جو لوگ نصف صدی سے کراچی کی صحافت کے اتار چڑھاؤ اور نشیب ِ و فراز سے واقف ہیں انہیں روز نامہ مشرق اور اخبار خواتین کا عروج بھی یاد ہوگا اور انہیں ا وجھل ہوتے اور اندھیروں میں ڈوبتے دیکھا ہوگا۔ اخبار خواتین کی ادارتی ٹیم میں بڑی خوبصورت قلم کار خواتین کا ایک جھمگٹا تھا۔ مسر ت جبین، شمیم اکرام الحق اور انیس تفضل جیسی خوبصورت رائٹرز اپنی اپنی دلکش تحریروں کے رنگ بکھیر تی دکھائی دیتی تھیں لیکن ش فرخ کے کالم کا تیکھاپن مختلف موضوعات کو اجاگر کرنے میں اچھوتا انداز بہت مقبول تھا۔ ش فرخ بڑی زندہ دل اور پرجوش خاتون تھیں، طبیعتاً مجلسی تھیں اس وقت تو واقعی ان کا حلقہ احباب وسیع تھا وہ اخبار خواتین میں اپنے قلم کی جولانیاں دکھانے کے بعد روز نامہ مشرق کی ایڈیٹر کے طور پر کام کرتی رہیں۔ ، خوش اخلاق ملنساری اور لہجے کی حلاوت ان کی پہچان تھی مجھے دو بار ان کے ساتھ سفر کرنے کا موقع ملا شاید یہ 1985کی بات ہوگی جب PIAنے راولپنڈی سے اسکردو کے لئے بوئنگ کی افتتاحی پرواز میں کراچی کے میڈیا پرسنز کو مدعو کیا گیا تھا۔ اس میں پی آئی اے کی جانب سے ہر دل عزیز جناب خالد بٹ میزبانی کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ یہ وفد تقریباََ تیس صحافیوں پر مشتمل تھا۔ کراچی سے اسلام آباد پہنچے رات کو راولپنڈی کی ہوٹل میں قیام تھا۔ اس رات زندگی کے تجربات اور مشاہدات بیان کرنے میں تمام دوست ہی کچھ نہ کچھ سنا رہے تھے لیکن دلچسپ واقعات چٹکلے اور لطیفے سنانے میں اصل مقابلہ ش فرخ اور برادرم یوسف خان کا تھا۔ رات گئے تک قہقہے برستے رہے۔ تین روز کا یہ سفر آج بھی مجھے یاد ہے۔ ایک سیمینار میں ش فرخ کا مختصرلیکن انتہائی معلوماتی مقالہ بہت پسند کیا گیا اس میں انہوں نے پاکستان میں صحافیوں اور ادیبوں کی خبروں اور تحریروں پر سنسر شپ کے نتیجے میں بگڑ جانے والی شکل کا تذکر ہ اپنے مخصوص انداز میں بیان کیا۔ اس میں اس وقت کے سرگرم صحافیوں حسن عابدی، عبدالحمید چھاپڑا، مجاہد بریلوی، سلیم عاصمی اور فاضل جمیلی کا بھی تذ کرہ تھا۔ ش فرخ کو مصوری سے بے حد لگاؤ تھا اس وقت وہ شاید اردو مصوری میں واحد کریٹک تھیں۔ 12مارچ 1938کو ساہیوال میں آنکھ کھولنے والی شوکت فرخ جنہیں تمام دوست ہمیشہ ش فرخ کے نا م سے یاد کرتے تھے اب اس دنیا میں نہیں رہیں لیکن وہ اپنی قلمی میراث چھوڑ گئیں ہیں وہ ہمیشہ ان کی یاد دلاتی رہیں گی۔ نامور مصور علی امام کی زندگی کے نشیب و فراز کو انہوں نے جس طرح سے قلمبند کیا ہے "مدار " پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کتنی حساس تھیں زندگی کی مسرت اور چبھن کو انہوں نے کیسے محسوس کیا۔ سچ پوچھیں تو ش فرخ نے ایک تنہا اور تلخ زندگی گزاری تلخ اس اعتبار سے ان کے خاندان کے بعض افراد نے انہیں بہت دکھ دئیے لیکن وہ اپنے ارادوں میں پکی رہیں، زندگی بھر مالی طور پر کسی کے زیر بار احسان نہیں ہوئیں، جرنلسٹ کالونی میں 400گز کا ایک گھر تعمیر کر لیا تھا اور 17جون کو وہیں سے آخری سفر پر رخصت ہوگئیں۔
جاذب قریشی بھی روٹھ گئے، کیا خوب انسان تھے، شاعری نثر تنقید اور تدریس پورے سلیقے سے ایک نفیس زندگی گزاری، دہ دھیمے مزاج کے تھے لیکن جب بھی گفتگو کرتے اس حقیقت پر ان کا دل بوجھل پایا کہ اردو اد ب اور اردو تعلیم کے لئے جو اہتمام ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہے کراچی میں شعر و شاعری اور علم و دانش کی محفلوں میں جاذب صاحب کا ایک منفرد مقام تھا، یہ تو حقیقت ہے کہ انسان کو طبعی طور پر جینے کی محدود مہلت ملتی ہے پھر وہ اپنے علم اور تجربے کو دنیا میں چھوڑ کر صفر ہوجاتا ہے لیکن وہ جو چھوڑ کر جاتا ہے وہی اقدار وہی قابلیت وہی فن وہی ہم جیسے لوگوں کے لئے سیکھنے کا سامان ہوتا ہے۔ یہی ان کا نام زندہ رکھتا ہے۔ جسمانی وجود تو نہ غالب کار ہا نہ پکاسو کا اور نہ آئن اسٹائن کا، مگر یہ علمی خزانہ ہی ہوتا ہے جو اس کی میراث ہوتا ہے۔ جاذب صاحب آپ کے بعد ایک اور نسل آئیگی جو شاید آپکی تقلید کرتے ہوئے آپ سے بھی آگے نکل جائے لیکن آپ جو اثاثہ چھوڑ گئے وہ ہمارے بعد آنے والوں کے لئے بھی کافی ہوگا۔ آپ کی شاعری اور آپ کی علمی صلاحیت پر لکھنے کے لئے تو ایسے ڈھیروں صفحات چاہئیں اور شاید میں پھر بھی انصاف نہ کرسکوں۔ دکھ اور الم کی باتیں ہو رہی ہیں تو ہم اپنے بہترین اور قابل احترام دوست ایڈیٹر کالم نگار معروف دانشور غازی صلاح الدین کے اس دکھ کو کیسے فراموش کر سکتے ہیں کہ جن کے 4بہن بھائی 4ماہ کی مدت میں سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئے اور یہ بھی ان کے لئے کتنا کربناک احساس ہوگا کہ وہ ان کے جنازوں میں شریک نہ ہوسکے کیونکہ ان سانحات کے وقت وہ اور ان کی اہلیہ اپنے بیٹیوں سے ملنے غیر ملکی سفر پر تھیں۔ میں غازی صاحب کی تحریروں میں کرافٹس مین شپ کا ہمیشہ مداح رہا ہوں۔ اللہ تعالی نے انہیں جاذب طرز تکلم اور بے پایاں علم سے نوازا ہے۔ ان کا پورا گھرانہ علمی زیور سے آراستہ ہے لیکن اب یہ کیسا غم ہے کہ غازی صاحب کی بڑی بہن ناہید اسلام کا اس سال مارچ میں انتقال ہوا تھا، بھائی آصف اخترجون میں اللہ کو پیارے ہو گئے، ایک ہفتے کے بعد ان کی بہن پروفیسر فہمیدہ جو سینٹ جوزف کالج میں کیمسٹری کی پروفیسر تھیں اوراس سانحہ کے آٹھ دن بعد ان کی بہن عقیلہ اسلام جو ایٹمی سائنسدان تھیں اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ چار میں سے تین اموات ایک کے بعد ایک دبئی میں کرونا سے ہو ئی جہاں وہ اپنے بھتیجے کے پاس عید کی چھٹیاں گزارنے کے لئے جمع ہوئے تھے کہ کرونا نے آلیا۔ خاندان پر افسوس والم کی چادر تن گئی جس نے سنا آنکھیں دکھ سے نم ہوئے بغیر نہ رہیں خود اندازہ کیجیے غازی صلاح الدین اور ڈاکٹر صادقہ پر کیا قیامت بیت گئی ہوگی۔
اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دنیا سے چلے جانے والوں کے لئے مغفرت اور لواحقین کو صبر جمیل کی دعائیں ان دعاؤں میں بہت ہی پیارے دوست انور اقبال کو کیسے بھول سکتا ہوں جو آج کل شدید علیل ہیں انتہائی محبت کرنے والا انسان بہترین دوست اور اپنے وقت کا جگمگاتا اسٹار، اللہ کا کرم ہو، دعائیں سب کے لئے۔