Saturday, 21 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Pak Arab Dosti Aur Bharti Propaganda

Pak Arab Dosti Aur Bharti Propaganda

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے ہی محسنوں کی کردار کشی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ ہم ہر اس شخص کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں جس نے ہم پر احسان کیا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ کا قول ہے کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔ دوسری جانب ہمارے محسن ہی ہمارے نشانے پر رہتے ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا کے دور میں نفرت انگیز پراپیگنڈا وار اور بھی خطرناک ہو چکی ہے کیونکہ پراپیگنڈا کے ماہرین فیک ڈیٹا اور جھوٹی کہانی کو اتنے خوبصورت انداز میں بیان کرتے ہیں کہ وہ حقیقت نظر آنے لگتی ہے۔ بدقسمتی سے ڈیجیٹل میڈیا کے اس دور میں پروپیگنڈا وار سے بچنے کے لیے پاکستان کی کسی قسم کی خارجہ یا داخلہ پالیسی نظر نہیں آتی۔ ہم جہاں بیرون ممالک دوستوں کو ناراض کر رہے ہیں وہیں اندرونی طور پر بھی ہماری حکومتیں پراپیگنڈا وار کا شکار ہیں۔

بدقسمتی سے دنیا بھر میں ڈیجیٹل میڈیا کو اچھے اور بُرے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور المیہ یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہم بھی اس وار کا شکار ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں ہونے والے پروپیگنڈا وار کی وجہ سے پاکستان اپنے کئی دوست ممالک کو ناراض کر رہا ہے یہی صورتحال متحدہ عرب امارات کے حوالے سے نظر آتی ہے۔ اگلے روز سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ نظر سے گزری جس کے مطابق عرب شہزادے اور حکمران پاکستان میں عیاشی کے لیے آتے ہیں۔ عجب اتفاق ہے کہ ایسی پوسٹ ہمیشہ اس وقت پھیلائی جاتی ہیں جب ایسے سفارتی دورے متوقع ہوں۔

چند سال قبل بھی اچانک سے ایک پراپیگنڈا شروع ہوا اور سوشل میڈیا پر اس قسم کی پوسٹوں کی بھرمار ہوگئی جن کے مطابق پاکستان آنے والے عرب شہزادے یہاں عیاشی کرنے آتے ہیں یا وہ پاکستان میں آنے والے تلور اور دیگر مہمان پرندوں کا شکار کرتے ہیں۔ یہ پروپیگنڈا وار اس قدر شدید اور گھناؤنی تھی کہ پاکستان کی عدالتوں میں باقاعدہ کیسز درج ہونے لگے اور دوست ممالک کے سربراہان اور شہزادوں کے خلاف کیچڑ اچھالا جانے لگا۔

دوسری جانب یہ وہی عرصہ تھا جب بھارت کے وزیراعظم نریندرا مودی نے عرب ممالک کو یہ آفر کی کہ وہ پاکستان کے بجائے ان کے ملک میں آنا شروع کریں۔ یہ وہی وقت تھا جب نریندرا مودی یعنی بھارتی وزیر اعظم نے عرب ممالک میں اپنے قدم جمانا شروع کیے اور ان سے سفارتی تعلقات بڑھائے۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ ایک نفرت انگیز سوشل میڈیا کمپین لانچ کرکے دو طرفہ تعلقات میں دراڑ پیدا کی جائے اور عرب ممالک کو بھارت کے حق میں رام کیا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دبئی میں پہلا مندر قائم ہوگیا، دوسری جانب بھارتی وزیراعظم عرب ممالک کے سربراہان سے ملاقاتیں کرنے لگے۔

پاکستان میں ہونے والی پراپیگنڈا کمپین میں یہ بھی کہا گیا کہ پوری دنیا میں تلور صرف 50 ہزار باقی رہ گئے ہیں جبکہ عرب شہزادے پاکستان آ کر ان کا بے دریغ شکار کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ تھی کہ بے دریغ شکار وہ مقامی وڈیرے اور سرکاری افسران کر رہے تھے جو گولیاں برسا کر شکار کی تعداد بڑھانے کے شوقین ہیں۔ عرب شہزادے انٹرنیشنل قوانین کے مطابق سبسٹین ایبک شکار کرتے ہیں جو پوری دنیا میں رائج ہے۔ اس کے علاوہ وہ یہ شکار عقاب اڑا کر کرتے ہیں۔ عقاب پورے دن میں ایک یا دو تلور شکار کر سکتا ہے۔ اس شکار کی بھی حکومت کو باقاعدہ ادائیگی کی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں رائج قانون کے مطابق یہ شکار قانونی ہوتا ہے اور اس سے ہونے والی آمدن شکار کیے گئے جانور یا پرندے کی نسل کی بڑھوتری یا اس علاقے کے عوام پر خرچ ہوتی ہے۔ دوسری جانب ہمارے مقامی شکاری جس انداز میں شکار کرتے ہیں اس کا حکومت، ریاست یا عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

مودی ڈپلومیسی کے تحت پاکستان اور عرب امارات کے درمیان خلیج پیدا کرنے کے لیے یہ سارا پروپیگنڈا اتنے خوفناک انداز میں پھیلایا گیا کہ سچ لگنے لگا۔ جب اس پر تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا کہ عرب امارات کی جانب سے ہر سال 50 ہزار تلور بریڈنگ کے بعد دنیا کے مختلف ممالک میں چھوڑے جاتے ہیں اور ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ مجھے ذاتی طور پر پاکستان میں موجود ان کے ریسرچ سنٹر اور تلور کے حوالے سے کیے گئے اقدامات کو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اگر یہ کہوں کہ پاکستان کے صحراؤں کا تحفظ اس وقت بھی عرب امارات کی جانب سے کیا جا رہا ہے تو بے جانا ہوگا۔

پاکستان کے صحراؤں کی زندگی کو آباد رکھنے کے لیے پاک فوج اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے مقرر کیے گئے نمائندے مل کر ہر سال ہمارے صحراؤں میں صحرائی نباتات کے بیج بکھیرتے ہیں، اسی طرح صحرائی پرندوں اور جانوروں کی خوراک کا انتظام کیا جاتا ہے اور باقاعدہ جہازوں سے یہ خوراک مختلف جگہ پر بکھیری جاتی ہے۔ پاکستان کی صحرائی زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے ہر سال صحرائی علاقوں میں بسنے والی مختلف آبادیوں میں راشن بھی تقسیم کیا جاتا ہے۔

بدقسمتی سے اس کی کوئی خاص تشہیر نہیں کی جاتی۔ اسی طرح اگر ہم جائزہ لیں تو متحدہ عرب امارات کی جانب سے پاکستان کو بہت سے ایسے تحائف سے نوازا جا چکا ہے جن کی وجہ سے پاکستان خاص طور پر جنوبی پنجاب کے کئی علاقوں میں لوگوں کے مسائل حل ہوئے۔ شیخ زید ہسپتال سمیت جنوبی پنجاب میں واٹر فلٹریشن پلانٹ، سکول، کالجز، ہسپتال، ٹوبے اور ریسرچ سنٹر قائم کیے گئے ہیں۔ ہزاروں لوگوں کا روزگار ان پراجیکٹ سے وابستہ ہے جو عرب امارات کی جانب سے پاکستان کو بطور تحفہ دیے گئے۔

ہمیں شکر ادا کرنا چاہیے کہ پاکستان کے اس ایسے صحرا ہیں جو دنیا بھر میں صحرائی زندگی کا خوبصورت امتزاج ہیں اور دوست ممالک کی دلچسپی اس صحرائی کلچر اور زندگی میں ہے۔ عرب ویسے ہی صحرائی کلچر کے دلدادہ ہیں۔ عیاشی کی تمام ماڈرن اقسام تو یورپ میں ہیں اور دنیا بھر کے لوگ عیاشی کے لیے بالعموم یورپ اور بالخصوص تھائی لینڈ جیسے ممالک کا رخ کرتے ہیں البتہ صدیوں پرانے کلچر اور نیچر کو دیکھنا ہو تو پاکستان بہترین ملک ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ہونے والے بھارتی پراپیگنڈا کی وجہ سے عرب ممالک کے دوست اب پاکستان کو اپنا دوسرا گھر نہیں سمجھ رہے جبکہ یہی سب بھارت میں بھی موجود ہے۔

پاکستان اور بھارت کے صحرا ایک سے ہیں، موسم اور کلچر بھی یکساں ہے۔ وہ ممالک جو عالمی سطح پر پاکستان کے ساتھ ہوتے تھے اور پاکستان ان کا دوسرا گھر تھا اب بھارت کے دورے کرنے لگے ہیں۔ ضرورت اس مر کی ہے کہ اس حوالے سے خارجہ پالیسی کو مضبوط کیا جائے، حکومتی سطح پر پراپیگنڈا وار کا مقابلہ حقائق کی بنیاد پر کیا جائے اور ناراض ممالک کے تحفظات دور کرتے ہوئے پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا ہونے سے بچایا جائے۔