پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ اس کے باوجود ہم دالیں کپاس، گندم اور سیڈ، وغیرہ بھی دوسرے ممالک سے امپورٹ کررہے ہیں۔ آج سے 70سال پہلے جب پاکستان آزاد ہواتو اس وقت زراعت کی خصوصیات کے حامل 17اضلاع پاکستان اور 13اضلاع انڈیا کے حصے میں آئے۔ انڈیا میں موجود 13زرعی اضلاع اپنے ملک کو فیڈ کررہے ہیں۔ ہمارے ملک میں بدقسمتی سے زراعت آنے والی حکومتوں کی ترجیحات میں نہیں رہی۔ دنیا زراعت کے شعبے میں ریسرچ پر خطیر رقم خرچ کرتی ہے۔ اس حوالے سے انڈیا اپنے جی ڈی پی کا 0.4فی صد زراعت کی ریسرچ پر خرچ کرتا ہے۔ چائنا0.5فی صدخرچ کررہا ہے۔ برازیل ریسرچ پر 1.7%فی صد خرچ کرتا ہے۔ جبکہ پاکستان اپنی جی ڈی پی کا 0.1فی صد خرچ کرتا ہے۔ جو ممالک زرعی ریسرچ کے شعبے میں خرچ کررہے ہیں وہ اس میں ترقی میں بہت آگے ہیں۔
سب سے خوش آئند بات ہے۔ موجودہ وقت گندم کی بوائی کا سیز ن ہے۔ اس حوالے سے اسلامیہ یونیورسٹی بہاو ل پور میں کسان کنونشن منعقد ہوا۔ جس کا سہرا وائس چانسلر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کو جاتا ہے۔ جس کے مہمان خصوصی وفاقی وزیر فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ فخر امام تھے۔ سکریٹری سائوتھ پنجاب ثاقب علی، وائس چانسلر نواز شریف یونیورسٹی ملتان پروفیسر ڈاکٹر آصف علی، کاٹن سائنس دان اقبال بندیشہ شریک ہوئے۔ زرعی ماہرین، تحقیق کار اور سٹیک ہولڈرز کے علاوہ پرائیویٹ سیکٹر کے افراد ممبر آف کامرس اور فارمرز نے بھی شرکت کی۔ جس میں گندم اور کپاس کی فصلات کی فی من پیداوار میں اضافے پر مختلف تجاویز دی گئیں۔ اور زراعت کے حوالے سے حکومتی حکمت عملی واضح کی گئی۔
کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ فخر امام نے کہا کہ ملک میں زراعت کے شعبے کی ترقی حکومت کی ترجیح ہے۔ اس کے لیئے یونیورسٹیا ں تحقیق کے میدان میں کام کرکے اپنا حصہ ڈال سکتی ہیں۔ ہمارا اصل چیلنج کاشت کار کو ہائیبرڈ بیجوں تک رسائی فراہم کرنا ہے۔ جس طرح مکئی کی ہائیبرڈ بیجوں سے پیداوار میں دوگنا اضافہ ہوا۔ اور دھان کی فصل میں ہائیبرڈ بیج کی مدد سے 125من پیداوار ممکن ہوئی۔ اس وقت پاکستان اڑھائی ارب ڈالر کاباسمتی چاول امپورٹ کررہا ہے۔ جس کے لیئے ہائیبرڈ بیج ترقی یافتہ ممالک اور ملٹی نیشنل کمپنیوں سے حاصل ہوتے ہیں۔ دوسرا چیلنج غیر معمولی موسمیاتی تبدیلیاں ہیں۔ جس کے لئے وزیر اعظم عمران خان زیادہ سے زیادہ درخت لگانے اور جنگلات کا رقبہ بڑھانے پر پوری توجہ دے رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں 4سے 5فی صد جنگلات ہیں۔ برطانیہ میں 30فی صد جنگلات، جرمنی میں 55فی صد جنگلات ہیں۔ دیگر ممالک میں جنگلات کا مجموعی رقبہ پاکستان سے بہت زیادہ ہے۔ کوشش کی جائے کہ ہر پاکستانی ہربشر ایک شجر کی مہم میں بڑھ چرھ کر حصہ لے۔ وفاقی وزیر فخر امام نے مزید کہا کہ ہمارے پاس آج وزیر اعظم عمران خان کی قیادت موجود ہے۔ ان کی حکومت زراعت کی ترقی کے لیئے بہترین اقداما ت کررہی ہے۔
پاکستان میں ہرسال 50لاکھ آبادی کا اضافہ ہورہا ہے۔ جب 70سال پہلے پاکستان بناتھا تو 3کروڑ آبادی تھی اب7گنا آبادی بڑھ چکی ہے۔ 22کروڑ کی آبادی کے ملک کو گندم میں خود کفیل کرنے کے لیئے ہمیں موثر حکمت عملی اپنانی ہو گی۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہر سال زرعی رقبے پر اس کے سیزن میں ماہ نومبر میں گندم 90فی صد کاشت ہوجانی چاہئے۔ اس سلسلے میں زمیندار کو قائل کریں کہ وہ نومبر کے مہینے میں گندم کاشت کرنے سے فی ایکڑ 5من پیداوار کا اضافہ کرسکتے ہیں۔ دوسرا گندم کاشت کریں تو 2بوری ڈی اے بی اور ایک بوری ایس اوپی ضرور ڈالیں۔ اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔ اسی طرح پہلا پانی بھی ٹائم پر لگایا جائے۔ نومبر میں گندم کاشت ہونے سے ریسٹ کی بیماری کا حملہ ہونے کے چانسز بھی کم ہوجاتے ہیں۔ پنجاب میں فی ایکڑ 31من گندم کی پیداوار حاصل کی جاتی ہے۔ اگر ایک من پیداوار کا اضافہ ہوتا ہے۔ مطلب 7لاکھ ٹن کا اضافہ ہوتا ہے۔ اگر 5من گندم کی پیداوار میں اضافہ ہوتو 35لاکھ ٹن گندم میں اضافہ ہوگا۔ اس لحاظ سے یہ بہت بڑا بریک تھرو ہوگا۔ زراعت میں خود کفالت کے لیئے کاشت کاروں کے لیئے اصل چیلنچ ہائیبرڈ بیجوں کا ہے۔ یہاں پر پاکستانی سیاستدانوں کو ہائیبرڈ بیجوں کی ورائٹی پر کام کرنا ہوگا تاکہ ہم یہ بیچ امپورٹ کرنے کی بجائے ایکسپورٹ کریں جس سے ملکی زرمبادلہ میں اصافہ بھی ہو گا اور زراعت میں خودکفیل بھی ہو نگے۔۔
کاٹن کمشنر ڈاکٹر عبداللہ نے کہا کہ پاکستان میں 32 لاکھ ہیکٹر پر کپاس پچھلے دس سالوں میں کم ہوتے ہوتے 24لاکھ ہیکٹر پر آگئی ہے۔ کپاس کی پیدوار میں اس قدر کمی کی وجہ یہ ہے کہ زمیندار اپنی مرضی سے فصل کاشت کرتاہے۔ اور وہ وہی فصل کاشت کرتاہے۔ جس میں اس کو زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ ملتان، وہاڑی میں کپاس کی 12سے 15من کاشت ہوتی رہی ہے۔ بد قسمتی سے اب یہ پیداوار 6سے 7من ایکڑ رہ گئی ہے۔ کاٹن سائنسدان نایاب اقبال نے ایک بہت بڑا بریک تھرو دیا جس کے نتیجے میں کپاس کی پیدوار 12.8ملین بیل تک پہنچ گئی۔ پوری دنیا حیران ہوگئی تھی کس طریقے سے یہ ممکن
ہوا۔ وقت کے ساتھ کپاس 7.4 بیل سے ہوتے ہوتے 4.2پر آگئی ہے۔ خوش قسمتی سے بہاول پور کے فخر سائنس دان اقبال بندیشہ نے کپاس کی زیادہ پیدواری صلاحیت رکھنے والے بیج متعارف کرائے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں کپاس کی کاشت کے لیئے 40سے 60فی صد اسلامیہ یونیورسٹی کا بیج استعمال ہورہاہے۔ ایک وقت تھا پاکستان 14ملین ڈالر کی کاٹن ایکسپورٹ کررہا تھا اب اسے 5ملین ڈالر کی کاٹن امپورٹ کرنا پڑے گی۔
ایک وہ وقت تھا جب خطہ بہاول پور کپاس کی ریکارڈ پیداوار کے حوالے وائٹ گولڈ ہونے کا اعزاز رکھتا تھا۔ پاکستان کے سائنس دانوں کو ایک بڑے بریک تھرو کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں کپاس کی مکینیکل چنائی کے ذریعے کپاس کے فی ایکڑ پودوں کی تعداد 18 سے 50 ہزار پودوں پر لائی جائے جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ وہ وقت دور نہیں ہم زراعت میں خود کفیل ہو جائیں گے۔