"قسم ہے زمانے کی انسان خسارے میں ہے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح کرتے رہے حق بات اور صبر کی تلقین کرتے رہے"۔
حال میں شکوے کرنےوالے انسان کو مستقبل میں مصائب سے دوچار کر دیا جاتا ہے، جو موجود حالات میں ناآسودہ رہتے ہیں انہیں آنےوالا وقت کبھی تسکین اور قرار نہیں بخش سکتا۔ جب زبانیں شکر سے محروم ہو جاتی ہیں تو اندر اور باہر کی لذتیں چھن جاتی ہیں۔ بستیاں ویران ہونے کا سبب ان کے باسی ہیں جو رونقوں اور میلوں میں اس قدر محو ہو جاتے ہیں کہ تنہائی میں انہیں لذت آشنائی کی لذت سے آشنا ہونے کا موقع نہیں ملتا۔ باہر کے دشمن کا مقابلہ کرنا آسان ہے مگر اندر کے دشمن کا مقابلہ انتہائی مشکل ہے، دشمن اندر گھات لگائے بیٹھا ہے اور اشرف المخلوقات کو ذلیل اور رسوا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ یہی نفس امارہ ہے جو جو دوسروں کو بے جا دباتا ہے۔ اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں اس کے عیبوں اور کمزوریوں کی تشہیر کرتا ہے غیبت، چغلی، جھوٹ، حسد، بغض جیسے امراض میں جیتا اور مرتا ہے۔ انسان کا بڑا دشمن اس کا نفس اسے دوسروں کو دھوکہ دینے پہ مجبور کرتا ہے۔ یہی وہ نفس ہے جسے اگر وقت پہ قابو میں نہ لایا جائے تو یہ درندگی کی انتہا کر دیتا ہے۔ معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی کر کے انہیں موت کی آغوش میں پہنچا دیتا ہے اپنی طاقت کے نشے میں بے بس انسانوں پہ ظلم وستم کرتا ہے اور انہیں روندتا ہوا نکل جاتا ہے۔ کون سی برائی ہے جو اس اندر کے دشمن نفس کی پیدا کردہ نہیں، افسوس دل کی حکمرانی چھن گئی اور انسان نے نفس کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا اس کے نتیجے میں ایسی بیماریوں میں مبتلا ہو گیا کہ اب اس کے سارے دکھ لاعلاج ہونے لگے۔
انسان اشرف المخلوقات ہوتے ہوئے بھی ہار رہا ہے۔ مشکل کی اس گھڑی میں اسے کہیں سے کوئی سہارا ملے اور اس کی ڈھارس بندھ سکے۔ اے غافل انسان ابھی وقت ہے تیری یہ دنیا بے بس ہو سکتی ہے، اس کے علم اور سائنس اسے جواب دے سکتی ہے بڑے بڑے حکیم اور طبیب مرض کی تشخیص میں ناکام ہو سکتے ہیں بڑی بڑی طاقتیں اپنے زعم اور غرور سے پسپا ہو سکتی ہیں۔ ایک نہ نظر آنے والے جراثیم سے دنیا بند ہو سکتی ہے مگر جو خالق کائنات ہے اس کا در امید کبھی بند نہیں ہوتا۔ بھولا بھٹکا مسافر مدتوں بعد بھی اگر خلوص دل سے دروازہ کھٹکھٹائے تو اندر سے جواب ضرور آتا ہے وہ منتظر ہے اس کی پناہوں میں آجائیے، اے بھولے بھٹکے تھوڑے سے فائدے کےلئے بڑے اور ہمیشہ رہنے والے فائدے کو فراموش کرنے والے تجھے سجدے کی توفیق عطا ہو، تو نے اپنی عظمت آپ گنوا دی ہے وہ راستہ چن لیا ہے جہاں نہ تجھے ادھر فائدہ ہے نہ ادھر کی بھلائی ہے۔ ابھی وقت ہے تجھے موقع ملا ہے اپنے رب کے حضور جھک جا، اس محبوب کو یاد کر جسے تو بھلا بیٹھا ہے۔ محبوب سے محبوب کا صدقہ مانگ ساری وبائیں ٹل جائیں گی مصیبتیں حل ہو جائیں گی۔ محبوب کی خاطر محبوب خیر عطا کرے گا تجھے بچا لے گا، شرط سچے دل سے مانگی واپسی کی لگن ہے۔ سچے دل کی توبہ ہے۔ تو وہ سب چھوڑ دے جو اسے ناپسند ہے اسے محبوب جان جو اسے اچھا لگتا ہے۔ یہ دنیا آخرت کی طرف سفر ہے جس کا تو نے آغاز کر لیا ہے۔ مخلوق پہ رحم کر خالق خوش ہو گا۔ آزمائش کی گھڑی ہے اسے غنیمت جان اور پلٹ آ۔