عالم بالا سے
پٹریاٹ چوک
مائی ڈیئر صدر مشرف!
السلام علیکم۔ مجھے کل ہی پتا چلا کہ آپ کی صحت خراب ہے، ہاتھوں میں رعشہ آ چکا ہے اور آپ مکمل طور پر ڈاکٹروں کی نگرانی میں ہیں، آپ کی بیماری بھی وہ ہے جو لاکھوں میں سے صرف کسی ایک کو ہوتی ہے اور اس کا علاج بھی دنیا میں موجود نہیں۔ مجھے یہ بھی معلوم پڑا ہے کہ آپ دوبئی کے آرام دہ ماحول میں علاج کروا رہے ہیں، خدا کرے آپ کو جلد صحت کاملہ عطا ہو۔ آج ضیاء الحق، یحییٰ خان اور حمید گل میرے پاس آئے ہوئے تھے، وہ بھی سب آپ کے لئے دعاگو تھے۔
ڈیئر صدر مشرف!
آج میرے آپ سے مخاطب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کو پاکستان واپس لوٹنے کا مشورہ دوں کیونکہ عالم بالا میں موجود سیاستدان ہمیں طعنے پہ طعنہ دے رہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ مشرف سب سے پہلے پاکستان کے نعرے لگاتا تھا، کل کو اسے دفن ہونے کے لئے تو پاکستان آنا ہی پڑے گا، زندہ آئے تو تب اسے بہادر جانیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کرپٹ اور غدار زرداری اور نااہل نواز شریف نے عدالتوں کا سامنا کیا اور اب پاکستان کی جیلوں میں سزائیں کاٹ رہے ہیں۔ صدر مشرف کیسے پاکستان سے محبت کرنے والے ہیں کہ جب اقتدار میں تھے تو ملک کے نعرے لگاتے تھے اقتدار سے باہر ہوئے ہیں تو ملک ہی واپس نہیں آتے کہ کہیں عدالتوں کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے۔ عالم بالا والے اعتراض کرتے ہیں کہ صدر مشرف "پاکستان فرسٹ" کے نعرے کی توہین کر رہے ہیں۔
عالم بالا میں آنے والے آپ کے کئی دوستوں نے مجھے بتایا ہے کہ آپ انتہائی اچھے انسان ہیں، آرٹس اور موسیقی سے آپ کا خاص لگائو ہے اور یہ بھی کہ آپ اپنے خاندانی رسوم و رواج کے تحت رکھ رکھائو کے قائل ہیں، آپ نے میری غلطی نہیں دہرائی اور اپنی اولاد کو اقتدار کے سائے سے دور رکھا۔ میرا بیٹا گوہر ایوب گوہر قابل تھا مگر مخالفوں نے اسے بدنام کر دیا اب میرا پوتا عمر ایوب اچھا کام کر رہا ہے۔ مجھے علم ہے کہ اس نے آپ کے ساتھ بھی کام کیا ہے، وہ بھی آپ کی بہت تعریفیں کرتا ہے، بہرحال آپ نے اپنی اولاد کو سیاست سے دور رکھا جس کی عالم بالا میں بھی تعریف ہوتی ہے۔
ڈیئر صدر مشرف!
عالم بالا میں انصاف کے پیمانے بڑے شفاف اور سخت ہیں، یہاں قانون ہر ایک کے لئے برابر ہے، یہاں کوئی منصف ناانصافی کرنے یا رُو رعایت کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ اگر کوئی ایسا کرے تو اس پر قہر خداوندی نازل ہو جاتا ہے اس لئے جب ہم پاکستانی آئین اور قانون کو دیکھتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ آپ پاکستان واپس نہ جا کر آئین، قانون اور عدالتوں کی توہین کر رہے ہیں۔ عالم بالا میں ہمیں آپ کے پاکستان واپس نہ لوٹنے پر بہت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسی لئے آج آپ کو خط لکھ رہا ہوں۔ آپ کو شاید علم ہو گا کہ میں نے اپنی زندگی کے آخری دن اسلام آباد اور آبائی گائوں ریحانہ میں ہی گزارے، کہیں باہر نہیں گیا، کہیں فرار نہیں ہوا اسی وجہ سے میری ملک میں آج بھی عزت ہے۔ بیٹے، بھتیجے، پوتے آج بھی الیکشن جیتتے ہیں، آپ اگر واپس پاکستان نہ گئے تو سیاسی تاریخ میں آپ کا نام سیاہ حروف میں لکھا جائے گا اور عالم بالا میں ہم بھی شرمسار ہوتے رہیں گے۔ کل ہی سرراہ میری سابق صدر چوہدری فضل الٰہی سے ملاقات ہوئی، طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے آپ کا حال پوچھا اور یہ بھی کہا کہ سب سے بڑا محب وطن، ملک واپس جا نہیں رہا اور غدار جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ چوہدری فضل الٰہی بڑے باوقار ہیں مگر مجھے سنجیدہ لہجے میں کہنے لگے اگر صدر مشرف واپس نہ گیا تو آئندہ حب الوطنی کا دعویٰ کرنے والے نجات دہندوں کو لوگ طالع آزما ہی سمجھا کریں گے۔
ڈیئر صدر!
تبدیلی حکومت کے پہلے چھ ماہ عالم بالا میں بڑی خوشیاں منائی گئیں، خان کے حامی سینہ تان کر چلتے رہے اور نونی سرجھکا کر گزر جاتے تھے مگر اب صورتحال تبدیل ہو گئی ہے۔ کل تو حد ہی ہو گئی، میاں محمد شریف، اپنے بیٹے عباس اور بہو کلثوم نواز کو لے کر قائداعظم محمد علی جناح کے ایوان میں پہنچ گئے اور کہا کہ ان کے پوتے حمزہ، عبدالعزیز اور ان کی پوتی مریم گرفتار ہیں جبکہ عدالتوں کو مطلوب صدر مشرف نہ واپس آ رہے ہیں اور نہ ان کو واپس لانے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی جا رہی ہے۔ ابھی یہ واویلا جاری تھا کہ اچانک ذوالفقار علی بھٹو نے قائداعظم کو جھک کر سلام کیا اور شستہ انگریزی میں جذباتی تقریر شروع کر دی جس کا لب لباب یہ تھا کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے، ان کے بیمار داماد آصف زرداری کو اسپتال میں رکھنے کے بجائے جیل بھیج دیا گیا ہے۔ بھٹو نے بھی یہی دہائی دی کہ پرویز مشرف کی بیماری کا علاج تو دوبئی میں ہو رہا ہے اور میرے داماد کا علاج ہونے نہیں دیا جا رہا۔ کلثوم نواز نے اپنے میاں کی بیماریوں کی فہرست پیش کر دی۔ قائداعظم نے مجھے فون کر کے کہا کہ غیر سیاسی مداخلت کی جو روایت تم نے شروع کی تھی مشرف نے اسی کا فائدہ اٹھایا اور اب وہ پاکستانی عدلیہ اور انتظامیہ کا منہ چڑاتے ہوئے واپس نہیں جا رہا۔ انہوں نے مجھے ہدایت کی کہ میں تمہیں فوراً خط لکھ کر یہ سمجھائوں کہ فوراً واپس جائو اور جا کر عدالتوں کا سامنا کرو۔
مائی ڈیئر سن!
اگر تمہاری جگہ گوہر ایوب ہوتا تو میں اسے بھی یہی مشورہ دیتا۔ آخرکار تم کو خاکِ وطن میں ہی لوٹنا ہے، وہیں دفن ہونا ہے، وہیں تمہاری عزت یا بے عزتی کی اہمیت ہے، بیرون ملک تمہاری لاش کو کوئی کندھا دینے والا بھی نہیں ہو گا۔ تم کمانڈو ہو، بہادری سے اور اکڑ کر واپس جائو، عدالتوں کا سامنا کرو۔ اگر تم واپس نہ گئے تو ہماری بہت بے عزتی ہو گی۔
تمہارا خیر خواہ
صدر ایوب خان