہیں مثلاً لوگ کیا کہیں گے، مذاق اڑائیں گے، طعنے ماریں گے اور اسی طرح کے بہت سے مفروضات ہیں۔
پنجاب میں خاص کر لاہور اس حوالے سے پہلے ہی خاصا ترقی یافتہ ہے جہاں خواتین پچاس سال قبل سے سائیکل کی سواری کرتی آرہی ہیں جب کہ کراچی جسے کئی حوالوں سے ملک کے دوسرے شہروں کے مقابلے میں جدید ماڈرن کہا جاتا ہے اس مقابلے میں پیچھے تھا۔ ہم نے بچپن سے سنا تھا کہ لاہور میں تو لڑکیاں سائیکل چلاکر اپنے اسکول کالج جاتی ہیں بہرحال زمانے بدلتے دیر نہیں لگتی چند برسوں پہلے داتا دربار کے نزدیک ایک بیکری پر ایک خاتون کو موٹر بائیک سے اترکر جاتے دیکھ کر حیرت ہوئی تھی پر خیر سے اب کراچی میں بھی بہت سی لڑکیاں اور خواتین یہ سواری کرتی نظر آرہی ہیں۔
اس میں پٹرول کی بچت اور ٹریفک کے ہجوم سے نکلنے میں خاصی آسانی رہتی ہے جب کہ آسمان سے چھوتے پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے جیبوں پر ویسے ہی گراں ثابت ہورہے ہیں ایسے میں پچاس ساٹھ روپے کا پٹرول بہت سے مسائل کو حل کرنے میں خاصا سستا ثابت ہوسکتا ہے۔
حال ہی میں کراچی کے فریئر ہال میں ایک ایسی ہی تقریب میں جانا ہوا جہاں خواتین کو موٹر بائیک چلانے کی تربیت اور روزی فراہم کرنے کا عزم کیا گیا تھا۔ یہ تقریب اس حوالے سے دلچسپ تھی کہ وہاں ان خواتین سے متعلق بھی باتیں ہوئیں۔
جنھوں نے اپنے جوش و جذبے اور عزم سے اپنا مقام بنایا۔ مہنگائی کے اس دور میں جہاں ٹرانسپورٹ کی فراہمی آپ کے گھر کے دروازے پربھی میسر ہوجاتی ہے وہاں اس پیشے میں مردوں ہی نہیں بلکہ خواتین بھی حصہ دار دیکھنے میں آتی ہیں جو اپنے ہنر و مہارت کو بروئے کار لاکر اپنے خاندان کی معاشی صورت حال کو سنوارنے میں مدد گار ثابت ہو رہی ہیں۔ اس تقریب میں سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا اور وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر وہاب صدیقی بھی مہمانان میں شریک تھے۔
محترمہ شہلا رضا کا کہنا تھا کہ پنجاب میں خواتین کے لیے اس سہولت کے بارے میں پڑھ کر ان کے دل میں سندھ کی خواتین کے لیے بھی ایسا خیال آیا لیکن اس وقت مراحل تھے اور بات اب جاکر بنی۔ ایک نجی کمپنی کے تحت چلنے والی صوفی فاؤنڈیشن نے پنجاب میں بھی بہت سی خواتین کو نہ صرف باقاعدہ موٹر بائیک چلانے کی تربیت دی بلکہ دیگر مراعات کے علاوہ موٹر بائیکس بھی فراہم کیں جس سے خواتین ڈرائیونگ کے شعبے سے منسلک ہوکر جہاں اپنے لیے روزی حاصل کرسکتی ہیں وہیں خواتین مسافر سہولت و آسانی سے کم خرچے میں سفر کرسکتی ہیں۔
اس تقریب میں تو اس طرح کئی خوش خبری سننے کو ملی تھی جہاں خواتین کو باآسانی موٹر بائیک چلانے کے لیے لائسنسز کی فراہمی کو بھی یقینی بنانے کا کہا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے اس قسم کے اقدام خواتین کو با وقار اور پر اعتماد بنانے اور معاشرے کا اہم فرد بنانے کے لیے یقیناً خوش آیند ہیں۔ نجی اداروں کے ساتھ مل کر اس انداز سے کام کرنا عام عوام کے لیے کس قدر مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ آنے والا وقت ہی بتاسکتا ہے، امید ہے کہ پنجاب اور سندھ کے ساتھ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی اسی طرح کی حوصلہ افزا تحریکیں فروغ پائیں جو محض کاغذی پلندوں کی نظر نہ ہو اور اس کا فائدہ مخصوص چند جیبوں کو نہ ہو۔ (آمین)