دنیا کی تحریری تاریخ میں جس پہلی جنگ کی حقیقی، تمثیلی اور دیومالائی کہانیاں تفصیل سے ملتی ہیں وہ "ٹروجن جنگ" ہے۔ اِسی جنگ کے حوالے سے مقولہ مشہور ہے کہ "مجھے یونانیوں سے خاص طور پر اُس وقت ڈر لگتا ہے جب وہ کوئی تحفہ دیں"۔ جب سے ہمیں گھگو گھوڑے کا تحفہ ملا ہے، اُس وقت سے ہی بے چینی، خوف اور غیر متوقع صورتحال کا سامنا ہے۔ گھگو گھوڑا نگرنگر گھومنے والے خانہ بدوش بناتے ہیں۔ مقامی روایات کا حامل یہ گھگو گھوڑا پرانے کاغذ اور سرکنڈے کے ٹکڑوں سے بنتا ہے۔ جب پرانے کاغذ کو رنگ دے کر گھوڑا بنایا جاتا ہے تو اُس کے رنگوں کی بہار اور شان و شوکت قابل دید ہوتی ہے۔
گھگو گھوڑا نہ چل سکتا ہے، نہ بول سکتا ہے اور نہ ہی سوچ سکتا ہے۔ خانہ بدوشوں کی مرضی ہے کہ وہ اِس گھوڑے میں کیا رنگ بھرتے ہیں اور وہ لوگوں کو کیسا نظر آتا ہے۔ ہمارے ثقافتی ماہرین گھگو گھوڑے کو "ثقافتی علامت" قرار دیتے ہیں۔ یہ اس خطے کی صدیوں کی صناعی، سوچ اور روایتوں سے بھرپور استعارہ ہے۔ آج کا گھگو گھوڑا بھی انتہائی تراش خراش سے بنایا گیا ہے۔ اُس میں مڈل کلاس کی پسندیدگی کے سارے رنگ شامل کئے گئے ہیں۔ اِس گھوڑے کی تاریخ میں بیان کیا جاتا ہے کہ یہ کئی میچ جیت کر ملک و قوم کا سر فخر سے بلند کر چکا ہے۔ اِسی لئے جب اِس گھگو گھوڑے کو میدان میں اتارا گیا تو ہر طرف سے واہ واہ کے ڈونگرے برسے، خریدار بھی بہت ہیں مگر گھگو گھوڑا بت کی طرح خاموش، کاٹھ کے گھوڑے کی طرح بے حس وبے حرکت اور ڈونکی راجہ کی طرح ماورائے عقل ہے۔ وہ صرف لگام کے ذریعے چل سکتا ہے، جدھر کو لگام کھینچی جائے وہ اُدھر چل پڑتا ہے اور جدھر جانے سے روکا جائے، گھگو گھوڑا فوراًرک جاتا ہے۔
گھگو گھوڑا بنانے والے اپنا سارا زور اُس کی ظاہری بناوٹ پر لگاتے ہیں، اُسے ایسا خوشنما بناتے ہیں کہ وہ دِلوں کو بھاتا ہے لیکن گھگو گھوڑے کے اندر بھوسہ اور پرانا کاغذ ڈال دیتے ہیں۔ اگر کوئی گھگو گھوڑے کے اندر دیکھ لے تو وہ اُس کی ظاہری آب وتاب کے باوجود اُس کے قریب تک نہ پھٹکے، مگر گھگو گھوڑے کو کسی کے اتنا قریب جانے ہی نہیں دیا جاتا کہ کوئی اُس کے اندر جھانک سکے۔ ظاہری شو شا سے ہی اُسے قابل، بہادر اور محنتی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اُس کی بے وقوفیوں، نالائقیوں اور غلطیوں پر کسی کی نظر جانے ہی نہیں دی جاتی، تاآنکہ وہ امتحان میں اتر کر ناکام ہوتا ہے۔
گزشتہ 70برس میں گھگو گھوڑوں کے نئے نئے تجربے کئے گئے۔ گھگو گھوڑوں کو ہمیشہ مقامی مٹیریل سے تیار کیا جاتا ہے تاکہ اُن میں مٹی کی محبت اور وفاداری کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہو۔ گھگو گھوڑے اِسی لئے دوسروں کی حب الوطنی پر شک کرتے رہتے ہیں۔ گھگو گھوڑے کی تیاری میں جو خاص سرکنڈا استعمال کیا جاتا ہے اُس میں لچک رکھی جاتی ہے تاکہ جب جی چاہے اُسے جھکا لیا جائے، اُس کی ٹیم میں تبدیلی کردی جائے یا کہ اُسے اُس کے بنیادی نظریات ہی سے توبہ کروا دی جائے۔ پہلا گھگو گھوڑا اسکندر مرزا تھا، خاندانی طور پر میرجعفر آف بنگال سے تعلق رکھتا تھا۔ سراج الدولہ کے خلاف انگریزوں سے مل کر سازش کی اور پھر قبائلی علاقوں کے جھگڑوں اور سازشوں سے نمٹتے نمٹتے گھگو گھوڑے سے اصلی گھوڑا بننے کی کوشش کی۔ لگام موڑنے پر پاکستان کے پہلے متفقہ آئین کو منسوخ کردیا حالانکہ وہ اُسی کے باعث صدر بنا تھا۔ بس اُس کے بعد کیا تھا، دس ہی دنوں میں گھگو گھوڑے کو ایسا کھینچا گیا کہ لاش ہی جلاوطنی کے بعد واپس آئی اور وہ بھی ایران میں، جہاں اُسے اُس کی وصیت کے مطابق ریاستی پروٹوکول کے ساتھ دفنایا گیا۔ یہ گھگو گھوڑا وقت پر کام آیا، کام نکل گیا تو اُسے دیس نکالا دے دیا گیا۔
اسکندر مرزا کے تجربے سے بہت سیکھا گیا، وہ چونکہ بہت چالاک اور عیار تھا، چنانچہ گھگو گھوڑے بنانے کے مسالے سے عقل اور عیاری نکال لی گئی۔ لیبارٹری تجربات کرتے کرتے قوم کے محسنِ عظیم اور عالمِ اسلام کے ہیرو جناب ضیاءالحق کا زمانہ آگیا۔ اُنہیں گھگو گھوڑے بہت ہی اچھے لگتے تھے، اُن کی خواہش تھی کہ وہ ہر وقت گھگو گھوڑوں میں گھرے رہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ ایسے گھگو گھوڑے اقتدار میں لائیں جو اسکندر مرزا کی طرح چالاک نہ ہوں بلکہ مالک کی مرضی سے چلیں۔ اندرون سندھ سے محمد خان جونیجو اُنہیں ایسا بندہ نظر آیا جو مسکین اور شریف تھا۔ ضیاء الحق نے فخریہ انداز میں یہ گھگو گھوڑا وزیراعظم بنوا دیا مگر جناب ضیاءالحق اُس وقت حیران ہو گئے جب اُنہیں پتہ چلا کہ یہ گھگو گھوڑا پر پُرزے نکال رہا ہے پھر یہی مسکین گھوڑا چیلنج بن گیا اور اُسے نکالنے کے سوا کوئی راستہ نہ رہا۔
نواز شریف بھی انداز واطوار سے شروع شروع میں گھگو گھوڑا لگتا تھا۔ کم بولنا، زیادہ سننا اور ہاں میں ہاں ملانا۔ یہ ساری خوبیاں اُن میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ گھوڑا سازوں کو معصوم شکل سے دھوکا ہوا، اُنہوں نے بیس سال اپنا وزن اُسی کے پلڑے میں ڈالے رکھا لیکن 1999 میں جب اُسے نکالنے کی کوشش کی گئی تو وہ اپنے اگلے سموں پر کھڑا ہو گیا۔ گھوڑا ساز پریشان تھے، مسالا بھی ٹھیک تھا، 20 سال کا آزمودہ تھا پھر آخر ایسا کیوں ہوا؟ خیر اُس تجربے نے بہت کچھ مزید سکھا دیا اور طے کیا گیا کہ جس طرح گھگو گھوڑے کو بناتے وقت ردی کاغذ اور بھوسے کا استعمال کیا جاتا ہے، اُسی طرح اُس کی ٹیم بھی اُسی مٹیریل سے تیار کی جائے کیونکہ ٹیم کے مشورے ہی گھگو گھوڑے کے بت کو زندہ کر دیتے ہیں اور وہ اپنی اگلی ٹانگوں پر کھڑا ہو جاتا ہے۔
بس گھگو گھوڑے کی تازہ پیشکش ماضی کی ساری خرابیوں سے مبرا ہے، خوبصورت ہے، حسین ہے، دلکش ہے، اُسے انتہائی دلآویز رنگوں سے بنایا گیا ہے۔ نئے برانڈ کو خوبصورت بنانے کے لئے 1992 کے کئی میڈل بھی بطور آرائش لگا دیئے گئے ہیں، جس سے اُس گھگو گھوڑے کی وجاہت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ اسکندر مرزا، جونیجو اور نواز شریف کی افزائش کے وقت گھگو فیکٹری میں عقل ماپنے کا آلہ نصب نہیں ہوا تھا، اِس لئے صرف اُن کے چہروں سے اندازہ لگا لیا گیا کہ اِس طرح کی کوئی خطرناک اور باغیانہ چیز کہیں اُن میں موجود تو نہیں۔ ماضی میں مشین نہ ہونے کی وجہ سے کئی غلط گھگو گھوڑے بن گئے تھے مگر اب تو مشین یہ یقینی بناتی ہے کہ گھگو گھوڑے میں نہ تو باغیانہ جین ہوں اور نہ عقل کا خانہ۔ اگر تھوڑی بہت عقل نظر بھی آئے تو اُسے لانگ کورس کے ذریعے نئے ورلڈ آرڈر کا سوپ پلا دیا جاتا ہے۔ اِس سوپ سے جرمنی اور جاپان ہمسائے بن جاتے ہیں، یوٹرن اچھی سیاست کا نشان نظر آتے ہیں، اسد عمر وزیر ہو تو سب سے قابل ہوتا ہے نکالنا ہو تو وہ پاکستان کے حق میں فائدہ مند نہیں رہتا۔ تازہ ماڈل کا گھگو گھوڑا ماضی کے تمام ماڈلوں کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ ہمارے ہاں یہ صنعت اِسی طرح ترقی کرتی رہی تو امید ہے کہ ہم اِنہیں برآمد کرنے کے بھی قابل ہو جائیں گے، اگر ایسا ہوا تو بے شمار فارن ایکسچینج بھی آئے گا۔
نوٹ:گھگو گھوڑا ایک غیر سیاسی مضمون ہے، کسی شخص سے مشابہت غیرحقیقی ہو گی۔