گزشتہ دنوں انتہائی متحرک سیاسی رہنما سنیٹر مشاہد حسین سید نے "قائداعظمؒ کو خراج عقیدت، قرارداد پاکستان کے 80 سال" کے موضوع پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا۔ مقررین میں سرتاج عزیز، فخر امام، رضا ربانی راجہ ظفرالحق اور سید شبلی فراز جیسی ممتاز شخصیات شامل تھیں۔ انہیں سننا بڑے لطف کی بات تھی کیونکہ انہوں نے تحریک پاکستان کی تاریخ اور پاکستان کیلئے قائداعظمؒ کے طے کردہ آدرشوں اور مقاصد پر گفتگو کی۔ انہوں نے ان پہلوؤں پر بھی اظہار رائے کیا کہ کس طرح قائداعظمؒ نے اس تحریک کو آگے بڑھایا، انہیں اپنے نصب العین کی صداقت پر کس قدر ایمان تھا اور اسے حاصل کرنے کیلئے کتنے عزم صمیم کے مالک تھے، تمام تر ناموافق حالات کے باوجود انہوں نے کتنی زبردست کامیابیاں سمیٹیں اور کس طرح انہوں نے مسلمانوں کیلئے ایک آزاد مملکت تخلیق کی۔ انہوں نے اس امر پر بھی اظہار خیال کیا کہ کس طرح قائداعظمؒ یہ حقیقت جان گئے تھے کہ ہندو رہنماؤں کی ہٹ دھرمی اور تنگ نظری بھارت کو ایک ہندو ریاست کے قالب میں ڈھال دیں گی۔
قائداعظمؒ کی اس غیر معمولی بصیرت اور دور اندیشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 80 برس بعد وزیراعظم نریندرا مودی اور اس کے سخت گیر وزراء پر مشتمل ٹولہ اسی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ قائداعظمؒ نے ابتداء میں ہندوستان کو متحد رکھنے کیلئے بہت کوششیں کیں بشرطیکہ مسلمانوں کے مفادات کو تحفظ فراہم کر دیا جائے۔ چونکہ کانگریس کی قیادت اس جائز مطالبے کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھی۔ اس لیے مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ مملکت کے مطالبے کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہ رہا۔
قائداعظمؒ ہمیشہ اقلیتوں کے حقوق کے علم بردار رہے اور اس امر کو یقینی بنایا کہ انہیں پاکستان کے آئین میں شامل کیا جائے۔ تاہم قابل افسوس امر یہ ہے کہ بعدازاں آئین میں کی جانیوالی ترامیم اور تناسیخ کے باعث اس کا اصل متن تبدیل ہو گیا اور (میرے خیال میں) شہریوں کی حیثیت سے اقلیتوں کے مقام و مرتبے میں کمی واقع ہو گئی۔ پاکستان کو ایک نیم مذہبی ریاست میں تبدیل کرنے کی خاطر قائداعظمؒ کی تقاریر کے کچھ حصے حذف بھی کر دیئے گئے۔ آئین کے کردار اور روح کو تبدیل کرنے کیلئے متعدد دیگر کوششیں بھی کی گئیں۔ جنرل ضیاءالحق کے دور میں قائداعظم ؒ کے فرمان "اتحاد، ایمان اور نظم" کی ترتیب کو تبدیل کر کے "ایمان، اتحاد، نظم" کی شکل دے دی گئی۔ جب سے قائداعظمؒ کا انتقال ہوا ہے، ہماری قیادت دائیں بازو کے مذہبی طبقے کی تسکین کیلئے کام کرتی رہی ہے۔ اس سے کوئی بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔ پاکستان مسلم لیگ، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کبھی ایک تو کبھی دوسرے طریقے سے مذہبی جماعتوں کے تعاون کی طلب گار رہی ہیں باوجودیکہ ان مذہبی جماعتوں کی انتخابی حمایت ان کے کٹر حامیوں تک ہی محدود ہے مگر پالیسی سازی اور حالات و واقعات پر ان کی اثرانداز ہونے کی صلاحیت غیرمتناسب طور پر بہت زیادہ ہے۔ حالیہ واقعات سے بھی اس بات کو تقویت ملتی ہے جب ایک بہت ہی غیرمعروف مذہبی گروہ نے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کو تقریباً ایک ہفتے تک یرغمال بنائے رکھا۔ وزیراعظم عمران خان نے بارہا ریاست مدینہ کو اپنا آئیڈیل قرار دیا ہے۔ اگرچہ بہت سے مذہبی سکالرز نے جن میں ڈاکٹر جاوید احمد غامدی بھی شامل ہیں، اس امر کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ ماڈل ایک خاص مقصد اور تاریخ کے ایک خاص وقت کیلئے مخصوص تھا اور اس کا مطمح نظر اپنے نفس کی اصلاح تھا نہ کہ اس کا اطلاق ایک ریاست پر کیا جائے۔ موجودہ زمانے میں اس کا نقش ثانی سامنے لانا آسان نہ ہو گا۔
سعودی عرب اور ایران کے رہنما بھی اس کے متعلق بات نہیں کرتے تاہم وزیراعظم عمران خان کی طرف سے اس کا بار بار تذکرہ مذہبی جماعتوں کو دفاعی پوزیشن پر رکھے گا۔ اس صورتحال میں سے کچھ اچھا بھی برآمد ہو سکتا ہے۔ ان اعلیٰ و ارفع معیارات کو سامنے رکھ کر ہمارے رہنما اپنی اصلاح کر سکتے ہیں۔ ایک اور مثبت نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ سیاسی مکالمہ زیادہ مہذب ہو جائے اور اس میں نرم روی پیدا ہو جائے۔ جہاں رہنماؤں کیلئے یہ اہم ہے کہ وہ عوام تک اپنے خیالات پہنچائیں، اچھی طرح سوچ بچار کریں اور لوگوں سے مستقل رابطے میں رہیں۔ وہاں ہمیں اس پر بھی غور کرنا چاہئے کہ ایسا کرنا کس حد تک ضروری ہے اور وہ رہنما کون سے نئے خیالات اور منصوبوں کے بارے عوام سے بات کر رہا ہے۔
عصر حاضر کے کچھ مفکرین کا خیال ہے کہ 95 فیصد سے زائد مسلمان آبادی رکھنے کے باوجود کیا یہ اب بھی ضروری ہے کہ ریاست کو مضبوط و متحد رکھنے کی خاطر مذہبی کارڈ کھیلا جائے؟ کیا رہنماؤں کی توجہ حکومتی کارکردگی میں بہتری لانے پر مرکوز نہیں ہونی چاہئے، کیا انہیں مختلف النوع سیاسی، ثقافتی اور نسلی اختلافات میں موافقت پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے تاکہ پاکستانی معاشرہ یک جہتی اور یکسانیت سے بھرپور دکھائی دے؟
پاکستان میں ترقی کی رفتار میں کمی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ تقسیم ہندوستان کے وقت پنجاب کے کچھ علاقوں کے سوا ملک کے باقی ماندہ علاقے بھارت کے مقابلے میں تعلیمی معیارات، بنیادی ڈھانچے اور صنعت میں کمزور تھے۔ مختلف حکمرانوں نے پاکستان پر ہر قسم کی حکومتوں کو مسلط کیے رکھا ہے۔ جنرل ایوب خان جمہوریت کے بھیس میں بہت زیادہ مرکزیت پر مبنی ریاست پر یقین رکھتا تھا۔ جنرل پرویزمشرف نے بھی چند معمولی تبدیلیوں کے ساتھ ایسا ہی کیا۔ وہ زیادہ لبرل تھا اور شروع شروع میں میڈیا کو بہت زیادہ آزادی دی۔ ضیاءالحق سخت اسلامی قانون اور اپنے انداز فکر پر مبنی قوم پرستی کا ایک ملغوبہ سا مسلط کرنے کا خواہش مند تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو 15 برس گزر جانے کے بعد پہلا سویلین حکمران تھا جس نے عوامی حقوق کا چیمپئن بننے کی کوشش کی۔ اس کی طرف سے طاقت کا سرچشمہ عوام کو قرار دینے اور اسٹیبلشمنٹ مخالف انداز خطابت نے شروع میں تو عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کی لیکن جلد ہی یہ سب پھیکا پڑ گیا۔ اسے اسلام اور نظریے کی مختلف تشریحات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ مذہبی جماعتیں اس کی پارٹی کے سوشلسٹ نظریے کی سخت نقاد تھیں اور اس کی اسلام مخالف نظریے کے طور پر نقشہ کشی کر رہی تھیں۔ اس نے اسے "اسلامی سوشلزم" قرار دے کر مخالفت کے سدباب کی کوشش کی۔ بعدازاں جب فوج سے اس کے تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوا تو وہ اور زیادہ رجعت پسند بن گیا۔ اس نے شراب پر پابندی عائد کر دی اور احمدیوں کو غیرمسلم قرار دے دیا۔ ایک اہم ریاستی ادارے نے بینظیر بھٹو کے وزیراعظم بن جانے کے خیال کو حقیقی معنوں میں کبھی قبول نہیں کیا۔ تین بار وزیراعظم رہنے والا نوازشریف ایک وقت تھا کہ فوج کا منظور نظر تھا مگر بار بار اس کے اعتماد پر پورا نہ اترتا رہا۔ یہ وقت ہی بتائے گا کہ نوازشریف کبھی دوبارہ برسراقتدار آ جائے گا یا ویرانوں میں بھٹکتا رہے گا۔
یہ واقعات ہر آدمی کے علم میں ہیں مگر انہیں بیان کرنے کا مقصد اس امر کو اجاگر کرنا ہے کہ ہم کس طرح ان اعلیٰ آدرشوں اور امیدوں سے روگردانی کر گئے جو قیام پاکستان نے ہماری قوم کے دل و دماغ میں پیدا کر دیے تھے۔ مزید یہ کہ قائداعظمؒ اور ان کے ساتھیوں نے سیاست میں راست بازی اور سربلندی کے جن مقاصد اور معیارات کو ہماری آنے والی نسلوں کے لیے طے کیا تھا، ان سے ہم کس طرح دور ہٹ گئے، لیکن قیام پاکستان کے وقت لوگوں کے دل جن خیالوں اور ارمانوں سے لبریز تھے، انہیں ازسرنو بیدار کرنے کیلئے ایک سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔ ایسا ہو جائے تو اس صورتحال میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔