کیا فرماتے ہیں علمائے دین و دنیا بیچ اس مسئلے کے؟ پہیہ سست سے سست ہو کر رکنے والا ہے نہ معیشت چلتی نظر آ رہی ہے اور نہ انتظامی ڈھانچہ روبہ عمل ہے۔ 2ب یعنی بزنس مین اور بیورو کریٹ جو پہلے کولہو کے بیل بنے معیشت اور انتظامیہ چلایا کرتے تھے اب وہ اَڑیل ٹٹو کی طرح آگے چلنے کو تیار ہی نہیں، دونوں حالات سے اس قدر تنگ ہیں کہ بزنس مین نے اپنا سرمایہ روک کر رکھ لیا ہے اور بیورو کریسی نے فیصلے اور دستخط کرنا بند کر دیئے ہیں یوں ایک خاموش احتجاج نے ملک کو معطل کر کے رکھ دیا ہے۔ 2الف یعنی اسٹیبلشمنٹ اور اسمبلی دونوں ریاست کو چلانا چاہتے ہیں لیکن بزنس مین اور بیورو کریٹ ضد کر کے بیٹھ گئے ہیں، ان کو چابک مار کر چلانے کی کوشش کی گئی مگر وہ ہلنے کو تیار نہیں ہوئے اب انہیں پچکار کر حرکت دینے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ معاشرے کہ یہ دو اہم ترین ٹٹو اڑیل ہو کر بیٹھ چکے ہیں اور فی الحال اٹھنے کو تیار ہی نہیں۔
سستی اور حبس کے اس موسم میں ایک بار پھر سے پنجاب کے بزکش وزیراعلیٰ کی تبدیلی کی افواہ پھیل رہی ہے۔ بزکش نے اپنے اراکین صوبائی اسمبلی کو بہت خوش کر رکھا ہے لیکن اگر اوپر سے سیٹی بج گئی تو پھر شیشے کا گھر ٹوٹنے میں دیر نہیں لگے گی۔ بڑے امیدوار اب بھی تین ہی ہیں میاں اسلم اقبال، عبدالعلیم خان اور شاہ محمود قریشی۔ پچھلی دفعہ لاٹری کسی اور گھوڑے کی نکل آئی تھی اب بھی بزکش کے بعد دیکھیں وفاق کا کوئی "سرکش" لایا جاتا ہے یا صوبے کا کوئی "اطاعت گزار" فیض پاتا ہے۔ دو نوجوان وفاقی وزیر بھی اس خدمت کے لئے اپنا نام پیش کر چکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ خانِ اعظم نے ماضی میں اپنا وزن مکمل طور پر بزکش کے پلڑے میں ڈال رکھا تھا، اب بھی ایسا ہی ہے لیکن سننے میں آ رہا ہے کہ اب خانِ اعظم کا اعتماد متزلزل ہو رہا ہے اور اگر بزکش کی کارکردگی میں بڑی تبدیلی نہ آئی تو پھر مخالف تختہ الٹنے کی کوششیں مزید تیز کر دیں گے۔ آئے روز خانِ اعظم کے کان بھرے جاتے ہیں، وہ پہلے دفاع کرتے تھے، پھر خاموشی سے سننے لگے اور آج کل کہہ رہے ہیں کہ غلطی ہو گئی ہے۔
چھوٹا بچہ اور ٹٹو، اڑیل ضدی ہوں اور پھر اوپر سے اپنی ضد پر ڈٹ جائیں تو اس کا حل ایک ہی ہوتا ہے کہ والدین اور سائیس ان کی ضد مان کر انہیں راضی کر لیں۔ اسی فارمولے کے تحت بزنس مین اور بیورو کریٹس کے حوالے سے نیب کو ہدایات دی جا رہی ہیں اور نیب قوانین میں ترامیم کا بھی سوچا جا رہا ہے۔ دوسری طرف اڑیل ٹٹو پر بظاہر ان اقدامات کا اثر نہیں ہو رہا اگر دسمبر تک یہ 2ب راضی نہ ہوئے تو پھر بڑی تبدیلی کی بات شروع ہو جائے گی۔ معاشی اور انتظامی بحران کو 2الف اکیلے حل نہیں کر سکتے۔ نفسیاتی تجزیے سے محسوس ہوتا ہے کہ 2ب کا خانِ اعظم پر اعتماد متزلزل ہے اور خان بھی اسے بحال کرنے کے لئے کوئی بڑی کوشش کرتے نظر نہیں آ رہے۔ اگر 2ب اور خانِ اعظم کا خلاء یونہی بڑھتا رہا تو پھر پارلیمان کے اندر چہرہ تبدیل کرنے کی تحریک کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ اسی کے لئے شاہ محمود قریشی کی سرگرمیوں کو غور سے دیکھنا ہوگا۔ وہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو ساتھ ملا کر چل رہے ہیں حتیٰ کہ ہندو اور عیسائی کمیونٹی سے بھی رشتے استوار کر رہے ہیں، اپنی ساکھ اور کارکردگی کی 2الف سے مسلسل داد بھی وصول کر رہے ہیں، گویا کچھ تبدیل ہوا تو شاہ محمود قریشی اپنے پرکھوں کی طرح شیخ الاسلام کا عہدہ پا سکیں یا نہ پا سکیں مگر شیخ الباکستان کے عہدہ کے اہل ضرور قرار پائیں گے۔
فطرت حبس کو زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھتی، کہیں نہ کہیں سے ہوا کا جھونکا آ کر موسم تبدیل کر دیتا ہے، حبس اور گرمی بہت بڑھ جائیں تو بادل اس زور سے برستے ہیں کہ سب کچھ جل تھل ہو کر رہ جاتا ہے۔ 2ب کے اڑیل ٹٹو چلنے کو تیار نہیں، 2الف چلانا چاہتے ہیں اگر با الفرض 2الف اور 2ب اکٹھے نہ چلے تو پھر نہ چاہتے ہوئے بھی 2ب کیلئے راستہ نکالنا پڑے گا۔
یہ راستہ افسوسناک ہے، اس سے خانِ اعظم کے نوجوان پرستاروں اور بیرون ملک موجود دلاروں کو تکلیف ہو گی۔ وہ جمہوری نظام اور ریاست پاکستان سے مایوس ہوں گے مگر یہ بھی تو سوچنا ہے کہ معاشی پہیہ نہ چلا، باہر سے ہن برسا نہ بیرون ملک پاکستانیوں نے سرمایہ کاری کی۔ نہ پی آئی اے اور نہ ہی اسٹیل ملز کو چلانے کے لئے بیرون ملک آباد پاکستانی پروفیشنلز میں سے کوئی آگے آیا ہے۔ معاشی اصلاحات ضرور ہوئی ہیں، ان کے نتائج کیا ہوں گے ابھی ان کا انتظار ہے لیکن اکتوبر میں جب نئے ٹیکس سال کا آغاز ہو گا تو تاجروں اور صنعت کاروں کی چیخیں اور بڑھ جائیں گی اور اگر مہنگائی نہ رکی تو تنخواہ دار طبقات کی آواز بھی ان میں شامل ہوتی جائے گی۔ خانِ اعظم کے حمایتی انصافی جیالوں کی طرح اپنی پارٹی کے اندھے وفادار بن چکے ہیں اور ہر معترض کے اعتراض کی اینٹ کا جواب جذبات کے پتھر سے دیتے ہیں مگر افسوس معیشت کے جذبات نہیں ہوتے، بزنس مین اور بیورو کریٹ غیر جذباتی ہوتے ہیں، وہ صرف اعدادوشمار دیکھتے ہیں، جو مایوس کن ہیں۔