Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Video Banao Ya Ghar Jao

Video Banao Ya Ghar Jao

اب تو سینئر پولیس قیادت بھی چیخ اٹھی ہے۔ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہوتا ہے لیکن ڈسپلن فورس میں اس کا مطلب چین آف کمانڈ کا کمزور ہونا ہے۔ تسلیم کرنا پڑے گا کہ آئی جی پنجاب کی کمانڈ پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ اگلے روز ایک دلچسپ واقعہ ہوا۔ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے ویڈیو لنک آر پی او کانفرنس میں شکوہ کیا کہ بہت سے افسران سوشل میڈیا کا درست استعمال نہیں کر رہے اور میں نے اس حوالے سے جو ویژن دیا ہے اس کا صحیح استعمال نہیں ہو رہا۔ انہیں شکایت تھی کہ بعض ریجنل پولیس افسران یعنی آر پی اوز کی ویڈیو ز سوشل میڈیا پر اپ لوڈ نہیں ہو رہی۔

آئی جی پنجاب کی خواہش ہے کہ سپیشل انیشیٹیو تھانوں کے بارے میں منفی تاثرات سامنے آ رہے ہیں جسے سوشل میڈیا پر کاونٹر کیا جائے اور افسران خود جا کر ان تھانوں کے باہر ٹھیکیدار وں کے ساتھ کھڑے ہو کر جاری کاموں کی تفصیلات اور خرچ ہونے والی رقوم کی پرچیاں دکھا کر ویڈیوز بنوائیں۔ انہوں نے کہا کہ آر پی او شیخوپورہ تو اس پر بالکل بھی دلچسپی نہیں لے رہے، جس پر آر پی او شیخوپورہ بابر سرفراز الپہ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے نظریہ اور سوچ مختلف ہے۔ آر پی او کا ایسا جواب سن کر آئی جی پنجاب برہم ہو گئے اور انہوں نے یہ تک کہہ دیا کہ جسے ان کی سوشل میڈیا پالیسی سے اختلاف ہے وہ اپنی ذمہ داریاں چھوڑ دے۔

اندازہ لگائیں کہ یہ پنجاب پولیس کی انتہائی سینئر قیادت کی میٹنگ ہے۔ عوام کا خیال ہے کہ اس میٹنگ میں بڑھتی ہوئی وارداتوں کی روک تھام کی بات ہوتی ہوگی۔ جرائم روکنے اور مجرموں کو فوری گرفتارکرنے کے حوالے سے لائحہ عمل بنتا ہوگا، افسران سر جوڑ کر امن و امان کی پالیسی ترتیب دیتے ہوں گے لیکن یہاں دو سینئر پولیس افسران سوشل یڈیا پر ویڈیو اپ لوڈ کرنے یا نہ کرنے پر لڑ رہے ہیں۔

آر پی او شیخوپورہ کا موقف درست ہے کہ پولیس کو اپنے کام پر توجہ دینی چاہیے۔ زیادہ تر پولیس افسران کا یہی موقف ہے۔ اگر کرائم کنٹرول ہوں گے تو یقینا لوگ خود پولیس کی تعریف کریں گے لیکن اگر آپ جرائم کنٹرول کرنے کی ذمہ داری کو اپنی ترجیحات کی فہرست میں آخری نمبروں میں ڈال دیں اور معاملات کنٹرول کرنے کے لیے ہزاروں طالب علموں کا کرمینل ریکارڈ بنانا شروع کر دیں، ان کا کیریئر تباہ کرکے انہیں جرائم کے راستے پر دھکیل کر اپنی انا اور خود پسندی کو تسکین پہنچائیں۔ اگر آپ کی ساری توجہ کلرک بننے پر لگ جائے اور آپ اپنی آئی جی شپ کا سارا عرصہ ترقیوں، فوٹو سیشن، ویڈیو پیغامات، دیواروں پر رنگ و روغن اور تھانوں کو سروسز سنٹر کے بجائے کافی ہاوس بنانے پر لگا دیں تو پھر آپ کی اپنی صفوں سے آواز اٹھنا شروع ہو جاتی ہے۔

آپ روزانہ کی بنیاد پر درجنوں سرٹیفکیٹ بانٹ کر فوٹو سیشن اور ویڈیوز کی خواہش پوری کرنے کے چکر میں منشیات فروشوں کامافیا چلانے والے پولیس افسر کو بھی کیش ریوارڈ اور سرٹیفکیٹ دے بیٹھے، اگلے ہی دن ایک ادارے نے اس "قابل" افسر کا گینگ پکڑ لیااور افسر مفرور ہوگیا۔ آج ایک ایک آر پی او نے دبے الفاظ میں کہہ دیا کہ میرے سوچ اور نظریہ مختلف ہے لیکن کئی افسران آپ کے کمرے کی حدود سے باہر یہی کہتے نظر آ رہے ہیں۔ اس اعلیٰ سطحی کمانڈ میٹنگ کی خبریں ملتان تک پہنچ چکی ہیں تو یقین مانیں آپ کی چین آف کمانڈ اور ادارے کی سیکریسی داو پر لگی ہوئی ہے۔ ویڈیو لنک انتہائی اچھی ٹیکنالوجی ہے لیکن اس میں کون کہاں اپنی سکرین کی ویڈیو بنا لے اس کا علم نہیں ہو پاتا۔

کمانڈر کے پاس چین آف کمانڈ اور ڈسپلن کے سوا ہوتا ہی کیا ہے؟ ڈی آئی جی عمر شیخ مرحوم یاد آتے ہیں۔ وہ متنازع آفیسر تھے لیکن نوکری انہوں نے ڈنکے کی چوٹ پر کی۔ اس وقت کے آئی جی شعیب دستگیر نے پروموشن بورڈ میں عمر شیخ کی ترقی کی مخالفت کی جس پر عمر شیخ نے بھی تعلقات استعمال کیے اور عمران خان کے براہ راست آرڈر سے پنجاب پولیس کی اصل طاقتور سیٹ یعنی سی سی پی او لاہور پر تعینات ہو گئے۔ شاید بات یہیں ختم ہو جاتی لیکن انہوں نے اپنا نوٹیفکیشن جاری ہوتے ہی پولیس افسران کے ایک گروپ میں طنزیہ لکھ دیا کہ

میرے چارہ گرکو نوید ہو، صف دشمناں کو خبر کرو

وہ جو قرض رکھتے تھے" سپر سیڈ" کا وہ حساب آج چکا دیا

عمر شیخ نے کسی کو مخاطب نہیں کیا تھا لیکن پولیس افسران سب جان چکے تھے۔ شعیب دستگیر غیرت مند پولیس آفیسر تھے جنہوں نے اپنی آئی جی شپ کے دوران اپنی کرسی اور عہدے کا وقار بنایا۔ انہوں نے عمر شیخ کی پوسٹنگ آرڈر اور اس شعر کے ساتھ ہی اپنی سیٹ چھوڑ دی۔ ان کا موقف تھا کہ مجھ سے پوچھے بغیر اہم سیٹ پر آفیسر تعینات کرنے کا مطلب ہے کہ میری چین آف کمانڈ ٹوٹ چکی ہے۔

میں ان حالات میں بطور آئی جی کام نہیں کر سکتا وہ اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان اور پھر وزیر اعلی پنجاب سے بھی ملے، انہیں کام جاری رکھنے کا کہا گیا لیکن وہ تین دن آئی جی آفس نہ گئے۔ پنجاب پولیس کے افسران ان کے ساتھ تھے، پولیس قیادت میں بھونچال پیدا ہو چکا تھا، صوبہ بھر کی پولیس قیادت سنٹرل پولیس آفس میں اکٹھی ہوگئی، عمر شیخ وہاں آئے تو ان کے ساتھی افسران نے انہیں میٹنگ روم سے نکال دیا۔ بہرحال شعیب دستگیر انتہائی باوقار انداز میں اپنا عہدہ چھوڑ کر گھر چلے گئے اور انعام غنی اگلے آئی جی پنجاب تعینات ہو گئے۔

شعیب دستگیر کی تب سے دل میں عزت ہے۔ اس شخص نے ثابت کر دیا کہ عہدوں کی توقیر کیسے بڑھتی ہے اور عزت و حمیت کے سامنے عہدے معانی نہیں رکھتے۔ بہرحال آئی جی پنجاب عثمان انور الگ مزاج کے آفیسر ہیں۔ وہ اپنی صفوں سے اٹھتی آوازوں کو نظر انداز کرکے زنگ لگتی چین آف کمانڈ کے ساتھ ابھی کچھ وقت مزید گزار لیں گے۔ انہوں نے جس طرح کانسٹیبل شاہد کی گالیوں کو خندہ پیشانی سے قبول کرکے اسے منایا، ویسے ہی آر پی او کو بھی منا لیں گے۔ ایک زمانہ ان کی مسکراہٹ پر فدا ہے وہ مسکرائیں تو سب افسران مسکرانے لگیں گے کیونکہ ملازمت کا بنیادی کلیہ یہی ہے۔ ان کے سامنے مسکرانے والے افسران ان کے جانے کے بعد بھی مسکرانے لگے ہیں، بس پہلے اور بعدمیں مسکرانے کے انداز میں فرق ہے۔ انہیں چاہیے کہ مغل بادشاہوں کی طرح ابھی سے ایک آدھ مورخ بھی رکھ لیں تاکہ ان کے جانے کے بعد کہیں یہ ابہام باقی رہے کہ انہوں نے کسی حد تک پولیسنگ پر بھی توجہ دی تھی۔

پنجاب پولیس کے متعدد افسران یہ سمجھتے ہیں کہ پولیس کا کام ٹک ٹاک سٹار بننے کے بجائے کرائم کنٹرول کرنا ہے۔ یہ افسران جرائم کی بیخ کنی پر زیادہ وقت دینا چاہتے ہیں لیکن آئی جی پنجاب کی پالیسی نے انہیں ٹک ٹاکر اور ٹھیکیدار بنا دیا ہے۔ وہ لوگ جو پہلے مجرموں کا پیچھا کرتے تھے اب سوشل میڈیا کے لیے ویڈیو بنانے میں ہلکان ہوئے جاتے ہیں۔ پنجاب پولیس کی اعلی ترین قیادت کی میٹنگ میں بھی جرائم کنٹرول کرنے کے بجائے سوشل میڈیا پر ویڈیو بنانے کی پالیسی سے اختلاف کرنے والوں کو ذمہ داریاں چھوڑنے کا کہا جانے لگا ہے اور اعلیٰ سطحی اجلاس کے موضوعات میں سوشل میڈیا ویڈیو انتہائی اہم معاملہ کے طور پر زیر بحث آنے لگا ہے۔

عوام کے ٹیکس کے پیسوں پر جرائم کنٹرول کرنے کے بجائے ٹک ٹاک سٹار بنانے کی فیکٹریاں لگ چکی ہیں۔ گزشتہ دور حکومت میں حریم شاہ جیسی ٹک ٹاکرز وزیر اعظم سیکرٹریٹ کے دروازے پاؤں کی ٹھوکر سے کھولتی تھی تو اس دور میں پنجاب پولیس کے ہیڈ کوارٹر یعنی سنٹرل پولیس آفس میں ٹک ٹاکرز کو بلایا جاتا ہے۔