Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Wazir e Aala Ke Agle Umeedwar, Naseem Viki Aur Shaan

Wazir e Aala Ke Agle Umeedwar, Naseem Viki Aur Shaan

اگر حکومت جگتوں سے چلتی تو امان اللہ مرحوم سے نسیم وکی تک کامیڈین ہی وزیراعلیٰ کے بہترین امیدوار ہوتے۔ اگر حکومت بڑھکوں سے چلتی تو سلطان راہی مرحوم سے فلم سٹار شان تک ہمارے پاس بہترین انتخاب تھا۔ تحریک انصاف کی بد قسمتی ہے کہ حکومت بڑھکوں سے چلتی ہے اور نہ ہی جگتوں سے بلکہ صوبے کا انتظام چلانے کے لیے ویژن، محنت اور عملی کام کی ضرورت ہے۔

وزیراعلیٰ صوبے کا انتظامی سربراہ ہوتا ہے یعنی صوبے کے انتظامات چلانا وزیراعلیٰ کی ذمہ داری ہے لیکن وزیراعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈا پور اب تک بڑھکوں اور جگتوں سے ہی کام چلاتے نظر آ رہے ہیں حالانکہ اس معاملے میں شان اور نسیم وکی ان سے کہیں زیادہ قابل ہیں۔

اندازہ لگائیں کہ ایک صوبے کے وزیراعلیٰ کی سوچ بارات لانے یا لیجانے سے آگے نہیں بڑھ رہی۔ ان کی انتظامی صلاحیت اور مینجمنٹ اپروچ کا تو اس وقت پتا لگ گیا جب لاہور جلسہ کا وقت معلوم ہونے کے باوجود وہ اس وقت کے پی کے سے چلے جب لوگ جلسہ گاہ پہنچ چکے تھے لہٰذا جلسہ کا وقت ختم ہونے کے بھی کافی دیر بعد وہ محض حاضری ہی لگواتے نظر آتے ہیں۔ حالات یہ ہیں کہ ایک طرف عمران خان آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کا الیکشن لڑنے کی کوشش کرتے رہے باوجود اس کے کہ اس فہرست میں ان کا نام نہیں ہے، دوسری طرف ان کی پارٹی کے زیر انتظام صوبے کا یہ حال ہے کہ سرکاری یونیورسٹیوں کو ضم کرکے ان کی تعداد کم کرنے کا فیصلہ ہو رہا ہے۔

جامعات پچھلے دور حکومت سے تنخواہوں اور اخراجات کی ادائیگی نہ ہونے جیسے مسائل کا شکار ہیں۔ سرکاری سرپرستی میں چلنے والی خیبر پختونخوا کی تقریباً تمام یونیورسٹیاں مسلسل مالی بحران کا شکار ہیں۔ بات یہیں تک نہیں بلکہ ایک رپورٹ کے مطابق سیاستدانوں نے زیادہ تر جامعات محض اپنے لوگوں کو نوکریاں دلانے کے لیے کھولیں۔ ان یونیورسٹیز کے قیام سے تعلیمی معیار پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

اعلیٰ تعلیم کے لیے عملے کی کمی کے ساتھ ساتھ انہیں وسائل کی کمی کا بھی سامنا ہے۔ کیا وزیراعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈا پور کو نہیں معلوم کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے حال ہی میں جاری کردہ سکور کارڈ میں صوبے کی صرف دو یونیورسٹیز 60 فیصد نمبر حاصل کر سکی ہیں۔ مسلسل مسائل میں پھنسی تاریخی پشاور یونیورسٹی صرف 10 فیصد پوائنٹس سکور کر سکی ہے۔ اگر سستی جگتوں کے بجائے تھوڑا کام بھی کر لیا جائے تو خیبر پختونخوا حکومت کو صوبے میں مالی بحران اور خزانہ پر اربوں روپے کے قرضوں کے سبب اساتذہ کی اپگریڈیشن کے فیصلہ پر یوٹرن نہ لینا پڑتا۔

کیا آپ نہیں جانتے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے 1 لاکھ 60 ہزار 640 اساتذہ کے مختلف کیڈرز کو اپگریڈ کرنے کے فیصلے کو واپس لینے کا فیصلہ کیوں کیا؟ سابق حکومت نے پرائمری سکول ٹیچرز کو گریڈ 12 سے 14 میں ترقی دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس فیصلے سے 51 ہزار 736 اساتذہ کو اگلے گریڈ میں ترقی مل جانی تھی۔ اسی طرح سینئر پرائمری سکول ٹیچر کو گریڈ 14 سے 15 میں ترقی دینے کی منظوری دی گئی تھی یعنی صوبے بھر کے 17 ہزار 926 سینئر پرائمری اساتذہ اس فیصلے سے مستفید ہوتے۔

دستاویز کے مطابق 90 ہزار 978 پرائمری سکول ہیڈ ٹیچرز کو گریڈ 15 سے 16 میں کرنے کی منظوری دی گئی تھی جبکہ سی ٹی، سی ٹی آئی ٹی، ٹی ٹی، فزیکل ایجوکیشن ٹیچر، ڈرائنگ ماسٹر کو گریڈ 15 سے 16 میں ترقی دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا جو کہ واپس لینے کا فیصلہ ہوا۔ تحریک انصاف عملی طور پر کے پی کے میں ناکام ہو چکی ہے لیکن سوشل میڈیا پر بڑھکوں اور جگتوں والی ٹک ٹاک ویڈیوز نے بھرم رکھا ہوا ہے۔

اب حکومت آئینی ترامیم کرنا چاہتی ہے جس کی محض اس لیے مخالفت کی جا رہی ہے کہ یہ حکمران جماعت کی کوشش ہے۔ کیا سیاسی معاملات کے لیے آئینی عدالت کا قیام قوم کے حق میں نہیں ہے۔ ہزاروں پاکستانی عدالتوں میں تاریخ کے منتظر رہتے ہیں لیکن کیسز کی بھرمار ہے۔ اگر طے کر لیا جائے کہ ایک عدالت سیاسی نوعیت کے مقدمات سنے گی اور باقی عدلیہ معمول کے کیسز دیکھے گی تو یہ عوامی ریلیف ہے۔ جس ملک میں لوگ بری ہونے سے پہلے جیل میں مر جائیں اس ملک میں عوامی مفاد کے کیسز کو سیاسی کیسز سے نجات دلانا عوام کے حق میں نہیں تو کیا ہے۔

میرا گمان تھا کہ عوامی مفادات کی ان ترامیم پر تحریک انصاف عوام کے حق میں کھڑی ہوگی البتہ جو ترمیم ملک و قوم کے لیے بہتر نہ ہو اس پر ڈٹ جائے گی۔ بدقسمتی سے سیاست دانوں نے یہ گمان بھی ختم کر دیا۔ جب کوئی عام پاکستانی عدالتوں میں دھکے کھائے گا یا کئی کئی سال تک کیس لگنے کا انتظار کرے گا تو تاریخ وہ چہرے یاد دلائے گی جو عوام کو یہ سہولت ملنے کے خلاف کھڑے ہوئے تھے۔

بات پھر وہی ہے کہ کار حکومت سنجیدہ نوعیت کا کام ہے اسے سنجیدگی سے سر انجام دینا چاہیے۔ اگر نظام حکومت بڑھکوں یا جگتوں سے چلانا ہے تو پھر انہی کو یہ منصب سونپ دینا چاہیے جو اس کام میں آپ سے زیادہ ماہر اور تجربہ کار ہیں۔ اگر میرٹ یہی ہے تو پھر نسیم وکی اور شان وزیر اعلیٰ کے اگلے امیدوار ہو سکتے ہیں۔