90ء کی دہائی کے اندر پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف جس قسم کا بھرپور پروپیگنڈا کیا گیا اس کی شاید مثال نہیں ملتی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس زمانے میں الیکشن کو چرانے کی بات کی تو اس بات پر زیادہ تر عوام نے کان نہیں دھر ے لیکن اصغر خان کیس کے ذریعے بہت سارے تاریخی حقائق سے پردہ ہٹ گیا۔ یہ پروپیگنڈا جو سیاستدانوں کے خلاف کیا گیا اس سے شاید پاکستان کا کوئی ہی سیاستدان ہو جو اس سے بچا ہو۔
پاکستانی تاریخ کے تمام مشہور سیاستدان اس پروپیگنڈا کی زد میں رہے۔ جب ایک خاص قسم کا منفی پروپیگنڈا سالوں نہیں بلکہ دہائیوں تک محیط ہو تو پھر ایسی نسل پروان چڑھتی ہے جوحقائق سے کوسوں دور ہوتی ہے اور جھوٹ پر مبنی بیانیے کو حقیقت سمجھ رہی ہوتی ہے۔ ایسی پوری نسل کے سامنے حقائق جب آتے ہیں تو انھیں پہچاننے میں شدید دقت ہوتی ہے۔
یہ انسانی فطرت ہے کہ جو بات بچپن سے باربار حقیقت بنا کر آپ کے اذہان پر نافذکردی گئی ہو اس کے خلاف دلیل یا ثبوت دونوں جاننے کے باوجود اپنے خیالات میں تبدیلی کرنا شاید دنیا کا مشکل کام ہے۔ آج بھی آپ کو ذرائع ابلاغ پر سیاستدانوں اورجمہوریت پر تنقید کے نشترچلتے ہوئے دکھتے ہیں۔ اکثر کہاجاتاہے کہ جوبھی سیاستدان قومی سطح پر مقبول ہوا وہ طاقتور حلقوں کی سپورٹ کے بغیر اس مقام تک نہیں پہنچ سکتاتھا۔ اسی بات کو بنیاد بنا کر کسی بھی سیاستدان کی تمام جدوجہد کو رد کردیاجاتاہے۔
بے شک یہ حقائق ہیں کہ پاکستان کے زیادہ تر سیاستدانوں نے اس دورمیں مقبولیت کی سیڑھیاں چڑھیں جس وقت ملک میں جمہوریت نہیں تھی۔ اس میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی مثال نہیں دی جاسکتی مگر پھر بھی ان کی پارٹی اسی دورکے اندر وجودمیں آئی تھی اور بہرحال اس کے بانی کا تعلق بھی ایک ڈکٹیٹر کے ساتھ کوئی ڈھکا چھپا نہیں۔ یہاں پر سمجھنے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ آمریت کے دورمیں ایک سیاستدان کو سیاست کرنے کے لیے کون کون سے آپشن میسر ہوتے ہیں؟ ان ادوار کے اندر ان کے پاس دوہی راستے ہوتے ہیں یا تو وہ آمر کی مخالف سمت میں جدوجہد کرے یادوسرا اس کی آشیرواد حاصل کرکے اس کے ساتھ مل جائے۔ تیسرا آپشن سیاست سے اپنے آپ کو مکمل طورپر جداکردینا ہوتاہے۔
آج کی نسل شاید یہ چیز اچھی طرح سمجھ ہی نہیں سکتی کہ ماضی کے آمر کے سامنے کھڑا ہونا ایسے ہی تھا جیسے اپنی سیاسی زندگی کا گلہ گھونٹ دینا۔ حاکم وقت مکمل طورپرمطلق العنان ہوا کرتا تھا۔ ایسی صورتحال کے اندر بہت سے سیاستدانوں نے اپنی سیاسی ساخت بنانے کے لیے اس وقت کے آمروں کے ساتھ مفاہمت کو ترجیح دی۔ ان کے فیصلے اگر تاریخ میں دیکھیں جائیں تو درست نہیں تھے۔
ان فیصلوں سے آج سیاستدانوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ پھر وقت گزرتا گیا اور انھی سیاستدانوں نے اپنے وقت کے آمروں کی مخالفت میں جدوجہد کا اعلان کیا۔ اس میں سرفہرست ذوالفقار علی بھٹو ہیں لیکن پھر ان کا انجام بھی سب کے سامنے ہے۔ اس کے بعد میاں محمد نواز شریف بھی ضیا دور کے اندر سیاست کے میدان میں آئے اورپھر ان کی حکومتوں کے ساتھ جو ہوتارہا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ یہ بھی تاریخ ہے کہ پاکستان کا کوئی بھی منتخب وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کرسکا۔
سب سے افسوسناک واقع تو محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی صورت میں رونما ہوا۔ پاکستان نے ایک بہت بڑی سیاسی لیڈ ر کو کھودیا۔ ان کا خلا شاید بہت عرصے تک کوئی بھی پورا نہ کرسکے۔ پاکستان آمریت کے طویل ادوار سے گزرتارہا اورپھر بھی گرتے پڑتے ہمارے عوام نے اپنی زندگیاں گزاردیں۔ اس زمانے کے بچے بوڑھے ہوئے اوربوڑھے ہوکر اس جہاں سے چلے گئے اور پھر نئی نسل آئی اور وہ بھی اب بوڑھی ہوچکی ہے۔
فرق صرف اتنا ہے کہ پاکستان میں جوکچھ جمہوریت کے ساتھ ہوتارہا اس وقت پاکستان کے قدرتی وسائل اس لوٹ مار کو برداشت کرتے رہے۔ پاکستان میں وافر پانی ہوتا تھا اس کی وجہ سے ہماری زمینیں سونا اگلتی رہی۔ آبادی کم تھی وسائل زیادہ تھے۔ جوں ہی وقت گزرتاگیا تو جو چیزیں کسی بھی ملک کی دیرپاترقی کے لیے انتہائی اہم ہوتی ہیں ان پر نگاہ نہیں رکھی گئی۔
اس کی سب سے بڑی مثال مشرف دور کی ہے جہاں پر بجلی کی پیداوار کو یکسر نظر انداز کردیا گیا اور ہماری نئی نسل کا ایک طویل دور تاریکیوں میں گزرا۔ اس دوران بجلی کی کمی سے ملکی معیشت اورشعبہ تعلیم کو ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ تعلیمی نظام کے ساتھ جو ظلم ہوا شاید کسی اورسیکٹر میں وہ ظلم نہیں ہوا۔