Wednesday, 04 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Mohabbat Aur Rafaqat

Mohabbat Aur Rafaqat

زندگی کے بڑے سوالوں میں ایک یہ بھی زیرمطالعہ رہا کہ محبت اور رفاقت میں کس کا مقام اونچا ہے گو کہ دکھوں اور سکھوں کی درجہ بندی کی میں قائل نہیں پر غم کا اپنا مقام ومرتبہ ہوا کرتا ہے اورخوشی تو سوچنے کی مہلت نہیں دیتی آن کی آن میں کس لاپرواہ بیٹے کی طرح ایک دروازے سے آئی دوسرے سے باہر نکل گئی .... خوشی کی مدت کم مگر یاد تادیر ہے محبت بھی تمام حشر سامانیوں کے ہمراہ خوشی کی جو لبریز لہرلاتی ہے اس کا وجود درحقیقت "یاد" میں ہی زندہ رہتا ہے اس مکتب میں مجھے اپنی رائے منیر نیازی صاحب کے قریب ترین لگتی ہے۔

محبت اب نہیں ہوگی

یہ کچھ دن بعد میں ہوگی

گزرجائیں گے جب یہ دن

یہ اِن کی یاد میں ہوگی

ان سے کیے بے شمار آفاقی سوالوں میں ایک یہ بھی تھا کہ نیازی صاحب محبت اپنا وجود محض یادمیں کیوں تعمیر کرتی ہے جو سامنے ہوتی ہے وہ رفاقت ہی ہے.... انہوں نے کہا "کاکی" (پیار سے کاکی کہتے تھے) رفاقت اور محبت میں تقابل بہت مشکل ہے۔ میں نے کہا اس کا مطلب ہے جو موجود ہے وہ رفاقت ہے اور جو چھن گئی وہ محبت تھی....

کیسے نہ اپنی "ہڈبیتی" یاد آئے....

اُسے تو رکنا نہیں تھا کہ وہ محبت تھی

مرے وجود کا حصہ تھی یہ مصیبت تھی

ذرا پلٹ کے جو دیکھا درِ محبت کو

کواڑکھلتے گئے دل کی ایسی حالت تھی

ایسا ہوتا ہے کسی گلی کے موڑ پر محبت نقش ہوئی پڑی پیروں سے لپٹتی محسوس ہوتی ہے کسی گھرکے دروازے پر ہی غیرمحسوس نفرت ٹاٹ کا پردہ تانے کھڑی ہوتی ہے۔

بہت عجلت میں اُس آنگن کو چھوڑا

کبھی دیکھا نہیں پھر پاؤں دھر کے

کبھی یہ ان دیکھا خوف بن جاتی ہے یاد میں بھی خیال نہیں خوف کی صورت کرتی ہے(آج تو میں اپنی شاعری کو کالم میں روک نہ پاؤں گی)

کبھی سہ پہروں میں زینے پہ پاؤں دھرتے ہوئے

لرزسی جاتی ہوں میں اعتبار کرتے ہوئے

خیال آتے ہیں دل میں تیر محبت کے

گلی سے جیسے گزرتا ہو کوئی ڈرتے ہوئے

کنویں میں ڈالا ہے یادوں نے پھر سے کرمنڈل

شکستہ اینٹوں سے ڈرتی ہوں پانی بھرتے ہوئے

سارا مسئلہ تمام جھگڑے اولا " محبت اور رفاقت کے تقابل میں ہیں بعدازاں کے ذیلی جھگڑے محبت کے شجر سے پھوٹتی شاخوں اور رفاقت کی جھاڑیوں کے ہیں .... شاید میں نے نادانستگی میں محبت کا مقام اونچا کردیا درحقیقت کوئی رشتہ نہ ہوتے ہوئے بھی حقوق دل وجاں کا ہونا اوررشتہ ہوتے ہوئے بھی کوئی استحقاق نہ ملنا شاید اس کا باعث ہے مجھے ہمیشہ فیض کے درج ذیل شعر سے مختلف معنی سامنے آئے۔

دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے

وہ جارہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے

مجھے یہ دونوں جہاں محبت اور رفاقت کے لگے جہاں محبت بھی جھوٹ ثابت ہوئی اور رفاقت سے تو شکوہ ہی کیا کہ میں اکثر کہا کرتی ہوں ہمارے ہاں کی بعدازاں رفاقت کیسی بھی نکلے مگر یہ طے پراپرٹی ڈیلر ہی کرتے ہیں پلاٹ کی پرکھ اس کے پچھلے مالکان اس کی پیمائش اس کے اطراف کا ماحول اُس کی قدروقیمت طے کرتا ہے پھر پانچ چار میٹنگز میں معاملہ طے ہوتا ہے....

ماضی میں لوگ کہتے تھے....

پکھ نہ پچھے سالنا .... تے عشق نہ پچھے ذات

بختاور زرداری، شرمیلافاروقی کشمالاطارق ٹائپ شادیوں یا لو میرج دیکھ کر یہ محاورہ جھوٹا پڑنا شروع ہوگیا بغیر گوشت کے سالن ملازم بھی بدنام کرتے ہیں اور عشق تو پورا بینک بیلنس دیکھ کر ہوتا ہے ایسی شادیوں کا ایک فائدہ ضرور ہے کہ ناکامی کی صورت میں بھی زروجواہر ہاتھ لگتا ہے۔ یعنی بندہ مکمل طورپر صاحب فراش نہیں ہوجاتا ذرا سا فالج ہوسکتا ہے روپے پیسے کی جھنکار سے پھر سے سج سنور کر شرطیہ نئے پرنٹ کے ساتھ نمودار ہواجاسکتا ہے....

ہمارے ہاں کے مڈل کلاس کلچر میں شادیاں بھی اللہ لیکھے اور محبتیں بھی عقل کے بغیر کی جاتی ہیں باقی ذلت والا حصہ رشتے داروں کے ہاں گزرتا ہے بڑھاپا بھی ازخود بُرا نہیں اگر ابا جی امیر وکبیر ہوں تو والد صاحب ہوتے ہیں اور اگر ککھ اُن کے پلے نہ ہو تو پوتوں کو ٹیوشن پر چھوڑ سبزی لانے کے کام کے علاوہ ایک اخبار عینک کی مرمت اور دوائی کے ترلے کے علاوہ بیٹے کہتے ہیں "ابا جی دی تے یادداشت ای ختم اے بالکل ای "بونتر" گئے ہیں (بونتر کا کیا ترجمہ ہو، اسی طرح بیٹے "پوُتر" جاتے ہیں (پوُتربھی منہ زورتاپٹ پنجابی ایسے ون ورڈ One wordدیتی ہے۔ جو اردو مرکے بھی نہیں دے سکتی زمینوں سے اُگے ہوئے دکھ کی زبان میں پنجابی میں عشق کی داستانوں کو رقم کرنے والے ساتوں پیروں بابا فرید، حضرت سلطان باہو، خواجہ غلام فرید، بابا بلھے شاہ، حضرت سید پیروارث شاہ، میاں محمد بخش، شاہ حسین نے نہ صرف دنیاوی وصال سے محبتوں کو"وچھوڑے" (ہجر)پر اختتام کیا بلکہ خود بھی بیشتر تنہا ہی رہے وہ کہتے تھے ہم نے "پکے کوٹھے" نہیں ڈالنے اولاد دل میں موہ مایا پیدا کردیتی ہے اور اس کے لیے انسان حدکو تجاوز کرتا ہے "جین مت" کے مہادیر کے دیئے فلسفے میں بے لباسی بھی اسی فلسفے کی مظہر ہے کہ نہ لباس پہنیں گے نہ اس میں جیب ہوگی وہ زندہ صحت مند انسانوں کو آج تادم آخر بھوک کی سیج پر بٹھاتے ہیں یعنی جسم کا دان دے کر روح کی بالیدگی کو پانا چاہتے ہیں موجودہ محبت میں "تج دینے" یعنی "تیاگ" تپسیا، ہمارے ہاں "چلہ " (چالیس دن)خواہشات کی نفی سے مرتسم ہے اس کا ہللا سا اظہار آج بھی قائم کردہ حدود پھلانگ کر کیا جاتا ہے مگر جلد ہی غربت ظرف کھول دیتی ہے اس لیے لوگوں کا رجحان زیادہ تر پراپرٹی ڈیلنگ ٹائپ شادیوں کی طرف ہوجاتا ہے کہ پراپرٹی بھی "انے وا" خریدنے کا جوا عام ہوتا ہے وہی "انے وا" شادی کا بھی دونوں جہان تب "گواچتے" ہیں جب شادی اور محبت دونوں "انے وا" کیے جائیں اور پھر دونوں ہاتھ بھی تو اس لیے بنے ہیں کہ دونوں خالی رہ جائیں ....

جس کسی نے خالی جیب گئے زمانوں میں مال روڈ کے فٹ پاتھ پر سردشاموں میں سیٹی بجاتے ہوئے چہل قدمی کی ہو اسے خالی ہاتھ ہونے کا لطف یاد میں اچھا لگ سکتا ہے مگر شیر جب سامنے ہو ہاتھ پاؤں کانپتے ہیں اگر بچ جائیں تو یا د زیادہ بڑا طاقتور حسین شیر بن کر ابھرتی ہے۔

رفاقت طویل ہو تو پرکٹا انسان اس اسیری سے کبھی نہیں نکلنا چاہتا (یعنی جو نکلتے ہیں وہ انسان نہیں ہوتے) فریج کی جگہ فریج تو آسکتی ہے اور کار کی جگہ کار مگر انسان کی جگہ دوسرا انسان کبھی نہیں آسکتا کہ یہ محبت ورفاقت میں "یکتائی" والا خطہ ہے جہاں سات سات جنم کا تحفہ زمینی ثقافت دیتی ہے کاغذ نہ رشتہ بناسکتا ہے اور نہ توڑ سکتا ہے اپنے شعر پر اختتام

نقوش بھول گئے دل کو لمس یاد رہا

مقام اُونچا ہے چاہت سے آشنائی کا