اگر قوم میں ذرا سا سیاسی شعور ہوتا، معاشرتی رمق کی تھوڑی سی مقدار ہوتی، تاریخ کا ہلکا سا مطالعہ ہی ہوتا، حالات پر معمولی سی نگاہ بھی ہوتی، معاشیات کے علم کا ذرا سا احساس بھی ہوتا، بین الاقوامی تعلقات کے مضمون میں درک ہوتی اور اگر مذہب کی کتابوں اور سیاسی جماعتوں کے کردار کی ورق گردانی کی ہوتی تو آج ملک میں یومِ سیاہ منایا جا رہا ہوتا۔ نادرِ روزگار شیخ الاسلام علامہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا سیاست سے الگ ہونا ایک قومی اور بین الاقوامی المیہ ہے۔ اس پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔
آج موقع ہے کہ میں ببانگِ دہل کہہ ڈالوں تُف ہے ان پر جو اس جامع کمالات شخص کو پہچان نہ سکے۔ اس ملک کی سیاست، معیشت، معاشرت اور مذہب تمام شعبوں کی اصلاح کے لئے ان کے پاس سائنسی فارمولے تھے، انہیں موقع ملتا تو وہ اس ملک کو جنت نظیر بنا دیتے، اقوام عالم میں اس کی پہچان کرا دیتے، اپنے بے پناہ علم اور بے پایاں بصیرت سے وہ اس ملک میں ایسا انقلاب لے آتے کہ نگاہیں خیرہ ہو جاتیں، افسوس کہ ہم نے یہ موقع ضائع کر دیا اور وہ سیاست سے ہی ریٹائر ہو رہے ہیں۔ اب اس قوم کا مستقبل یقینی طور پر تاریک نظر آ رہا ہے۔
ہمارے ہر طرف آج جو گہرے اندھیرے چھائے ہیں، یہ ہمیشہ سے ایسے نہ تھے، دو تین بار ایسے مواقع آئے جب یہ اندھیرے چھٹنے کو تھے۔ ایک بار 2002ء میں جب لاہور کے غیور عوام نے شیخ الاسلام کو براہِ راست منتخب کر کے پارلیمان میں بھیجا، اگر ہماری قسمت میں کچھ اچھا لکھا ہوتا تو اس وقت ہم ظفر اللہ جمالی اور شوکت عزیز جیسے لوگوں کو آگے لانے کے بجائے ڈاکٹر طاہر القادری کو موقع دیتے مگر شومئی قسمت آمر جنرل پرویز مشرف لوگوں کو پہچاننے کا ملکہ نہیں رکھتے تھے۔ جنرل مشرف کی اس فاش غلطی نے ہمیں یہ دن دکھایا ہے کہ آج اس ملک کے سب سے ٹیلنٹڈ شخص کو سیاست سے ریٹائر ہونا پڑا ہے اور وہ بھی کسی عہدے پر آ کر ملک کی خدمت کئے بغیر۔ جنرل مشرف سے رہتی دنیا تک ان کی اس غلطی پر پوچھ گچھ ہوتی رہے گی اور اُس دنیا میں بھی انہیں لازماً اس حوالے سے سوالوں کا جواب دینا ہو گا۔
ایسا ہی شاندار موقع دوسری بار 2018ء کے انتخابات کے بعد آیا، عمران خان وزیراعظم بنے تو انہیں چاہئے تھا کہ اپنے سیاسی کزن ڈاکٹر طاہر القادری کو بلا کر صدرِ پاکستان بنا دیتے۔ خان صاحب کے دھرنے میں جس طرح ڈاکٹر طاہر القادری ثابت قدم رہے تھے اس کا کم از کم تقاضا یہ تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے تجربے، علم اور فلسفے سے فائدہ اٹھایا جاتا مگر افسوس کہ اس قوم کی قسمت میں یاوری نہیں لکھی تھی وگرنہ آج عمران خان کی حکومت نہ معاشی جھمیلوں میں گرفتار ہوتی اور نہ اس کو گورننس کا مسئلہ درپیش ہوتا۔ قبلہ ڈاکٹر صاحب معاشی مسائل کے حل پر کئی کتب کے مصنف ہیں، وہ چٹکی بجانے سے بھی کم عرصے میں ان گمبھیر مسائل کا حل نکال سکتے ہیں اور جہاں تک گورننس کا تعلق ہے تو اس کا بہترین ماڈل تو وہ بنا کر دکھا چکے ہیں، جس طرح دنیا میں منہاج القرآن کا نیٹ ورک ہے اگر اسی کی نقل میں گورننس ماڈل بن جائے تو پاکستان دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرے۔ صد افسوس کہ یہ موقع بھی ضائع کر دیا گیا۔
ایک تیسرے موقع کا ذکر نہ کرنا بھی تاریخی بددیانتی ہو گی۔ یہ وہ لمحہ تھا کہ جب صرف ایک دروازہ کھل جاتا تو پاکستان کے لئے خوش قسمتی کے دروازے کھل جاتے۔ یہ ذکر ہے اس تاریخی فروگزاشت کا، کہ جب نعمتِ غیر مترقبہ ہم پر اتر سکتی تھی مگر ہم نے وہ موقع بھی ضائع کر دیا۔ دھرنے عروج پر تھے، جنرل راحیل شریف نے عمران خان اور شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کو مذاکرات کے لئے بلایا۔ کاش جب ڈاکٹر طاہر القادری اور جنرل راحیل شریف کی کئی گھنٹوں طویل ملاقات ہو رہی تھی عین اسی وقت اقتدار کا دروازہ کھول دیا جاتا اور آج ہم ویرانے میں بھٹک نہ رہے ہوتے، پاکستان آج اپنی منزل کی طرف تیزی سے رواں دواں ہوتا۔
نقصان سراسر ہمارا ہے، ڈاکٹر طاہر القادری تو ہمہ جہت ہیں وہ دینی خدمات پر توجہ دے لیں گے، مذہبی سرگرمیاں بڑھا لیں گے، تفسیر و ترجمہ اور تنظیم پر وقت صرف کر لیں گے مگر ہمارا کیا بنے گا، ہمارے پاس سیاست میں ایک ہی عبقری شخصیت تھی ہم اچانک اس سے محروم ہو گئے، اب یہ خلا صدیوں پورا نہ ہو سکے گا۔
ڈاکٹر طاہر القادری تو اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو کر ہلکے پھلکے ہو گئے ہیں لیکن اب قوم کا وزن اٹھانے والا کون باقی بچا ہے؟ کوئی ایک بھی اُن جیسا نہیں۔ آج وہ ملک کے لیڈر ہوتے، صدر ہوتے یا وزیراعظم ہوتے تو کشمیر کے مسئلے پر ایسا زورِ خطابت دکھاتے، اپنے دلائل سے دنیا بھر کو قائل کرتے کہ کشمیر کی آزادی کی تحریک کو بے حد فائدہ پہنچتا۔ دہشت گردی کے خلاف ان کا موقف اتنا زوردار تھا کہ سی این این کو بھی انہیں کوریج دینا پڑی۔ ڈاکٹر طاہر القادری کو موقع ملتا تو وہ صنفی امتیاز کا مسئلہ بھی حل کر چکے ہوتے، ان کے اداروں میں مرد اور عورت شانہ بشانہ کام کرتے ہیں، وہاں خواتین بھی اتنی ہی متحرک ہیں جتنے مرد۔ شعبہ تعلیم کو تو وہ ایک ہی لمحے میں ٹھیک کر سکتے تھے کہ وہ خود ہزاروں اسکول، درجنوں کالجز اور یونیورسٹی خود چلاتے رہے ہیں۔ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب محترمہ بے نظیر بھٹو اور نوابزادہ نصر اللہ خان جیسے بڑے زعماء نے اپنے اتحاد، پاکستان عوامی اتحاد کا انہیں صدر بنا دیا تھا، گویا وہ پاکستان کی سیاست کے متفقہ لیڈر کا درجہ بھی ایک دہائی پہلے ہی حاصل کر چکے تھے۔ انہیں اقتدار میں نہ لانے سے ان کا تو کوئی نقصان نہیں ہوا، نقصان ملک و ملت کا بلکہ عالم اسلام ہوا ہے۔ ہم انقلاب کے دہانے پر تھے کہ ہمیں یہ بری خبر ملی ہے۔ اے لوگو! اب ہی جاگ جائو، ڈاکٹر طاہر القادری کے مقام و مرتبے کو پہچانو، جوق در جوق ان کے گھر جمع ہو کر ان کو منائو اور سیدھا انہیں اقتدار سونپو کہ ملک کے حالات بدلیں۔