Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Bare Logon Ke Rothne Ka Mausam Lagta Hai

Bare Logon Ke Rothne Ka Mausam Lagta Hai

یہ تو بڑے لوگوں کے روٹھنے کا موسم لگتا ہے، کیا کیا با کمال اور پیارے لوگ ہمارے درمیان سے اٹھ گئے ہیں، جو اپنے اپنے حوالے سے خیر، محبت، علم اور زندگی کے حسن کے نمائندے کہلانے کے مستحق تھے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ بڑے لوگ اس دنیا میں پیدا ہوتے رہینگے۔ سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی ایک دھیمے اور سائستہ انسان تھے، سردار شیر باز مزاری جن کی زندگی وطن عزیز کے ساتھ غیر مشروط محبت کے ساتھ ساتھ اخلاق رواداری اور شرافت کا مجموعہ تھی۔ ڈاکٹر غلام علی الانہ علم و چراغ کے روشن ستارہ تھے۔ عبد القادر حسن حقیقت میں اعلیٰ صحافت کی درخشاں مثال تھے۔ چودھری انور عزیز جنہوں نے زندگی کے ہر لمحے سے سیکھا۔ سراج قاسم تیلی جو پاکستان کی صنعت و تجارت کے فیاض اور متحرک انسائیکلو پیڈیا تھے۔ یہ دنیا اور ہمارا پیارا وطن ان عظیم کرداروں سے کبھی خالی نہیں ہو گی لیکن جب یہ کردار دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو ہم اداس ہو جاتے ہیں۔ یہ اپنی محنت، صلا حیت، عزم اور ارادوں کی بدولت عظمت اور شہرت کی سیڑھیاں چڑھتے چلے گئے اور یہ ہمیشہ یادوں کے جھروکو ں سے ہمیں جھانکتے رہیں گے۔ ان شخصیات میں سے ہر ایک پر کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ چند سطریں ان سے ہماری محبتوں کا مول نہیں ہو سکتیں لیکن سچ پوچھیں تو یہ ہمیں بہت یاد آ رہے ہیں۔

میر ظفر اللہ جمالی کے خاندان کی تحریک پاکستان سے وابستگی بلوچستان کی صوبہ اور مرکز میں نمائندگی اور کھیلوں میں دلچسپی اور ان کی سر پرستی ان کی زندگی کا مشن رہا۔ بڑی مرنجان مریخ شخصیت کے مالک تھے۔ تین دھائیاں گزریں، جب وہ چار دن ہمارے میزبان بنے اس دوران ان کی بے شمار خوبیاں آشکار ہوئیں۔ بڑے مہمان نواز تھے، چار دن صبح ناشتے پر ہمارے ساتھ رہے، بڑی گپ شپ رہی، ان کی شخصیت میں بردباری اور سنجیدگی نمایاں تھی لیکن طنز و مزاح کو بڑا انجوائے کرتے تھے۔ 23نومبر 2002کو وہ ملک کے منتخب وزیر اعظم بنے تو ان سے متعدد بار ملاقاتیں رہیں۔ وہ موڈ میں ہوتے تو پنجاب یونیورسٹی میں زمانہ طالب علمی سے لیکر سیاست کی راہداریوں تک کے واقعات سنایا کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ خواجہ ناظم الدین اور محمد خان جو نیجو کے علاوہ وہی ایک ایسے وزیر اعظم تھے جن کی اولیں خوبی پاکستان کے ساتھ غیر مشروط محبت تھی۔ انکے دورِ سیاست میں اخلاق، رواداری اور شرافت کا عروج تھا۔ اگرچہ ان تینوں وزراء اعظم کو اپنے عہدوں سے استعفیٰ دینا پڑامگر انہوں نے ہمیشہ اقدار کو اقتدار پر ترجیح دی۔

سردار شیر باز مزاری سے بھی محبت و عقیدت کا بڑا گہرا رشتہ تھا۔ 80اور 90کی دہائی میں ان سے متعدد ملاقاتیں رہی۔ ص مزاری صاحب اتنی خوبیوں کے مالک تھے، جتنی ان کی شاندار لائبریری میں کتابیں تھیں اور جتنی اقسام کے خوبصورت پھول ان کی رہائش گاہ کے لان میں ہر آنے والے کو خوش آمدید کہتے نظر آتے تھے۔ سیاستدان تھے لیکن بہت ہی مختلف اور حیرت انگیز سیاستدان تھے۔ اقتدار جس کے دروازے پر دستک دے رہا ہو اور وہ زندگی کے اصولوں پر کمپرومائز کرنے پر آمادہ نہ ہو، ہمارے معاشرے میں ایسے سیاستدان تو کبھی کبھی پیدا ہوتے ہیں۔

انور عزیز چودھری ایک شاندار اور پر جوش زندگی کی 88بہاریں دیکھ کر ہم سے رخصت ہوئے۔ انور عزیز چودھری نے زندگی کے ہر لمحے سے کچھ نہ کچھ سیکھا۔ بنیادی طور پر وکیل تھے، پھر سیاست کے میدان میں آگئے مگر زندگی بھر نیک نامی کمائی۔ زندگی میں کبھی کمزوری نہیں دکھائی اور تہذیب و تمدن کے ساتھ زندگی گزار دی، وہ ایک مثالی انسان تھے۔ ان کی شخصیت میں کئی رنگ پوشیدہ تھے۔ آرٹ کلچر مو سیقی اور ادب ان میں نمایاں تھے۔ ملکہ پکھراج سے نور جہاں اور مہدی حسن سے شوکت علی تک سب ان کے دوست تھے۔ فیض احمد فیض، حبیب جالب، منیر نیازی اور احمد فراز سب ان کی محفلوں کے ساتھی تھے۔ کتب بینی کا شوق جنوں کی حد تک تھا، اس لئے زندگی کے ہر شعبے میں ان کی معلومات حیران کن تھیں۔

عبد القادر حسن بھی اب ہم میں نہیں رہے کیا کمال انسان تھے۔ وہ ہماری صحافت کے ڈیگو میرا ڈونا تھے۔ جس طرح میرا ڈونا اپنی خداد اد صلاحیت سے دنیا کو حیران کرتا رہا، اسی طرح عبد القادر حسن نصف صدی تک اپنے قلم کے کمالات دکھاتے رہے۔ مجھے یاد ہے کہ جنرل نیازی کا ریوالور جنرل اروڑا کو تھمانے کا منظر کی چبھن جس طرح عبد القادر حسن کے قلم کی چیخ بن کر نکلی تھی، اس کے بعد ان کے قلم کی حساسیت اور حرارت کوہر قاری محسوس کرتا تھا۔ انہوں نے اس دور میں خود کو منوایا جب ارشاد احمد حقانی اور منو بھائی جیسے اعلیٰ پائے کے قلمکار موجود تھے۔ جن کے قلم کو اللہ نے آنکھیں دے رکھی تھیں اور دماغ بھی۔ عبد القادر حسن بڑی بڑی بات اتنی آسانی سے کہہ جاتے اور بعض کالموں کو ایسا اسلوب دیتے کہ ہر فقرہ تعویذ اور ہر لفظ دعا لگتی تھی۔

سندھ دھرتی پر علم کے میدان میں جن نامی گرامی شخصیات نے جنم لیا۔ ان میں ڈاکٹر علی الانہ اس کہکشاں کی پہلی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ ایسی شخصیات جن کی تابناکی کے آگے عہدے کوئی معنی نہیں رکھتے۔ ڈاکٹر صاحب سے جب بھی گفتگو رہی تو ہم صرف حیرانگی سے ان کے علم و کمال کے موتی چنتے رہے۔

لکھتے لکھتے یہ افسوسناک خبر ملی کہ ہمارے بہت ہی پیارے اور مہربان دوست اور ممتاز صنعت کار سراج قاسم تیلی بھی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ وہ کراچی میں صرف صنعت و حرفت کی نمائندہ تنظیموں کے سربراہ ہی نہیں تھے بلکہ وہ کراچی کے دکھ اور درد کو محسوس کرنے والے قائد شہر کے محسن تھے۔ ان شاندار انسانوں کے ساتھ محض چند جملے انکاحق ادا نہیں کر سکتے۔ میری دعا ہے کہ اللہ رب العزت ان کے ساتھ اپنے رحم و کرم کا معاملہ فرمائے۔ آمین