محترمہ بے نظیر بھٹوصاحبہ بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ یہ وہ دور ہے جب میں کراچی گرامر اسکول میں پڑھتی تھی، میرے والدزیادہ تر گھر پرنہیں ہوتے تھے اور والدہ ہم سب بہن بھائیوں کا خیال رکھتی تھیں۔ مجھے اپنے گھر کی چھت سے سمندر صاف نظر آتاتھا، رات گئے جب ہر طرف خاموشی ہوتی تھی تو سمندری لہروں کی آوازیں بڑی پر اسرار لگتی تھیں۔ والد صاحب جب گھر پر ہوتے تو ہم بچوں کوبہت وقت دیا کرتے تھے۔ وہ ایک دھیمے انسان، محبت اور شفقت کرنے والے باپ تھے۔ میں ان کی بہت لاڈلی بیٹی تھی، اس وقت صنم بھٹو بہت چھوٹی تھی۔ مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو میری ماں کے بڑے پیارے اوردُلارے تھے۔ آکسفورڈ یو نیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے وہ بتاتی ہیں کہ یہ بڑے خوبصورت دن تھے اور یہاں کا ماحول پاکستان سے قدرے مختلف تھا۔ دنیا بھر کے ذہین نو جوان طلبہ اور طالبات سے ملاقات اور ان کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملا۔ ابتدا میں ذرا اجنبیت کا احساس ہوا لیکن پھر ماحول اور یونیورسٹی کی تدریسی اور دیگر خصوصاً ڈبیٹینگ سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لینا شروع کر دیا۔
میرے لئے یہ اعزاز کی بات تھی کہ میں آکسفورڈ یو نیورسٹی ڈبیٹینگ سو سائٹی کی صدر بھی منتخب ہوئی۔ اپنے والد کی طرح بے نظیر بھٹو ایک جینئس لیڈر تھیں، میری ان سے متعدد بار ملاقات رہی۔ یہ عجیب اتفاق تھا کہ جب بے نظیر بھٹو نے تعلیم مکمل کی تو بھٹو صاحب کی حکومت ختم کر دی گئی اور اس طرح بے نظیر بھٹو کی صلاحیتوں کا عملی امتحان شروع ہو گیا۔ انہوں نے بڑی ہمت اور حوصلے سے اس مشکل دور کا سامنا کیا۔ وہ بھی امتحان کی کیسی گھڑی تھی، جب ان کے والد کو سزائے موت سنائی گئی۔ پھر انہیں ان کی والدہ کے ساتھ سہالہ کے ریسٹ کیمپ میں نظر بند کر دیا گیا۔ وہ اپنے والد سے آخری ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے آبدیدہ ہو جاتی تھیں۔ پھر ان کے لئے وہ بھی کتنا اذیت ناک لمحہ تھا، جب ایک اہلکار نے سہالہ ریسٹ کیمپ میں انہیں بھٹو صاحب کے کپڑے اور انگوٹھی تھمائے ہوئے اطلاع دی کہ ان کے والد پھانسی دیدی گئی ہے۔ انہیں اس بات کابھی شدید قلق تھا کہ انہیں اپنے والد کے آخری دیدار کا موقع نہیں دیا گیا۔ وہ اپنے انٹرویو میں سکھر جیل میں گزرے ہوئے دنوں کی صعوبتوں کا تذکرہ ضرور کرتیں تھیں، جہاں بے شمار مچھروں کی وجہ سے وہ رات بھر سو نہیں پاتی تھیں۔
پھر بے نظیر کو جیل اور 70کلفٹن میں نظر بندی کے بعد بیرون ملک جلاوطنی پر مجبور ہونا پڑا، لیکن وہاں بھی غم و الم نے ان کاتعاقب جاری رکھا۔ ان کے چھوٹے بھائی شاہنواز بھٹو کی نا گہانی موت کے بعد وہ حوصلہ ہار جاتیں لیکن ان کی میت لیکر جب وہ پاکستان آئیں تو عوام نے لاڑکانہ کی سڑکوں پر نکل کرنہ صرف اپنے غم بلکہ ان سے اپنی محبت، عقیدت اور یکجہتی کا اظہار کیا۔ اس والہانہ جذبے کو دیکھ کر انہوں نے فیصلہ کیا کہ موقع ملتے ہی وہ وطن آ کر اپنے ہم وطنوں کے حالات بدلنے کی جدو جہد ضرور کریں گی۔ پھر وہ دن آ گیا اور 10اپریل 1986کو جب وہ ایک طویل جلا وطنی کے بعد لاہور ائیر پورٹ پر اتریں تو عوام کا جم غفیر لاہور کی سڑکوں پر ان کے فقید المثال استقبال کے لئے امڈ آیا تھا۔ ایسا شاندار اور عظیم الشان جلوس اور جلسہ لاہوریوں نے کبھی نہیں دیکھا۔
جنرل ضیاء الحق بے نظیر کی پاکستان واپسی کے خلاف تھے لیکن وزیر اعظم محمد خان جو نیجو نے صدر ضیاء الحق کو قائل کیا کہ بے نظیر کی وطن واپسی سے انہیں خوف زدہ نہیں ہو نا چاہیئے۔ بے نظیر نے پاکستان کے طول و عرض میں بڑے بڑے جلسوں میں لوگوں کے مسائل اور مشکلات کے تذکرے کے ساتھ انہیں جمہوریت کے ثمرات سے آگاہ کیا۔ 1987میں بے نظیر بھٹو آصف علی زرداری کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں اور بہت دنوں بعد بھٹو فیملی کو خوشی کے لمحات دیکھنے کو ملے۔ پاکستانی سیاسی افق پر اس وقت منظر بدلا جب 16اگست 1988کو بہاولپور کے نزدیک لال کمال لسی یامین گائوں میں سی ون 30طیارے کے حادثے میں جنرل ضیاء الحق اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ اس کے چند ماہ بعد عام انتخابات کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم منتخب ہو گئیں اور سندھ میں پیپلز پارٹی کو لینڈ سلائیڈ وکٹری ملی۔
90کی دہائی میں بے نظیر اور نواز شریف کے مابین سیاسی چپقلش اور اختلافات عروج پر نظر آئے، جس کے نتیجے میں دونوں کو دو دو بار حکومتیں تو ملیں لیکن سیاسی استحکام حاصل نہیں ہو سکا۔ ان کے باہم ٹکرائو کے سبب صدر کو دی گئی 58ٹو بی کی تلوار چلتی رہی۔ بھٹو فیملی کو ایک بار پھر اس وقت ایک سانحے سے گزرنا پڑا، جب بے نظیر بھٹو صاحبہ کی وزارت عظمیٰ کے دوسرے دور میں اپنے بھائی کے اندوہناک قتل کا دکھ جھیلنا پڑا اور کچھ عرصے بعد ان کی حکومت کو ان کے دیرینہ اور قابل اعتماد ساتھی صدر فاروق لغاری نے بر طرف کر دیا۔ مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد ان کی والدہ نصرت بھٹو اپنے بیٹے کے غم سے نڈھال ہو گئیں اور بھٹو فیملی میں سیاسی اعتبار سے تقسیم دکھائی دی۔ مرتضیٰ بھٹو کی بیوہ غنویٰ بھٹو نے اپنی نئی سیاسی جماعت بنا لی۔ 12اکتوبر 1999کو جنرل مشرف کے بر سر اقتدار آنے کے بعد بے نظیر بھٹو غیر ملک چلی گئی لیکن پھر ایک معاہدے کے تحت 2006میں وطن واپس آئیں تو ان کے ایک بار پھر عوام کی محبت اور والہانہ جوش و خروش بتا رہا تھا کہ انتخابات جب بھی ہونگے وہ تیسری بارملک کے وزیر اعظم بن جائیں گی لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
16اکتوبر 2006کو کراچی میں ان کے فقید المثال استقبال میں جلوس کے دوران خود کش حملے نے ان کی زندگی کے لئے حقیقی خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔ لیکن وہ ایک نڈر اور پرعزم لیڈر تھیں خوف زدہ ہونے کے بجائے انہوں نے عوامی رابطہ مہم جاری رکھی اور اس وقت ملک دشمنوں کا وار چل گیا، جب 27دسمبر کو وہ راولپنڈی کے جلسے میں خطاب کے بعد واپس لوٹنے ہوئے عوام کے نعروں کا جواب دینے کے لئے اپنی گاڑی سے باہر نکل کر ہاتھ لہرا رہی تھیں۔ انہیں ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکی۔ یہ ہماری تاریخ کا ایک عظیم سانحہ تھا۔ پاکستان اپنی ایک قابل فخر بیٹی اور اولو العزم لیڈر سے محروم ہو گیا۔