آخر سوچیں تو سہی کہ کوئی ایسا ادارہ نہیں جس پر اعتماد کیا جا سکے۔ کوئی ایسا شخص نہیں جس کی بات اندھیرے میں کرن کی طرح چمکے۔ کوئی ایسا لیڈر نہیں جس سے ہاتھ ملا کر اطمینان اور سرور کی لہریں وجود میں دوڑتی محسوس ہوں۔ یہ کیا ہوا یہ زمین اتنی بانجھ کیوں ہو گئی؟ اچھے، اعلیٰ ظرف اور ذہین لوگ اچانک ختم کیوں ہو گئے؟ ذرا اندازہ کیجئے کہ ہم کتنے بد قسمت قوم ہیں کہ وقت کے اس تنہا، اداس اور ویران سفر میں ہمارے لئے کوئی ایسا لیڈر نہیں جو اس ہجوم کو قوم بنا سکے۔ جو لوگوں کو تھپکی دے سکے اور ان کی داد رسی کر سکے۔ اچھے اور برے کی تمیز سکھا سکے، جو من حیث القوم ہماری رہبری کر سکے۔
بہت عرصہ گزر گیا ہم اتنے ہکا بکا چہروں پر درجنوں نہیں سینکڑوں سوالات سجائے ایک دوسرے کو یاس و حسرت سے دیکھ رہے ہیں۔ ایک یا دو نسل پیچھے مڑ کر دیکھیں کہ آپ کو زندگی کے ہرشعبے کے ٹاپ پر ایسے لوگ ضرور نظر آتے تھے جن کے ظرف، ذہانت، فطانت، محنت اور ایمانداری میں کوئی ثانی نہیں تھا۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہم ایک اخلاقی بحران کی زد میں آ گئے جب ہم دوسرے ممالک میں اخلاق، قانون اور حکمرانی کے طور اطوار کی مثالیں سنتے ہیں تو ہماری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ ایسے لمحات میں مجھے فیلڈ مارشل منٹگمری یاد آ گیا جو جنگ عظیم دوئم کا سپریم کمانڈر تھا، جس کی کمان میں اتحادیوں کی فوج نے نازیوں کی پھیلتی ہوئی آگ بجھا دی۔ جس کے احکامات نے جاپان جیسی طاقت کو گورے سپاہیوں کے قدموں میں سرنگوں ہونے پر مجبور کر دیا۔ جس کی جنگی حکمت عملی آج دنیا بھر کے عسکری سلیبس کا حصہ ہے۔ جب جنرل ریٹائرڈ ہوا تو اس کے پاس رہنے کے لئے فلیٹ تک نہیں تھا۔ وہ کبھی کرائے پر ایک گلی میں رہتا اور کبھی مالک مکان سے لڑ جھگڑ کر کسی دوسری جگہ ٹھکانہ بنا تا۔ جب یہ نقل مکانی اذیت دینے لگی تو وہ وزیر اعظم کے پاس گیا۔ ملک کے آئینی سربراہ نے 10ڈا ئوننگ اسٹریٹ کے گیٹ پر دنیا کے عظیم سپہ سالار کا استقبال کیا اور اسے نہایت عزت و احترام سے اپنے دفتر لایا، کرسی پر بٹھایا اور خود اس کے سامنے احتراماً کھڑا رہا۔ چند فقروں کے تبادلے کے بعدوزیر اعظم نے تکلیف کرنے کی وجہ پوچھی تو فیلڈ مارشل نے بریف کیس کھول کر ایک درخواست وزیر اعظم کے سامنے رکھ دی۔ وزیر اعظم نے ہٹل لیمپ جلایا، چشمہ ناک پر سیدھا کیا اور درخواست پڑھنی شروع کر دی۔ درخواست میں فیلڈ مارشل نے دوسری جنگ عظیم میں اپنے کارنامے گنوانے کے بعد حکومت سے درخواست کی کہ اس کے پاس رہنے کے لئے گھر نہیں ہے اور درخواست میں یہ بھی عرض کی کہ بہت بوڑھا ہو چکا ہوں بار بار گھربد ل نہیں سکتا اور مہنگائی بھی بہت زیادہ ہے اس لئے کرایہ نہیں دے سکتا، لہذا مہربانی فرما کر ایک فلیٹ یا زرعی زمین کا ایک ٹکڑا الاٹ کر دیا جائے۔ وزیر اعظم نے چشمہ اتارا اور بڑے احترام سے بولا! سر اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسری جنگ عظیم میں آپ کی خدمات پوری دنیا کے لئے قابل احترام ہیں اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس وقت آپ کے پائے کا کوئی جرنیل نہیں لیکن سر! آپ زندگی بھر اپنی خدمات کا معاوضہ لیتے رہے ہیں۔ گریٹ بر ٹن نے کبھی آپ کی تنخواہ لیٹ نہیں کی اور سر اگر اس بات کو بھی فراموش کر دیا جائے تو پرائم منسٹر آف گریٹ برٹن کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں، جس کے ذریعے وہ سپریم کمانڈر کو ایک فلیٹ الاٹ کر سکے۔ آئی ایم سوری سر۔ ساتھ ہی وزیر اعظم نے بوڑھے فیلڈ مارشل کو ایک سمارٹ سا سلیوٹ کر دیا۔ لیکن ہمیں یہ پڑھ کر شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ قائد اعظم کی شخصیت کے ایک ایک پہلو پر نظر ڈالیے۔ آپ اپنے لیڈر کی ذہانت، ایمانداری اور دور اندیشی کے ایک ایک پہلو پر فخر کر سکتے ہیں۔ شہید ملت کی سادگی اورجواب دہی کے احساس کے حوالے سے آپ سینکڑوں مثالیں دے سکتے ہیں۔
ہماری تاریخ میں ایسے حکمران بھی گزرے ہیں جن کی راست بازی، دیانتداری اور فرض شناشی کے ساتھ ساتھ ایمانداری بھی مثالی تھی۔ خواجہ ناظم الدین، حسین شہید سہر وردی، سردار عبد الرب نشتر، محمد علی بوگرہ حتیٰ کہ ایوب خان، ذولفقار علی بھٹو اور ضیاء الحق پر بھی مالی بد عنوانیوں کا کوئی ایسا الزام نہیں جو شرمندگی کا باعث ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ہاں دو طرح کے طرز حکمرانی کرنے والے لوگ ہیں ایک وہ جنہوں نے ملک بنایا اور اپنی عزم، محنت اور اصول پسندی کی مثالیں قائم کیں۔
آج کی صورت حال ملاحظہ کیجئے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے پر بد عنوانی اور لوٹ مار کے الزامات لگا کر چور اورڈاکو ثابت کرنے میں مصروف ہیں۔ ایک دوسرے سے اس طرح گتھم گتھا ہیں کہ اس پریشان کن صورت حال کا نتیجہ کیا نکلے گا اسکی کوئی فکر نہیں۔ نواز شریف جار حانہ سیاسی حکمت عملی کا راستہ اختیار کر چکے ہیں اور حکومت بھی مفاہمت سے بتدریج دور ہوتی جا رہی ہے۔ ہر طرف انتشار اور محاذ آرائی کی جڑیں ہیں۔ ایک اندازہ یہ تھا کہ شاید حکومت آئندہ چھ ماہ تک اپوزیشن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے اجتناب کرتے ہوئے اپنی گورننس کو بہتر کرنے پر زور دے گی تاکہ ایک طرف اس پر عوامی مسائل پر انگلی اٹھانے والے خاموش ہو سکیں اور حکومت کی مقبولیت میں کمی کو بریک لگ سکے لیکن نہ حکومت اپوزیشن کو اہمیت دینے کو تیار ہے اور نہ عمران خان ان کے سامنے بیٹھنے کے روادار ہیں۔ ایوب خان سے بھٹو تک کے ان حکومتی اقدامات اور نتائج پر ایک نظر ڈالیں جو انہوں نے اپوزیشن کے ساتھ روا رکھا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ اپوزیشن کے پاس ٹکرانے اور حکومت کے خلاف سازش کرنے کے تمام راستے مسدود ہوتے جا ئینگے۔ اگر یہ ٹیمپو بن گیا تو آخر کارحکومت کے لئے مشکلات پیدا ہونگی۔ عمران کے تھوڑے سے لوگوں کے دھرنے نے نواز شریف کے دو تہائی اکثریت والی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا لیکن عمران حکومت کے سامنے توایک مضبوط اپوزیشن کھڑی ہے اگر اس مضبوط اپوزیشن نے پیش قدمی کی تو پھر حکومت کا مستحکم رہنا مشکل ہو جائیگا۔ مفاہمت کا ہاتھ بڑھانے اور عوامی فلاح و بہبود کے لئے مل جل کر کام کرنے کی کوشش کرنا بہترین آپشن ہے بصورت دیگر ٹکرائو کی صورت میں کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ سارے خواب بکھر جائیں گے کیونکہ یہ بات یاد رکھیں کہ ہم گریٹ برٹن میں نہیں رہتے۔