بھلے کسی کو الزامات کی دھول میں اٹا وجود بنادو گالی گلوچ طعنہ تشنہ مقدمے گراہیاں کورٹ کچہریاں، پھکڑی، ہتک، دلآزاری کچھ بھی کرلو مگر بعض انسانوں کو قدرت نے صبر استحکام ایمان اوریقین کی دولت سے ایسا مالا مال کررکھا ہوتا ہے کہ وہ اقتدار جلاوطنی اور بیماری میں بھی قوت ارادی سے لبریز رہتے ہیں۔
آج جب میاں محمد نوازشریف پورے وقار اور الزامات سے بری وجود کے ساتھ مادروطن کے دل لاہور اور اہم حکم کے شہر اسلام آبادآرہے ہیں تو شہر اقتدار کے بڑے بڑے ایوانوں میں کئے گئے انتہائی غلط فیصلے خود اپنی نفی کررہے ہیں بار بار چودھری فواد اور واؤڈا کے نعرے یاد آ رہے ہیں کہ نواز شریف کا سیاسی مستقبل ختم ہو چکا ہے تبھی ان کے لہجوں کے تناؤ سے ڈر لگا کرتا تھا کہ خدا کے سوا کس میں یہ طاقت ہے کہ کسی انسان کا مستقبل ختم کردے۔
نوازشریف جب شیخ رشید اور عمران کو انتہائی متکبر انداز میں دشنام طرازی کرتے سنتے ہوں گے تو یقیناً کہتے ہوں گے۔
میرے ہاتھوں کے تراشے ہوئے پتھر کے صنم
آج بت خانے میں بھگوان بنے بیٹھے ہیں
میاں نواز شریف غموں کو بھولتے نہیں تاوقتیکہ وہ غم ان کی طاقت نہ بن جائیں ایک بات جو ان کے مخالف بھی اعتراف کیا کرتے کہ نواز شریف کا ووٹ بینک بہت بڑا ہے جو بارہا کی جلاوطنی اور اسیری کے باوجود بھی ختم نہ ہوسکا۔
اب آکے سنتے ہیں کہ ذات کے گرد کوئی "دودا" ہوتا ہے ایک ایسا ہالہ جس سے لوگ مبہوت ہو جاتے ہیں بے نظیر مجھے تو خاص پسند نہیں تھیں مگر موجودہ حالات دیکھ کر بہتر لگنا شروع ہوگئیں ویسے بھی بھٹو کے بعد بے نظیر کا جادو کیا چلتا؟
پنجاب پاکستان کا دل ہے یہاں کے حکمران پورے ملک کو لے کر چلتے ہیں بے نظیر اور میاں محمد نواز شریف سے صوبائیت کا ٹائٹل کبھی نہیں لگا یہ دونوں ہمیشہ پورے ملک کے لیڈر کہلائے وفاق کی زنجیر بن کر حکومتیں کیں اسی لیے مخالفت بھی زیادہ حصہ میں آئی، ان شخصیات کی قدر و قیمت متقاضی ہے کہ الگ الگ تجزیہ کیا جائے۔ اس وقت چونکہ میاں محمد نواز شریف موضوع بحث ہیں لہٰذا ان کی ذات کے اخلاقی پہلوؤں پر بات کرلی جائے، میاں نواز شریف اپنے سخت ترین مخالف کی بھی مزاج پرسی اور تعزیت کے لیے انتہائی خطرے میں بھی پہنچ جاتے ہیں محترمہ بے نظیر کی انتہائی خطرناک حالات میں رحلت کے موقع پر ہسپتال میں سب سے پہلے پہنچے عمران خان سے مفاہمت اور معاملہ فہمی کے لیے بنی گالہ چلے گئے مگر وہ نہ جانے کس مٹی سے بنا تھا
"وہ برف کا ٹکڑا تھا کہ پگھلا نہیں ابتک"
جذبات واحساسات اخلاقی وسماجی حدوں سے دور جبکہ میاں نواز شریف رکھ رکھاؤ عمدہ تربیت اخلاقی معیار اورخوبصورت دل سے مزین تھے، وہ اپنی کمزوریوں اور عادتوں کا لطیفوں کے ذریعے اظہار کیا کرتے عموماً سکھ والا لطیفہ سناتے اپنے حقیقی دکھے دل کے اظہار کا معاملہ ہوتا تو انتہائی حساسیت سے کہتے "ہم تو گویا پتھر تھے"
لوگ مانتے ہیں کہ بڑے کینوس کے بندے ہیں پنجاب میں کھل کر پلاٹ بانٹنے کا ان پرالزام آیا مگر کمال یہ کہ جن صحافیوں کو انہوں نے پلاٹ دیئے بعدازاں انہوں نے ہی سب سے زیادہ ان کی مخالفت کی اکثر فصلی بٹیرے تو پی ٹی آئی میں چلے گئے اور ہم برابر مسلم لیگ کی محبت میں پی ٹی آئی سے گالیاں کھاتے رہے ہماری فیس بک پروفائلز اب بھی بچی کھچی پی ٹی آئی کی دشنام طرازی سے بھری پڑی ہے اس سے قطع نظر کہ پھر وہی طالع آزما فصلی بٹیرے میاں صاحب کے گردہوں گے مگر مسلم لیگ ن سے جن کا دل جڑا ہے وہ ان کے حق میں لکھنے سے باز نہ آئیں گے کہ ہم اعترافی کالم لکھتے ہیں توصیفی نہیں۔
ملکی ترقی پاور پلانٹ شاہراہیں پل انڈر پاس جب اپنی آنکھوں سے بنتے دیکھا اور خان کے چاربرس خالی خوبی باتوں کے علاوہ ایک اینٹ نہیں لگتے دیکھی تو کیا ہم اندھے ہیں یا بیس برس کے ہیں جو "کیا ہم غلام ہیں" امپورٹڈ حکومت امریکی سازش پر یقین کرتے حتیٖ کہ یہ معصوم بچے ریکارڈنگز میں خان کو یہ کہتے بھی سن چکے کہ "یہ ریکارڈنگ کہیں امریکہ میں تو نہیں دکھائی جائے گی" یقین دہانی کے بعد موصوف امریکہ کے خلاف گوہر افشانی کیا کرتے ان کے گھر کے باہر بچے بیٹھے ڈنڈے کھاتے رہے یہی حال اسلام آباد کے خوبصورت ڈی چوک کا موصوف نے کیا تھا میاں محمد نوازشریف اور شہباز شریف کو جتنا ملک سجانے کا شوق ہے اتنا ہی خان کو ملک بدبودار ڈی چوک بنا دینے سپریم کورٹ پر گندے کپڑے سکھانے اور غلاظت کا ہے جبکہ موصوف اپنے آرام میں کبھی نہ آنے دیا کرتے موصوف کی رومینٹک وڈیوز یا آڈیوز آتیں تو حیرت ہوتی کہ ایسے لوگ رومینٹک نہیں ہوتے ان کی ہمیشہ ہوس لسٹ سے بھری آڈیوز ہی سامنے آئیں۔
میاں نواز شریف کے بارے میں کہا جاتا کہ موٹروے انہوں نے خود ڈرائیو کرکے گنگنانے کے لیے بنائی اگر یہ الزام بھی ہے تو کتنا خوبصورت اس میں کوئی شک نہیں کہ پورا خاندان ہی خوشگوار ادبی ذوق کے علاوہ عمدہ لحن گائیکی کا ذوق اور نفیس لباس کے حوالے سے مشہور ہے۔
جب میاں صاحب یہاں سے گئے تھے تو دامن دل میں بہت سی تشنگی ہو چکی تھی ایک ایسی رفیقہ حیات سے وچھوڑا جو انہیں وطن واپسی پر آبدیدہ کردے گا جو ہر قدم پر ان کی ساتھی تھیں ہم قدم غم گسار اور سچی شریک حیات ملک میں سبھی کچھ ہوگا مگر کلثوم نواز نہ ہوں گی ہاں البتہ ان کی قبر پر حاضری دے سکیں گے دشمنوں کاان کی موت تک کو مذاق بنانا بھی میاں نواز شریف کو اخلاق سے نہ گرا سکا کہ وہ بھی جواباً شوکت خانم ہسپتال کے لیے زمین عطیہ کرنے کا طعنہ دینے کسی کے گھر کی عورتوں کا تو ذکر ہی کیا ایک ایسا شخص وطن واپس آرہا ہے جس نے ٹرکوں پر چڑھے انتہائی غصہ میں رگیں پھلائے چیخنے چنگھاڑتے شخص کو بھی کبھی گالی کا جواب گالی میں نہیں دیا بلکہ ہمیشہ عمران صاحب کہا ایک لحاظ سے جو لوگ اپنے وقار سے محبت کرتے ہیں کبھی بھی اپنی شخصیت کو مسخ نہیں ہونے دیتے۔
میاں نواز شریف کی واپسی پر دل خوش اس لئے ہے کہ رکا ہوا معطل ترقی کا قافلہ جسے خان نے بالکل ہی "فریز" کردیا تھا چل پڑے گا گو کہ خان نے بہت ہی زیادہ ریورس گیئر لگا دیا ہے اتنا کہ جتنا شاید جنرل ضیاء نے بھی نہ لگایا تھا میاں نواز شریف کو اس قافلہ کو سرکانے کے لیے بہت محنت کرنا پڑے گی مگر یہ بھی بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ وہ بہت خوش بخت ہیں جو انسان بیماری جلا وطنی میں بھی اپنی والدہ کو وہیل چیئر پر بٹھا کر عمرہ کرواتا ہے ماں سے پہلے ملتا اور بعد میں سب گھر سے جو بیوی سے محبت کرتا ہے اور بیٹی کا احترام بخت اس پر مہربان کیسے نہ ہوں گے ایک بار پھر "ہما" ان کے سرپر بیٹھنے کو ہے خدامبارک کرے۔