Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Afsar Shahi Aur Behaal Awam

Afsar Shahi Aur Behaal Awam

وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہزاد ارباب نے وزیراعظم کو وزارتوں کی کارگردگی سے متعلق رپور ٹ پیش کی ہے۔ وفاقی کابینہ کی جانب سے ستمبر2019میں وفاقی حکومت کیلئے پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم کی منظوری دی گئی تھی۔ اس کا بنیادی مقصد سمت کے تعین کے ساتھ ڈلیوری پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ وزیر اعظم اور متعلقہ وزیر کی جانب سے مالی سال کی سہ ماہی کیلئے اہداف مقرر کیے گئے تھے۔ پرفارمنس ایگریمنٹ کا دائرہ کار مکمل وفاقی حکومت تک پھیلانے سے پہلے ابتدائی طور پر اسے11وزارتوں پر آزمانے کا فیصلہ کیا گیا جس کا مقصد ماڈل سے متعلق سیکھنے اور اس میں مقاصد کے تحت بہتری لانے کیلئے تھا۔ پائلٹ پرفارمنس کنٹریکٹ کو مالی سال2019-20 کی تیسری اور چوتھی سہ ماہی کیلئے تیار کیا گیا۔ پائلٹ پرفارمنس کنٹریکٹ میں معاہدوں کی تیاری اور منظوری کے علاوہ سہ ماہی بنیادوں پر نظرثانی بھی شامل تھی۔ وزارتوں کے اہداف کی تکمیل اور سہ ماہی پیشرفت کے حوالے سے ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن کی زیر صدارت نظر ثانی کمیٹی قائم کی گئی۔ کمیٹی میں سیکرٹری فنانس، پلاننگ، کابینہ، اسٹیبلشمنٹ شامل تھے۔ ابتدائی طورپر وزارت صنعت، مواصلات، ہاؤسنگ اینڈ ورکس، آبی وسائل، ماحو لیاتی تبدیلی، خوراک، تعلیم، صحت، توانائی اور پیٹرولیم کی وزارتوں کو منتخب کیا گیا۔ پرفارمنس کنٹریکٹ پر عملدر آمد سے نتیجہ اخذ کیا گیا کہ کوئی وزارت تنہا طور پر ڈلیور نہیں کر سکتی۔ ایجنڈے کی تکمیل کے بجائے وزارتیں ڈویژن کے تعاون کے حوالے سے کوشاں رہتی ہیں۔ وزارتوں میں مستقبل کے ایجنڈو ں کی تیاری کے حوالے سے کوئی کلچر موجود نہیں۔ اہداف کے حوالے سے تیاری کی صورت میں بہتر طور پر خدمات انجام دی جا سکتی ہیں۔ تاہم وزیر اعظم کا وقت اور توجہ وزارتوں کو درپیش چیلنجز میں الجھنے کے بجائے پالیسی معاملات پر ہونی چاہیے۔

ملتان کی معروف کاروباری شخصیت، اور انسانیت کی خدمت کے لیے ہمہ وقت سرگرم عمل خواجہ مظہر نوازصدیقی نے پیغام بھیجا جو من وعن پیش کر رہاہوں :" گزشتہ چار ماہ میں جتنے تاجر تھانوں میں بند ہوئے، اتنے 72برس میں نہیں ہوئے ہوں گے۔ 37 تاجروں کو اب تک میں شخصی ضمانت پر تھانے سے لا چکا ہوں۔ یہ وزیر خارجہ کاشہر ہے۔ اور اسی شہر کے تاجر تھانوں اور عدالتوں کے چکر کاٹ کاٹ کر ہلکان ہو رہے ہیں۔ جو لوگ اچھل اچھل کر پی ٹی آئی کے ہر کام اور اقدام کو سراہتے ہیں۔ بغلیں بجاتے تھکتے نہیں، میرا ان سے سوال ہے کہ لاک ڈاؤن کے سبب تاجر برادری کیسے سروائیو کرے؟ ان کے گھر کا چولہا کون جلائے گا؟ مکان و دکان کا کرایہ دینا ہوتا ہے، بچوں کی تعلیمی فیسیں، بجلی، گیس، پانی، فون کے بل ادا کرنے ہیں۔ والدین اور بیوی بچوں کے لیے رزق کمانا ہے۔ علاج معالجہ کرانا ہے۔ بے چارے تاجر کو حکومت کی جانب سے کونسا ریلیف پیکج دیا گیا ہے۔ کیا تاجر گھر میں رہ کر افراد خانہ کو بھوکا مرنے دیں۔ ان کے سامنے مسائل کا انبار ہے، ـ جس کا کسی کے پاس کوئی حل نہیں۔ سرکاری ملازمین تو کام پر جائیں یا گھر میں رہیں، انہیں تنخواہ ملنی ہے لیکن تاجر کی دکان بند ہونے سے زندگی کا نظام رکتا ہے، بتائیے کیا یہ کوئی سازش تو نہیں؟ تاجر کمیونٹی کو حکومت سے با قاعدہ منصوبہ بندی سے بدظن تو نہیں کیا جا رہا۔ اس پر غور کرنے اور حل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ اس صورتحال میں تاجر کمیونٹی پس رہی ہے اور حکمرانوں کو بد دعائیں دے کر بھڑاس نکال رہی ہے"۔

مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کی چکی میں پستے افراد کی مدد کیلئے سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ اورمسلم ہینڈز سمیت چند فلاحی تنظیمیں انتہائی مؤثر کردار ادا کررہی ہیں مگر تمام قوانین کی پاسداری اور سیکورٹی کلیئرنس کے باوجود فلاحی تنظیموں کوافسرشاہی کی جانب سے بے پنا ہ مشکلات کا سامنا ہے، جس کا خمیازہ بے یارومدگار عوام بھگت رہے ہیں۔ سابق وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کی اصلاحات کے نتیجے میں بہت سی ایسی آرگنائزیشنز بند ہوئیں جو مختلف ایجنڈے پر کام کر رہی تھیں۔ 3600سے زائد آرگنائزیشن تھیں۔ اب تک صرف102 آرگنائزیشن کو منظور کیا گیا۔ 3سال کے بعد ہر آرگنائزیشن کو اقتصادی امور ڈویژن کے ساتھ کام کرنالازمی قرار دے دیا گیا۔ اس کا مقصد اداروں کی جانب سے گھپلے یا اپنے بندوں کو نوازنے کی صورت میں تمام مالی اعداد وشمار اقتصادی امور ڈویژن کے ذریعے وزارت داخلہ تک پہنچ سکتے ہیں۔ سکروٹنی کے تحت کہا گیا این اوسی ایک سال کے لیے جاری کیا جائے گا۔ کورونا میں غریب آدمی کی بدحالی پر آرگنائزیشنز کی جانب سے خط لکھا گیا کہ انہیں کام کیلئے این او سی جا ری کیا جائے۔ اس پر حماد اظہر کی جانب سے خصوصی پرمٹ جاری کیا گیا جس میں اداروں کو کام کرنے کی اجازت دی گئی، 102آرگنائزیشنز کو این او سی جاری کیا گیا۔ خیراتی ادارے فوری طور پر ڈونرز کو فنڈنگ کیلئے راضی نہیں کر سکتے اس کے باوجود بڑی تعداد میں لوگوں نے اداروں کا ساتھ دیا۔ آرگنائزیشنز کابین الاقوامی ڈونرز کے ساتھ رابطہ گزشتہ جون جولائی سے رکا ہوا ہے۔

آرگنائزیشنز وزارت داخلہ رولز کے مطابق کسی کو 10ہزار سے زائد کیش نہیں دے سکتیں اور نا ہی کسی خاندان پر مبنی مشن کو لے کر چل سکتی ہیں۔ کسی جان پہچان کے فرد کو ٹھیکہ نہیں دے سکتیں۔ آئی ایچ ایچ ترکی کی بہت بڑی تنظیم ہے جو 132ممالک میں کام کر رہی ہے۔ طیب اردوان کی سفارش پر آئی ایچ ایچ کو این او سی جاری کیا گیا ہے۔ سٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بغیر ایس او پیز کی وقعت کم ہو جاتی ہے۔ حکومت سے گزارش ہے اہم معاملات پر اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے۔ پاکستانی اقدامات کے باعث ملک میں غیر ملکی سٹاف میں کمی آئی ہے جو اچھا اقدام ہے۔ حکومت سے گزارش ہے کہ محب وطن اداروں کو سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ رہنمائی کی جائے۔ ان کی مشاورت کے بعد پالیسیوں پر عملدر آمد کیا جائے۔ ایک سال کے این او سی کا مقصد یہ ہے کہ ملنے والی فنڈنگ ایک سال سے زائد کے منصوبو ں کیلئے نہیں ہو گی اس کے باعث فنڈنگ پر بھی اثر پڑے گا۔