بحرانوں سے دوچار وفاقی حکومت کیلئے ہمالیہ جیسے مسائل ٹلنے کا نام نہیں لے رہے۔ عجب اتفاق ہے کہ وزیراعظم جس شعبے میں بہتری کیلئے کوشش شروع کرتے ہیں، بحران سنگین اور معاملات بے قابو ہوجاتے ہیں۔ کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں سسٹم میں کوتاہوں اور غلطیوں کو برداشت کرنے کی بریدنگ سپیس ختم ہوچکی ہے۔ نیب مقدمات کا سامنا کرنے والی اپوزیشن، حکومت کے گرد گھیرا تنگ کرنے میں پیش قدمی کررہی ہے تو ایڈہاک ازم، ـاقربا پروری اورغلط منصوبہ بندی کے باعث نئے بحران سراٹھار ہے ہیں۔ معاشی سست روی اور تنگدستی کا سامنا کرنے والے عوام کیلئے آنے والے دنوں میں کہیں اچھی خبر دکھائی نہیں دے رہی۔ وزیراعظم مسلسل مافیازکے تعاقب میں ہیں مگر اس کے باوجود، د واہم شعبوں میں موجودمافیانے بڑا کھیل کھیلنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن کے گزشتہ کئی برس سے بدترین بحران سے دوچار تھی۔ حادثات جیسے پی آئی اے کا مقدر بن چکے تھے۔ ہر حادثے کے بعد انکوائری کمیٹی قائم کی جاتی مگرحتمی رپورٹ منظرعام پر آتی اور نہ ہی ذمہ داران کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی۔ پی آئی اے کو تباہی کے گرداب سے نکالنے کا بیڑا ائیرمارشل ارشد ملک نے اٹھایا۔ بے پناہ چیلنجز اور مشکلات آڑے آئیں لیکن بہتری کا سفر جاری رہا۔ پھر اچانک کراچی میں پی آئی اے طیارے کے کریشن ہونے کے اندوہناک واقعے نے سار ا منظربدل دیا۔
رپورٹ پبلک ہوئی اور وفاقی وزیر ایوی ایشن ڈویژن سرور خان کے پائلٹوں کے جعلی لائسنس سے متعلق بیان نے دنیا میں ہلچل مچادی۔ جعلی لائسنس کے اس کھیل میں سول ایوی ایشن اتھارٹی کا کردار بے نقاب ہوچکا۔ پائلٹوں کو گراؤنڈ کرنے کا سلسلہ جاری تھا کہ یورپی یونین نے پی آئی اے فلائٹس پر پابندی عائد کردی۔ صورت حال کا بغور جائزہ لیں تو اس تباہی کے پیچھے ایڈہاک ازم، ـاقرباپروری اوربدعنوانی کا ناسورملے گا۔ وزیراعظم ایڈہاک ازم اور اقرباپروری کو دفن کرنے کے ایجنڈے پر گامزن تھے مگر ایڈہاک ازم اوراقربا پروری کے ملکی تاریخ کے تمام ریکارڈ توڑتے دکھائی دے ر ہے ہیں۔ آپ حیران ہوں گے2017ء سے سول ایوی ایشن اتھارٹی کے مستقل ڈائریکٹر جنرل کا عہدہ خالی ہے۔ ایئر مارشل عاصم سلیمان سول ایوی ایشن اتھارٹی کے آخری ڈائریکٹر جنرل تھے۔ عاصم سلیمان نے ذاتی مفاد کے حامل افسران کے احتجاج کے باعث استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس کے بعد جوبھی وفاقی سیکرٹری ایوی ایشن ڈویژن تعینات ہوا تو ڈی جی کا عہدہ اپنے پاس رکھ لیا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ڈی جی سول ایوی ایشن کا عہدہ ناقابل یقین حدتک پرکشش ہے۔ سیکرٹری ایوی ایشن ڈویشن حسن ناصر جامی ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایشن اتھارٹی کے قائم مقام ڈی جی کا عہدہ سنبھالے ہوئے ہیں۔ اہم ڈائریکٹرز کی آسامیاں خالی ہیں اور ان آسامیوں پرجونیئر اور سینئر افسران، ڈبل چارج کے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ڈائریکٹر آپریشن کا عہدہ خالی ہے اور جونیئر افسر اس کے امور انجام دے رہا ہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایشن بطور قائم مقامی ڈائریکٹر ایئرپورٹ سروس کے عہدے پربراجمان ہیں۔
ڈائریکٹر ایچ آر کے عہدے پر جونیئر افسر کو چارج دیا گیا ہے۔ ڈائریکٹر ٹریننگ حیدر آباد کے امور جونیئر افسر کی جانب سے چلائے جا رہے ہیں۔ ڈائریکٹر ورکس کے عہدے پر جونیئر افسر براجمان ہے۔ ڈائریکٹر فلائٹ سٹینڈرڈ، ڈائریکٹر کمرشل، ڈائریکٹر ریگولیٹری، ڈائریکٹر سیفٹی کوالٹی، ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر سی این ایس کے عہدے خالی ہیں۔ ڈائریکٹر ایئر ٹرانسپورٹ پر ڈپیوٹیشن پر تعیناتی کی گئی ہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ریگولیٹری کے عہدے پر ریٹائرڈ پی اے ایف افسرتعینات ہے۔ سول ایئر کرافٹ کا کوئی ماہر بورڈ میں موجود نہیں۔ ڈی ڈی جی ریگولیٹری کے عہدے پر ڈپیوٹیشن پر تعیناتی کی گئی ہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل اے پی ایس ڈائریکٹر کوآرڈنیشن کے عہدے پر بھی براجمان ہیں۔ سول ایوی ایشن مینجمنٹ بورڈ نا مکمل ہے اور8میں سے صرف3ممبران موجود ہیں۔ سینئر ترین ڈائریکٹر وکرم سوڈا 3سال سے او ایس ڈی ہیں۔ یہ ہے وہ نوحہ جو، ایوی ایشن انڈسٹری کا ماتم کررہا ہے۔ وزیراعظم کو مشیر خزانہ حفیظ شیخ کی جانب سے پیش کی گئی ایک رپور ٹ کی کاپی میرے ہاتھ لگ گئی۔ رپورٹ پڑھی تو اوسان خطا ہوگئے مگر حفیظ شیخ چہرے پر مسکراہٹ سجائے ٹھنڈے کمرے میں نہ جانے کیسے سرکاری امور سرانجام دے رہے ہیں۔ حکومت کواپنے ہی اقدامات کی وجہ سے گندم کے ایک اور بحران کا سامناکرنا پڑگیا ہے، اوپن مارکیٹ میں گندم کی قیمت 2ہزار300روپے فی من سے تجاوز کرچکی ہے۔
15لاکھ میٹرک ٹن سے 20لاکھ میٹرک ٹن کے شارٹ فال اور حکومت کی جانب سے گندم ذخیرہ کرنے کی غرض سے کی گئی جارحانہ خریداری کے باعث مقامی مارکیٹ میں گندم کی دستیابی بری طرح سے متاثر ہوچکی ہے۔ حکومت قلت کے باوجودافغانستان کو گندم اسمگلنگ روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ منافع خور صورتحال کا ناجائز فائدہ اٹھار ہے ہیں جبکہ حفیظ شیخ 20لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کیلئے نجی شعبے پر تکیہ کئے بیٹھے ہیں۔ گندم بحران سے بچنے اور آٹے کی قیمت کو کنٹرول میں رکھنے کیلئے واحدحل فوری طور پر سرکاری سرپرستی میں کم ازکم 15لاکھ ٹن گندم درآمد کرنا ہے۔ ملک میں دودہائیوں سے جاری احتسابی عمل عروج پرہے۔ ایسے میں راجا پرویز اشرف رینٹل پاور اسکینڈل کے دوریفرنسز میں 6سال بعد بری ہوچکے ہیں۔ انسداد منشیات کی خصوصی عدالت کے جج سہیل ناصر نے ایفی ڈرین کیس میں مسلم لیگ ن کے رہنما حنیف عباسی اور اہل خانہ کے اثاثے منجمد کرنیکا اقدام کالعدم قراردیدیا ہے۔ وطن عزیر ہر گزرتے دن کیساتھ نئے بحران سے دوچار ہورہا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اندرونی وبیرونی محاذ پر درپیش چیلنجز اور بحران سے نمٹنے کیلئے فیصلوں پر نظرثانی کریں، غلطیوں اور کوتاہیوں کا مل کر ازالہ کریں ـ، اس سے قبل بہت دیر ہوجائے؟ ہمارا فریضہ نشاندہی کرنا ہے سوکئے جا رہے ہیں، بقول اسد رحمان:
اُس نے زنجیر مرے پاؤں میں دُہری کر دی
میں نے پوچھا تھا کہ دیوار سے آگے کیا ہے؟