ہماری تہتر سالہ تاریخ ملک و قوم کو ایسے مقام پر لے آئی ہے، جہاں اب مزید دیر کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ بات اب تنقید اور تو تکار سے آگے نکل کر غداری کے الزامات لگانے تک پہنچ چکی ہے۔ تین مرتبہ ملک کے وزیر اعظم رہنے والی شخصیت اور ملک کی چھوٹی اور بڑی جماعتوں کی اکثریت جس طرح کا بیانیہ لیکر سامنے آ گئی ہیں وہ درپیش خطرات کا واضح اشارہ ہے۔ جب وزیر اعظم ٹھوری پر ہاتھ پھیر کر اپوزیشن کو وارننگ دے رہے ہوں، جب وزراء روز باری باری اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے ہوں اورجب اپوزیشن حکومت کو اٹھا کر پھینکنے کی دھمکیاں دے رہی ہو۔ جب مزار قائد پر سیاسی نعرے لگ رہے ہوں اور جب سادہ لباس نا معلوم افراد ریڈ لائن کراس کر رہے ہوں۔ اپوزیشن کے متعدد بڑے نام اپنی اپنی پیشیاں بھگتانے میں لگے ہوں اور ان میں سے بعض دس بائی دس کے کمروں میں قید کی صعوبتیں برداشت کررہے ہوں۔ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے حکمران این آر او نہیں دینگے کی آوازیں لگا رہے ہوں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے دونوں فریق تمام ممکنہ حربے استعمال کر رہے ہیں۔ یہی نظر آ رہا ہے کہ دونوں اپنی انتہائی پوزیشن سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہیں، کسی درمیانی راستے کا کوئی عندیہ نہیں مل رہا اور نہ ہی دونوں فریقین کے مابین ثالثی کے لئے کوئی سامنے آ رہا ہے۔ لگتا ہے عمران خان کی سیاست کی پوری بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی قیادت کو چور، ڈاکو اور لٹیرا کہتے رہیں۔ یہ درست ہے کہ عمران خان اپنی بات کہنے میں کبھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے اور انہوں نے پاکستانی سیاست کے بنیادی دھارے کی دونوں مقبول جماعتوں کی طرف کبھی دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھایا جبکہ یہ حقیقت ماننی پڑے گی کہ ان دونوں جماعتوں نے پورے وقت میں متعدد بار پی ٹی آئی کی حکومت کے لئے اپنا دست تعاون بڑھایا لیکن عمران خان نے اسے جھٹک دیا۔ اس لئے با لآخر اپوزیشن تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق حکومت کے خلاف میدان میں نکل پڑی ہے جبکہ تحریک انصاف کی قیادت یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ فوج ان کے بیانئے کی محافظ ہے اور وہ ان کے ساتھ کھڑی ہے، اس لئے اس کے مخالفین کبھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔
تاریخ میں واقعات معروضی حالات کے منطقی انجام کے طور پر رونما ہوتے رہتے ہیں، زمینی حقائق کی بناء پر جو کچھ ہونا ہوتا ہے وہ کسی پروپیگنڈے اور ایجنڈے کی وجہ سے رک جاتا ہے۔ تحریک انصاف کے جس انتہائی بیانئے کے باعث اپوزیشن جماعتیں انتہا پر گئی ہیں، اب وہی بیانیہ آزمائش سے دو چار ہے۔ وہ وقت آنے والا ہے، بہت جلد آنے والا ہے، زمینی حقائق بڑے تلخ ہیں۔ مجھ سے ایک حکومتی کارندے نے پوچھا حکومت قوم کو بچت پر کیسے قائل کر سکتی ہے۔ میں نے عرض کیا عوام تو برسوں سے بچت کر رہی ہے، اب آپ لوگ بھی کچھ خیال کریں۔ وہ بولا کیا مطلب؟ میں نے دوبارہ عرض کیا۔ میرے عزیز اس ملک میں کتنے لوگ ہیں جو سال میں دو جوڑے کپڑے سلوا کر پہن سکتے ہیں؟ کتنے لوگ ہیں جو دن میں تین بار کھانا کھاسکتے ہیں؟ کتنے لوگ ہیں جو بیماری سے پگھل رہے ہیں لیکن علاج نہیں کروا سکتے اور بچوں کو تعلیم نہیں دلوا سکتے؟ ان کے پاس صرف یہی راستہ ہے کہ اپنی سسکتی اور لرزتی آرزئوں اور خواہشات کو اپنی روح میں جکڑے ر ہیں۔ د وسری طرف وہ لوگ ہیں، جن کے پاس آسائشیں ہیں، دولت ہے، طاقت ہے اورانہیں ہر چیز اپنی دسترس میں دکھائی دیتی ہے مگر ایسے لوگ صرف چند لاکھ ہیں، جی ہاں جب تک یہ قربانی نہیں دینگے بات آگے نہیں بڑھے گی۔
آپ خود دیکھیں جو لوگ اقتدار میں ہوتے ہیں یا اقتدار میں آنے کے منتظر ہیں، وہ کبھی اقتدار سے الگ ہونا نہیں چاہتے۔ اس لئے کہ اقتدار ایسی ماں ہے، جو ان لوگوں کے سارے نخرے اٹھاتی ہے۔ جب تک یہ لوگ اپنا لائف اسٹائل نہیں بدلیں گے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور نہ ہی کوئی تبدیلی آئی گی۔ ایک کٹھن وقت ہمارے دروازے پر کھڑا ہے اور دستک دے رہا ہے۔ ہم اسے محسوس کر سکتے ہیں اور اس کی اذیت سے گزر بھی رہے ہیں۔ یہ تو ہر گز نہیں ہو سکتا کہ ہم بھوکے سو جائیں اورہمارے بچے قربانی کی سولی پر چڑھ جائیں اور وقت کا با اقتدار اوربا اختیار حکمران اور انکے ہمراہی اپنے اللے تللوں میں اور اپنی عیاشیوں میں مگن رہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسا ملک جو بے حد غریب اور مقروض ہے، جہاں لوٹ کھسوٹ، ڈکیتیاں چوریاں، اختیارات سے تجاوز، کرپشن اور قرضے پی جانا ہمارا کلچر بن گیا ہے۔ جہاں کرپشن کے 90فیصد الزامات اشرافیہ، موجودہ اور سابقہ حکمرانوں پر عائد ہوتے ہیں۔ جہاں رسہ گیری، اڈوں کی خریدو فروخت، منشیات کا دھندہ، ناجائز اسلحہ کے ڈپو اور جگا ٹیکس وصول کرنے تک کے سارے کام ارکان اسمبلی، بڑے آفسران اور وڈیروں، جاگیرداروں کے زیر نگرانی ہوتے ہیں۔ کوئی تو بتائے کہ اس ملک کی اسمبلیاں اور کمیٹیاں کیا قانون سازی کر رہی ہیں اور وہ کونسے معامالات ہیں جو ان کے زیرغور ہیں۔ انہوں نے کتنے معاملات کی چھان بین کی، کتنے کیس بنا کر عدالتوں کے سپرد کئے اور کتنے مسائل سلجھا کر ایون میں پیش کئے۔ جب سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے نیب کے متعلق ریمارکس، تحفظات اور کمزور کارکردگی پر نظر پڑتی ہے تو حیرانگی ہوتی ہے کہ احتساب کا یہ ادارہ اتنے سارے سوالات کا بوجھ لئے کیسے کھڑا ہے۔ یقین جانیں ملک کی 60%غریب آبادی مسائل کے جس گرداب اور محرومیوں کے جس عذاب کو جھیل رہی ہے، اس پر مجھے قدرت کے اس اصول پر یقین آ تا جا رہا ہے کہ جس قوم کے لیڈروں کے سینے میں دل نہیں ہوتا ان کی عقل اور ہاتھوں میں معجزے نہیں ہوتے۔