خطے کی تیزی سے کروٹ لیتی صورتحال اور عالمی چیلنجز کے باعث پاکستان کو درپیش خطرات نئی شکل اختیار کرتے چلے جارہے ہیں۔ انہی مسائل اور چیلنجز کے باعث سیاسی اور عسکری قیادت غیرمعمولی اجلاس میں سرجوڑ کر بیٹھے دکھائی دیتی ہے۔ ملک اور عوام دشمن عناصر جدید ٹیکنالوجی اور ففتھ جنریشن وار کے ذریعے پاکستان کا امن غارت کرنے کے درپے ہیں۔ دنیا کا ہر ملک ہر گزرتے منٹ کیساتھ ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے فرسود ہ سسٹم ختم کرکے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ملک وقوم کو محفوظ بنانے کی جانب گامزن ہے۔ کیا عصر حاضر میں گڈگورننس کا خواب جدید ٹیکنالوجی اور محفوظ ڈیٹا کے بغیر شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے؟
خاکسار نے 26نومبرکے کالم میں انتہائی تفصیل کے ساتھ شناخت کھونے کا کرب اور ملکی سکیورٹی کو درپیش خطرات کی نشاندہی کی تھی۔ اب وزارت داخلہ کی جانب سے کابینہ کمیٹی برائے قانون کے سامنے انکشاف کیا گیا ہے کہ ڈیٹا کے غیر منظم ذرائع قومی سلامتی اور لوگوں کی ذاتی زندگی کیلئے بڑا خطرہ ہیں۔ ملکی سیکورٹی کے پیش نظر قومی سلامتی کے ادارے نظام میں بہتری کیلئے اقدامات کرنے میں مصروف ہیں مگرسول اداروں نادرا، پی ٹی اے اور سٹیٹ بنک آف پاکستان کی جانب سے عوام کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے الٹ سمت میں سفر جاری ہے۔ بیڈ گورننس اور کرپشن کی داستانوں کے باعث سندھ حکومت ہر روز زیر عتاب رہتی ہے مگر آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ سندھ حکومت نے گھوسٹ اساتذہ سے نمٹنے کیلئے ایل ای ایس ٹیکنالوجی کا سہارا لے کر دو لاکھ سے زائد اساتذہ کی تصدیق کروائی۔ ایل ای ایس ٹیکنالوجی پر مبنی بائیو میٹرک سسٹم کو موبائل فون کیساتھ منسلک کرکے انتہائی آسانی سے تصدیق کا عمل مکمل کیا گیا جس کے نتیجے میں 40ہزار گھوسٹ اساتذہ پکڑے گئے۔ گھر بیٹھے ہرسال قومی خزانے پر کروڑوں روپے کا ڈاکہ ڈالنے والوں کو رخصت کردیا گیاہے۔ پاکستان پوسٹ 13لاکھ سے زائد ریٹائرڈ ملازمین کو سالانہ 15ارب روپے سے زائدپنشن تقسیم کرتا ہے۔ گھوسٹ پنشنرز کی وجہ سے قومی خزانے کو ہر سال بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے مگر پاکستان پوسٹ نے پی ٹی اے، نادرا، احساس کیش پروگرام اورسٹیٹ بنک آف پاکستان انتظامیہ طرح آنکھیں بند کرنے کے بجائے اس مسئلے کاڈھونڈنے کی پرخلوص کاوش کرتے ہوئے پہلے مرحلے میں 1ہزار200ایل ای ایس بائیومیٹرک سسٹم لگانے کا فیصلہ کرلیا ہے جس سے گھوسٹ پنشنرز اور عمررسیدہ افراد کے انگوٹھوں کی تصدیق نہ ہونے کا مسئلہ مستقل طور پر حل ہوجائے گا۔ پاکستان پوسٹ کی طرح ادارہ قومی بچت میں ہرسال بے ضابطگیوں کی خبریں سامنے آتی ہیں۔ ادارہ قومی بچت نے بھی اسکینڈلز سے بچنے اور عمر رسیدہ افراد کی تصدیق کیلئے بائیو میٹرک سسٹم نصب کرنے کا فیصلہ کیا۔ اطلاعات ہیں کہ ایک این جی او کے ذریعے 775 ڈیوائسزپائلٹ پراجیکٹ کے طو ر پر نصب کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے۔ این جی او کے پاس 10کروڑ روپے کا فنڈ ہے مگریہ سارا کام پرزم ٹیکنالوجی کی حامل بائیو میٹرک ڈیوائسز سے حل کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے جس سے فنگر پرنٹ چوری ہونے اور عمررسید ہ افراد کے انگوٹھوں کی تصدیق نہ ہونے کے مسائل سامنے آئیں گے۔ کوشش کی جارہی ہے کہ 10کروڑ روپے کے فنڈ سے 4کروڑ روپے کیبچت، کرکے سب کو خوش کیا جائے۔ ڈی جی قومی بچت اور وزارت خزانہ کو اس پرانی ٹیکنالوجی کے تنصیب کے ذریعے سائبر کرائم کے ماہرافراد کو مواقع فراہم کرنے والوں کا راستہ بروقت روکا جائے۔
وزارت داخلہ نے کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی کوآگاہ کیا ہے کہ سال2000میں تمام شہریوں کو رجسٹرڈ کرنے کیلئے نادرا کا قیام عمل میں لایا گیا۔ نادرا آرڈیننس2000 کے سیکشن10کے تحت نادرا کو شہریوں کو رجسٹرڈ کرنے کا اختیار حاصل ہے مگر نادرا آرڈیننس کے سیکشن 7 کے تحت نادرا کی جانب سے مختلف ڈیٹا بیس کو ایک مرکزی ڈیٹا بیس میں اکٹھا نہیں کیا جا سکا۔ بہتر گورننس کیلئے سرکاری اور غیر سرکاری ذرائع سے حاصل ہونے والے اعداد وشمار کو بہتر طور پر استعمال میں نہیں لا یا جا سکتا۔ نیشنل ڈیٹا ریپوزیٹوری ڈیٹا پروٹیکشن اینڈ شیئرنگ آف ڈیٹا کے قیام کیلئے وزیر اعظم آفس میں 7ستمبر2020کے اجلاس میں وزارت داخلہ کو وفاقی کابینہ کی منظوری کیلئے سمری تیار کرنے کی ہدایت کی گئی۔ کابینہ کمیٹی برائے قانون کو آگاہ کیا گیا کہ سرکاری اور غیر سرکاری سطح سے حاصل ہونے والے اعداد وشمار میں مطابقت اورذخیرہ کرنے کیلئے نیشنل ڈیٹا ریپوزیٹوری کا قیام ضروری ہے۔ نیشنل ڈیٹا ریپوزیٹوری وفاقی اور صوبائی اداروں سے مشاورت کے بعد اعداد وشمار فراہم کرنے والی سرکاری اور نجی ایجنسیوں کی شناخت اور ان سے رابطہ کرے گا۔ نیشنل ڈیٹا ریپوزیٹوری کی جانب سے نگرانی کے ذریعے حکومت او ر اس کے اداروں کے درمیان رابطہ کاری میں بہتری کے ساتھ ساتھ متضا د اعداد وشمار کو روکنے میں مدد اوراخراجات میں کمی لائی جا سکے گی۔ پائیدار ترقی اور منصوبہ بندی کیلئے وقت پر اعداو شمار تک رسائی اور اس کا تجزیہ کیا جاسکے گا۔ اعداد وشمار میں استحکام کے ذریعے انٹیلی جنس کے معیار میں بہتری لائی جا سکے گی۔ حکومتی اداروں اور سکیورٹی ایجنسیوں کی فیصلہ ساز ی کی قوت میں اضافہ ہو گا۔ اعداد و شمار کی حفاظت میں اضافے سے سٹریٹیجک اثاثوں کی سکیورٹی بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ کابینہ کمیٹی برائے قانون کی جانب سے وزارت داخلہ کی سفارشات کی مشروط طورپر منظوری دیدی گئی ہے۔
سویلین اداروں میں موجود الٹی گنگا بہانے والے افسران کی نشاندہی اور بازپرس سے ہی عصر حاضر کے ایک بڑے سکیورٹی چیلنج سے نمٹاجاسکتا ہے۔ ملک اور عوام دشمن عناصر کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کی ذمہ داری صرف عسکری اداروں پر نہیں بلکہ ہر ادارے پر عائد ہوتی ہے۔