Saturday, 23 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Labbaik Ya Rasool Allah

Labbaik Ya Rasool Allah

رنگ دار برصغیر سے چند دہائیوں پہلے آزاد ہونے والے خطہ وطن پاکستان کو جب تک پورے مذہبی، ثقافتی و اقتصادی تناظر میں نہ دیکھیں بات سمجھ میں نہیں آتی، ادھورے تبصرے "ٹوکویں ہندسوں " کی طرح ہوتے ہیں۔ جو پورے معنی ادا نہیں کر سکتے بلکہ مزید الجھاؤ کا باعث بنتے ہیں۔ سچ مچ کے تجزیہ نگار ہوں تو وہ ایسے پورے خطے کے مطالعاتی جائزے کو نگاہ میں رکھتے ہوئے مذاہب عالم سے بھی آگاہی رکھتے ہیں جہاں براہ راست پیغام پہنچا اور انبیاءآئے، ان خطوں کا کلچر اور مذہب دونوں میں تفاوت نہیں۔ جب اسلام پھیلتے پھیلتے بحر عرب کے کنارے گنگا میں نہانے والوں تک پہنچا تو زمینی حقائق پنڈتوں اور شودروں کے درمیان غیرحقیقی فاصلہ بے انصافی ایسی بے انصافی جس سے خود متاثر ہونے والے بھی آگاہ نہیں تھے موجود تھی اور اس کم مائیگی کو اپنا "لیکھ" یا "بھاگ" سمجھ کر قاع تھے اونچی جاتی کے ہندوؤں کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے تھے، انقلاب کا کوئی تصور نہیں تھا پھر حقیقی تبدیلی، جو صرف پیغمبر ہی لا سکتے ہیں کیونکہ وہ حق کی بات ہی نہیں کرتے واقعی بہت بڑے وژن روحانی طاقت اور اسم بامسمیٰ ہوتے ہیں، کھجور کے درخت کے نیچے اینٹ کے سرہانے دو جہانوں کے بادشاہ بے نیاز ہو کر سوسکتے ہیں۔

اسلام پہنچا مقامی مذاہب اور ثقافت پر فتح یاب ہوا صوفیاءنے اپنا کردار ادا کیا جس عقیدت سے نوآموز عشق کی کیفیت میں مشرف بہ اسلام ہوئے وہ عشق آج تک ہڈیوں کی "میکھوں " میں سرایت کر رہا ہے اہل عرب خوش قسمت سہی کہ انہیں اتنا بڑا اسلام کا تحفہ ملامگر ہم بھی کم خوش قسمت نہیں کہ ایک اور ہی ثقافت اور مذہب میں رچّے ملک میں پورے عشق کے ساتھ ہمارے اسلاف نے اسے اپنایا سینے سے لگایا، موئے مبارک سے محبت کی، نعلین مبارک کو دل سے لگایا اس عشق کی جوتیوں کے صدقے میں فرانس جیسے دس ملک بھی "بین" کر دیئے جاتے تو خدا کی قسم پاکستان کو کچھ فرق نہ پڑتاکہ یہ اللہ کے نام اسلام کے نام پر بنا ہے۔ ایک دفعہ ہمارے جعلی تسبیح گھمانے والے سچ مچ قوت ایمانی کو آزما کر دیکھتے کیسا اجر ملتا ہے۔ یہ جو نوجوان سڑکوں لہو بہا رہے ہیں یہ کیا کسی اور ملک کے ہیں؟ وردی والے نوجوانوں کے دل بھی دھڑکتے ہیں عاشقان رسول پر گولیاں چلانے سے پورے ملک کو پہلے اپنی نالائقی سے بھوک ننگ سے وابستہ کیاجب عشق آزمانے کا وقت آیا تو ریاست مدینہ کے دعوے دار وہاں بھی جھوٹے پڑ گئے، کون سی ترقی اور کون سے فرانسیسی تعلقات؟ یہ کیا چیزیں ہیں اہل ایمان کے سامنے رکنے دیتے ہماری "ترقیاں " جو عشق رسول کے آڑے آئیں۔

ہالو کاسٹ کا واقعہ بتانے والے یہ کیوں نہیں بتاتے کہ یہودیوں نے بین الاقوامی عدالتوں سے آرڈر لئے ہوئے ہیں، اڑھائی سال سے ہمارا نیا نیا مذہبی چولا پہنے حکمران ہاتھ میں تسبیح پکڑ کر تو پورا نہیں اتر سکتاوہ کیوں نہیں توہین رسالت کا مقدمہ لے کر دنیا بھر کی عدالتوں سے حکم نامے نکلواتا۔ کہتا تھا میں یورپ کو بہت جانتا ہوں پتہ چلا نہ یورپ کو جانتے ہیں موصوف اور نہ اپنے خطے کو۔ یہاں ہر چیز پر کمپرومائز ہو سکتا ہے ہم کتنے ہی چور، ڈاکو، بے ایمان سہی مگر ناموس رسالت پر ہم سب کٹ مرنے والے ہیں، ہمارے ماں باپ ہمارے بچے قربان فرانس کیا چیز ہے۔ ہمارا پہلا اور آخری عشق ہمارے نئی محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں۔

خان صاحب کی تبدیلی انہی کو مبارک، یہاں لوگ بھوک سے بلبلا رہے ہیں مگر اپنے ایمان پر حرف نہیں آنے دیں گے یہاں آپ کی خوش گپیاں، باتونی پن، شیخ چلی والی باتیں اور سبز خواب دکھانے سے بات نہیں بنے گی اس سرزمین کے لوگوں نے پورے دل سے صدیوں پرانے ہندو مت و مندروں کی جھنکاروں میں بلال حبشی کی اذانوں پر لبیک کہا ہے۔ یہ دلوں کے سودے ہیں یہاں سر کی کوئی قیمت نہیں، پورا ملک نکل آئے گا ہر کوئی مرنے کو تیار ہے، ہمارے لوگوں کا مطالبہ ہے تو نکال پھینکو فرانس کے سفیر، وہ ہمارا رازق نہیں۔ افسوس کہ تم نہ یورپ کا ذہن پڑھ سکے اور نہ ہمارا جنون، محض ساؤنڈ سسٹم پر گانے گانے سے کیا ہوتا ہے روح کی فلاسفی پڑھو خان جی یکطرفہ تصوف کے ادھورے علم پر صوفی ازم کی بات کرتے ہو کبھی اہل دل اہل عشق اور دانش کدئہ حقیقی تصوف میں جھانک کر دیکھو یہ کتنا گہرا ہے اور اس نے دشمن اذہان کے لوگوں میں بھی گہرے نقوش چھوڑے ہیں، کیا ہے برصغیر کبھی جان کر دیکھو....