کبھی کبھی مجھے یہ لگتا ہے کہ جدائی والا وائرس "کرونا" در حقیقت منافقانہ میل جول کے منہ پر دست قدرت کا ایک طمانچہ ہے۔ فراز نے کیا خوب کہا تھا۔
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھ بیٹھے فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
سینوں میں دشمنی زبان پر زہر اور گلے ملنا مصافحہ کرنا انسانوں نے توروا رکھا مگر شاید قدرت کو زیادہ پسند نہیں آیا چپکے بٹھا دیئے تمام احباب سارے رشتہ دار اور حتیٰ کہ اولاد کے لاڈ.... قدرت یہ سوچتی ہو گی کہ یہ کیسے لوگ ہیں یوں تو بزرگوں کو ایدھی ہومز و دیگر خیراتی اداروں میں چھوڑ دیتے ہیں۔ ضعیفی میں دوائی دارو اور روٹی پانی اہل محلہ کو بتا بتا کر دیتے ہیں تنہا ماں کو سڑک پر بٹھا دیتے ہیں پچھلے دنوں ایک بدبخت جناب سارم صاحب کے دفتر کے باہر ماں کو چارپائی سمیت سڑک پر پٹخ گیا مارا پیٹا سو الگ.... بیٹے ماؤں کو مار رہے ہیں بیٹیاں مار پیٹ کر رہی ہیں اور بیٹے ہیں مشرقی اقدار کے علمبردار مغرب بھی حدود سے تجاوز کر کے سپر پاور بننے کی دوڑ میں تھا ابابیلیں تو دکھائی دیں ابکے رب نے ایسا ان دیکھا دشمن بھیجا جس کے پیچھے تمام وقت ناصرف باؤلے ہو کر لوگ پھر رہے ہیں بلکہ محبتوں کے بھرم بھی کھل گئے ہیں۔ لوگ خونی رشتوں کو بھی گلے نہیں لگاتے مسجدیں عبادت گاہیں اور خانہ کعبہ کا منظر گواہ ہے کہ انسان کو صرف اپنی جان سے محبت ہے اور وہ واقعی تنہا ہے۔
فراز ہمارے ملک کے بہترین شاعر رہے ہیں اور ان کی شاعری تو ہمیشہ رہے گی پوری زندگی قلم کی علمداری میں گزاری انسانی حقوق کی خاطر ایوارڈوں کو واپس کیا تب تو ہم نے شبلی فراز کا نام تک نہ سنا مگر جب وہ وزیر ہوئے ملکی اداروں نے از خود فراز صاحب کو ایوارڈ و دیگر تقریبات منانا شروع کر دیں بعض اداروں کے ہیڈ تو جا کر قبر پر تصویریں بنوا کر شبلی صاحب کی آنکھ سے گزرنے کی تمنا میں ادھ موئے ہوئے جاتے ہیں۔ ایسی منافقتوں میں کرونا نہ آتا تو کیا سانپ چھوڑے جاتے کہ سانپ سانپوں کو نہیں ڈستے....
ہمیشہ کی طرح ویکسین کا تماشہ بھی عروج پر ہے دوسرے ملک خیراتی ویکسین کے ہمراہ اپنی بچی ہوئی ویکسین بھی بھیجنا چاہتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود ویکسین کے اجزاءمنگوا کر یہاں پلانٹ میں تیاری کے معاہدے بھی ہیں جن پر میڈیا کو گہری نظر رکھنی چاہئے اور تمام تیاری میڈیا کی موجودگی میں ہونی چاہئے کہ ایسی قوم جو پانی کا ٹیکہ لگا کر ہارٹ اٹیک میں لگایا جانے والا مہنگا ٹیکہ واپس ادویہ فروش کو دوچار سو کم سے بیچ آتی ہے وہاں یہ رسک نہیں لیا جا سکتا کافر کم از کم سچ تو بولتے ہیں بتا کر پورا حملہ کرتے ہیں دوائی میں زہر نہیں ملاتے شراب بھی کچی نہیں بناتے.... کرونا کی موجودگی ہی میں ماہ صیام آیا چاہتا غریب روزے رکھیں گے اور ان کے دن لمبے ہو جائیں گے امراءکی افطار پارٹیاں بھی چلتی رہیں گی اور مزدور کی سوکھی روٹی بھی بلیک میلرز ذخیرہ اندوز شوگر ملوں کے مالک حکومت سے سب سڈیز لینے والے اپنے بینک بیلنس غریبوں کے خون سے بھریں گے تمام رشوت خور دیگیں بانٹ کر اپنا مال پاک کر لیں گے۔ سروں پر ٹوپیاں اور ہاتھوں میں تسبیح بھی آ جائے گی مگر نہیں آئے گا تو دل میں خوف خدا غریب کے بھوکے بچوں کا خیال اور زکوة و صدقات کی بلا پسندیدگی تقسیم یہاں تو لوگ رانیں آپس میں بانٹ کر مہینے بھر کا گوشت فریزر میں بھر لیتے ہیں اس قوم کو جتنا گوشت کھانا پسند ہے کاش انصاف و برابری بھی اتنی ہی مرغوب ہو جائے۔
عدم صاحب نے کہا خوب کہا تھا
لوگ لوگوں کا خون پیتے ہیں
میں نے جل کر شراب پی لی ہے
تبدیلی سرکار کے لئے بھی کیا خوب جمال احسانی نے کہہ رکھا ہے۔
جہاں بدلنے کا وہ بھی گمان رکھتے ہیں
جو گھر کے نقشے میں پہلے دکان رکھتے ہیں
دوستیاں علیم خان اور جہانگیر خان جیسے ایک ہی پشت میں کھربوں پتی ہو جانے والوں سے اور دعوے تبدیلی کے رشتہ داریاں گولڈ سمتھ کے خاندان سے جو پوری دولت مند چین کا سرا اول ہے اور باتیں غریبوں کی ہمارے ہاں متضاد بھی اپنے عروج پر جھوٹ بھی اپنی انتہا پر اور ڈھٹائی کی تو کوئی حد ہی نہیں ہے۔ جنیاتی مسئلہ الگ خطے کی لالچ کی "گھٹی" علیحدہ اور اس پرورش میں اردگرد کا "کھویا موئی" والا ماحول الگ ایک ایسا بندہ تیار ہوتا ہے جسے پتہ ہے کل کا دن نہیں چڑھنا جو ہے آج سمیٹ لو....
قلم شاعری کو مڑ جاتا ہے
سبھی کچھ آج تھا جو کھو گیا وہ کل نہیں تھا
میں جس لمحے میں زندہ تھی وہی اک پل نہیں تھا
یہی شراب ہے جو بھگائے پھرتا ہے دوڑائے پھرتا ہے اور خواہشوں کی دھول میں منزل کے نشان گم ہو جاتے ہیں۔ زمین اپنی گردش میں تھکنے لگتی ہے تو بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں مگر جو سمجھ جائے وہ برصغیر کا بندہ ہی نہیں یونہی نظم "دل" یاد آ گئی میری کتاب خاموشیاں سے
دل کی عادت عجیب ہوتی ہے
مانگتا ہے اسی کو پی کر یہ
جو اسے خواب میں بھی مل نہ سکے
ایسا نادان ایسا ضدی ہے
دوسروں کے گھروں میں جھانکتا ہے
شاد اور مطمئن لوگوں سے
اپنے حصے کی خیر مانگتا ہے