26 دسمبر کی شب کے ماتھے پر چاند کی روشنی ہر برس مزید دھندلی پڑ جاتی ہے مجھے آنسوؤں کی نمی میں دھندلائے چاند میں پروین شاکر کی بیالیس برس کی زندگی اپنی پوری جدتوں، چاہتوں اور نوک پلک پر رک جانے والے آنسوؤں میں بسی دکھائی دیتی ہے۔
عجب بات ہے موت انتہائی تکلیف دہ حقیقت ہونے کے باوجود انتہائی رومانٹک ہے۔ پروین شاکر کا رومانس میں گندھا وجود بیالیس برس حقیقت پسندوں کی دنیا کا سامنا کرتے کرتے ادھ مواءہو چکا تھا وہ اپنے احساسات کی دنیا میں اس سے زیادہ اور جی بھی کیا سکتی تھی۔ ایسی عورت کے لیے اس زمین پر زیادہ دیر رہنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ وہ اس لحاظ سے خوش قسمت تھی کہ باوجود ازدواجی زندگی میں ناکامی کے ایک بیٹے کی ماں بنی وہ اپنے بیٹے کو اپنی اکلوتی دولت کہتی تھی۔ خدا نے اسے ماں بننے کے مرتبے سے نوازا اُس کے بدن کو ہرا رکھا۔ اُسے مکمل عورت کا روپ دیا باقی رہ گئے رشتے تو اُس کا جنازہ گواہ ہے کہ قلمکار رہی اُس کے اعزاءو اقرباءتھے، غزلیں ہی اُس کی بہنیں تھیں، نظمیں ہی اُس کی اولاد تھیں۔ تعلیم کے میدان میں انتھک مدارج طے کرنے والی پروین برصغیر کی مخصوص پسندیدہ اور مروجہ عورت کے معیار پر پوری نہ اُتر سکی اُسے نہ گہنوں کا شوق تھا نہ ریشم و اطلس کا، اُس کی سوچ میں لپٹے ریشم کی تاروں میں اطلس و کمخواب کے دھاگے تھے وہ بدن کی سجاوٹوں کو کیا کرتی؟
خوبصورت اذہان تکلیف دہ جسموں کے مکین ہوتے ہیں اندر کی خوبصورتی باہر کی خوبصورتی اور تزئین و آرائش کو چاٹ کر ایک ایسا اُجڑا ہوا حسن تخلیق کرتی ہے جس پر نظر نہیں ٹھہرتی۔
ایک نازک اندام انتہائی تعلیم یافتہ حساسیت سے بھرپور لڑکی جب بے پناہ لوگوں کے سامنے ستاروں بھری آنکھوں میں ہار کی جوت جگا کر اعترافِ شکست کرتی ہے۔
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اُس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
تو میں سوچتی ہوں لوگ جیت کا کیوں سوچتے ہیں کیا کبھی انہوں نے خوبصورت شکست کو آنکھوں میں ٹوٹتے پھوٹتے نہیں دیکھا کیا دھرا ہے کامیابی میں؟
عوام کا جم غفیر کامیابی کے پیچھے باؤلا ہو چلا ہے بھاگے چلا جا رہا ہے کامیابی سے تعمیر شدہ محلوں میں تیسری نسلیں راج کرتی ہیں جبکہ بنانے والے کی قبر پر کوئی دیا بھی روشن کرنے کی کسی کو فرصت نہیں ملتی۔ اس لحاظ سے میں سمجھتی ہوں پروین شاکر عقلمند ہے جس کی یاد میں ہزاروں دیئے یکدم آنکھوں کی دہلیزوں پر روشن ہو جاتے ہیں۔
کوئی ہمارے لیے اُداس ہو ہمارے لیے رو دے درحقیقت یہی پوری زندگی کی کمائی ہے۔
میں پاؤں پاؤں جلی ہوں تمہاری چاہت میں
لبوں کو خشک کیا درد کی کمائی کی
میں برصغیر کی جس مخصوص عورت کی بات کر رہی تھی جو صدیوں سے یہاں پنپنے کا گر جانتی ہے وہ کامیابی کے لیے کمپرومائز پر یقین رکھتی ہے وہ اپنی ذات کی نفی کر کے اُس عزت نفس کو ترک کر دیتی ہے جو اُس کے کامیابی میں حائل ہوتی ہے۔ یہاں کی عورت مرد کو اپنے اقتصادی و معاشرتی ستون سے زیادہ نہیں سمجھتی اور اس نقطہ نظر سے اس کی خدمت و حفاظت کرتی ہے۔ پورے عالم میں برصغیر ہی وہ واحد خطہ ہے جہاں عورت نے شادی کو کیریئر بنا رکھا ہے وگرنہ پوری دنیا میں شادی اور کیریئر دو الگ الگ شعبہ ہائے زندگی ہیں۔ پرابلم یہاں پیدا ہوتی ہے جب عورت خود کو مکمل انسان سمجھتے ہوئے کیریئر کو الگ اور شادی کو الگ متصور کرتی ہے۔ مضبوط عورت معاشرے میں کمزو رپڑ جاتی ہے خود کو کمتر سمجھنے والی اور اُس کمتری میں فائدے اُٹھانے والی مخلوق میں اُسے بری طرح شکست ہوتی ہے، معاشرے کی مخصوص عورت اُسے شکست سے دوچار کر دیتی ہے۔ شکست کے زخم قلم میں نیلے زہر کی مانند اُترتے ہیں۔
کہتے ہیں دنیا کا بڑا ادب بغاوت اور انحراف کا ادب ہے یہ بغاوت ملکی سرحدوں کی بغاوت نہیں بلکہ مروجہ معیارات رسومات و عقائد کی سرحدوں سے بغاوت ہے یہ ایک مخصوص دائرے سے باہر قدم رکھنے کا شاخسانہ ہے یہ انحراف بڑا مہنگا پڑتا ہے۔ شاعر کی یہ مصیبت ہے وہ خود کمتر سمجھ ہی نہیں سکتا۔ وہ خود سے پیار کرنے کی مسند پر ہمیشہ ہی متمکن رہتا ہے اک غرض مند سوچ اُسے اُس کی بے پناہ عزت کرنے پر مجبور کرتی ہے وہ اپنی توقیر ذات سے باہر کم ہی جھانکتا ہے۔ قلم کاغذ اور چادر کی بکل اُس کی کل کائنات ہے۔ تلاشِ معاش اور غم روزگار سے نمٹنا گھر کو چلانا اُس کی ذمہ داریوں میں رہتا ہے وہ یہ سب کرتا بھی ہے لیکن اُس کی تسکین و عافیت کا گھر میں ایک ہی گوشہ ایک ہی کونہ ہوتا ہے۔ وہ تمام امور کی انجام دہی کے دوران اُس کونے میں گھسنے کا تمنائی ہوتا ہے۔
دنیا بھر کی سوچ و تفکر کو تبدیل کرنے والی بولڈ سوچ کسی ایک کنج تنہائی کی مرہونِ منت ہوتی ہے وارث شاہ کو دو مصلے جگہ حجرئہ مسجد میں ملی اور دنیا بھر گہرا گندھا ہوا پُرسوز کلام تخلیق ہوا۔ علامہ اقبال بہ امر مجبوری مغربی لباس زیب تن کر کہے وفود سے ملا کرتے وگرنہ اُن کی ازلی خوشی اُن کا اپنا مخصوص کمرہ چارپائی، حقہ ملازم اور وہ ردائے شاعری تھی جسے وہ اپنے کاندھوں پر بوڑھے رکھا کرتے۔
خارجی تناظر میں شاعر محوِ کام نظر آتا ہے لیکن درحقیقت اُس کا کوئی گھر نہیں ہوتا وہ اپنوں میں بیگانہ بنا بیٹھا ہوتا ہے دن بھر اپنے ہی گھر میں گھر کی چابیوں کی مانند کھویا رہتا ہے۔
بقول رساءچغتائی
کر رہا ہوں آپ خود اپنا طواف
پھر رہا ہوں گھر میں بولایا ہوا
اب ایسی کیفیت ہو جبھی ایک خاتون شاعرہ اس معاشرے میں داغِ رسوائی کو ماتھے پر سجانے کا سوچ سکتی ہے۔
پروین کہتی ہے:
اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیادیکھوں
نیند آ جائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں
آنکھ کھل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکھوں
پھول کی طرح مرے جسم کا ہر لب کھل جائے
پنکھڑی پنکھڑی اُن ہونٹوں کا سایہ دیکھوں
لاج اور مشرقی حیا میں بھیگی نسائی بولڈنس میں بسے کچھ یہ اشعار دیکھیں:
میں اُس کی دسترس میں ہوں مگر وہ
مجھے میری رضا سے مانگتا ہے
کوئی موجہ شیریں چوم کر جگائے گی
سورجوں کے نیزوں سے سیپیاں نہیں کھلتیں
آدھی رات کی چپ میں کس کی چاپ ابھرتی ہے
چھت پر کون آتا ہے سیڑھیاں نہیں کھلتیں
میری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر
ہاتھ دُعا سے یوں گرا بھول گیا سوال بھی
اُس کے ہی بازوؤں میں اور اُس کو ہی سوچتے رہے
جسم کی خواہشوں پر تھے روح کے اور جال بھی
لوگ جسے بولڈ ہونے کا طعنہ دیتے ہیں وہ سچائی سے منہ چھپاتے ہیں قلم کو روکنا احساسات کو قلمبند نہ کر پانا پتھروں پہاڑوں اور دقیق فلسفوں کے بھاری بوجھ تلے جذبات کی زیریں لہروں میں سفر کرنا بہت سے لکھنے والوں کا شیوہ ہے۔ مزاج طبع اور معاشرت مل کر قلم کی لگامیں تھام لیتے ہیں کسی کا بھی قلم مکمل طور پر آزاد نہیں۔ قلم کو بین السطور ہی لکھنا پڑتا ہے اور ایک حد تک اب یہ آرٹ بھی سمجھا جانے لگا ہے آدھی بات کا سچ صفحہ قرطاس پر آدھی کا تحریرکے پس پردہ بات کہنا جتنا اہم ہے اُسے چھپانا اُس سے بھی زیادہ اہم لیکن انحراف کی سمت چلتا لہو تھمتا نہیں، رگوں میں اس کی گردش بڑی تیز ہوتی ہے، مسلسل تناؤ، مسلسل مزاحمت اور مسلسل نارسائی ادب کی طویل العمری اور تخلیق کار کی موت کا موجب ہے اتنے گہرے اثاثے رکھنے والی شاعرہ کا یہاں بیالیس برس گزارنا ہمت کا کام ہے اس کم عمری میں تعلیم کے اعلیٰ مدارج دفتری امور میں دسترس اور ان سب سے بڑھ کر خود میں وہی کراچی کی نوخیز دوشیزہ کو زندہ کئے رکھنا سب سے بڑا کارنامہ ہے وہ اپنی شاعری میں کہیں بھی کسٹم کی اعلیٰ افسر یا متمول عورت دکھائی نہیں دیتی اُس کی شاعری کی کامیابی اُس کی نسائی ناکامیوں میں مضمر ہے جو اُسے شرمسار نہیں کرتیں بلکہ اُس کے ماتھے پر شکست فاتحانہ بن کر دمکتی ہیں۔