نیا سال طلوع ہونے اور پرانا برس غروب ہونے میں ایک دن رہ گیا ہے۔ طلوع و غروب کی یہ پُراسرار داستان نجانے کب سے شروع ہے اور اس کا اَنت نجانے کب ہوگا؟ ہم سب ازل اور ابد کے عرصہ حیات کے درمیان میں پنڈولم کی مانند لٹکے ہُوئے ہیں۔ وزیر اعظم جناب عمران خان کی حکومت کا یہ چوتھا برس بھی گزر ہی گیاہے۔ اِس برس بھی حکمران اپنے کئی وعدوں کی تکمیل میں قطعی ناکام رہے۔ کہا گیا: گھبرانا نہیں، لیکن سب گھبرائے پھرتے ہیں۔
مقتدرین منہ سے مگر اعتراف نہیں کر پارہے۔ عجب سی کشمکش نے پاکستان کے 23کروڑ عوام کو اپنی گرفت میں جکڑ رکھا ہے۔ حکمران طبقات تو خیر موجیں کر ہی رہے ہیں لیکن خوشحال اپوزیشن کی موجیں بھی کم نہیں ہیں۔ اپوزیشن کی جملہ قیادت نے عوام کو جس بُری طرح مایوس کیا ہے، اس نے عوام کے اعتماد کو لرزا کر رکھ دیا ہے۔ اپوزیشن کی قیادتیں اپنے بال بچوں کی مہنگی شادیوں میں جس اسراف و اتراف سے کام لیتی نظر آئی ہیں، اِنہی سے اندازہ و قیافہ لگایا جا سکتا ہے کہ انھیں عوام کے گمبھیر مالی مصائب سے کتنا اور کہاں تک احساس ہے؟
سمندر پار کے حکمرانوں اور اہلِ دانش کے مشاغل مگر مختلف ہیں۔ مغربی ممالک کی حکومتوں اور سماج میں یہ مستحسن روایت بروئے کارہے کہ سال کے اختتام پر اپنا سماجی اور قومی جائزہ لیا جاتا ہے۔ دیانتداری کے ساتھ اپنا نفع اور نقصان قوم و ملک کے سامنے رکھا جاتا ہے۔
جنھیں کامیابیوں پر شاباش دینا ہوتی ہے، انھیں شاباش و تحسین پیش کی جاتی ہے۔ اور جو ناکام و نامراد رہے، اُن اداروں اور شعبوں کی کمیاں اور خامیاں بھی قوم کے سامنے رکھ دی جاتی ہیں۔ تجزیہ کیا جاتا ہے کہ یہ ناکامیاں ہمارا مقدر کیوں بنیں؟ پھر آیندہ ان ناکامیوں سے بچنے کا عہد کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے پیش بندیاں بھی کی جاتی ہیں۔ اور ہم چونکہ اللہ کے فضل سے غلطیوں اور قومی ناکامیوں کے مرتکب ہو ہی نہیں سکتے، اس لیے آیندہ کہاں کی پیش بندیاں؟ اور غلطیوں سے بچنے کی کیسی منصوبہ بندیاں؟
مغرب کے انداز ہی مگر نرالے ہیں۔ پچھلے تقریباً90برس سے مغربی دُنیا کے ایک معروف ہفت روزہ جریدےTIME نے یہ روایت قائم کر رکھی ہے کہ ہر سال پوری دُنیا سے کسی ایک ایسی شخصیت کا انتخاب کیا جاتا ہے جس نے دُنیا پر اپنا گہرا نقش قائم کیا ہو۔ یہ نقش مقامی بھی ہو سکتا ہے اور عالمی بھی۔ تحقیقی بھی ہو سکتا ہے اور نظری بھی۔ اس کا تعلق فکشن کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور سائنس کے ساتھ بھی۔ رُوحانی بھی ہو سکتا ہے اور معاشی بھی۔ اس کے لیے انتخاب مگر کڑا ہوتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس انتخاب میں بعض اوقات کسی ایسی شخصیت یا فرد کو بھی سامنے لایا جاتا ہے جس نے دُنیا پر مثبت اثرات کے بجائے منفی اثرات ڈالے ہوں۔ تعمیر سے زیادہ جس نے تخریب کا کام کر ڈالا ہو۔ ایسی مثالی شخصیت مگر کم کم سامنے لائی جاتی ہے۔ اس فہرست میں زیادہ تر اور عمومی طور پر مثبت اثرات و نتائج کی حامل شخصیات سامنے لائی جاتی ہیں تاکہ دُنیا میں مثبت اقدار و نتائج کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔
ایسی منتخب عالمی شخصیت کو Man of The Yearقرار دیا جاتا ہے۔ امریکی ہفت روزہ جریدے TIMEنے اِس بار2021ء کے لیے "مَین آف دی ایئر" یا "پرسن آف دی ایئر" جس شخصیت کو قرار دیا ہے، یہ جناب ایلن مسک ہیں۔ اُ ن کا پورا نام تو ایلن ریو مسک ہے لیکن انھیں ایلن مسک ہی کے نام سے پوری دُنیا میں جانا پہچانا اور پکارا جاتا ہے۔ گزرے سال میں ساری دُنیا میں ایلن مسک کا نامِ نامی گونجتا رہا ہے۔
صنعت و حرفت اورکمپیوٹر ٹیکنالوجی سے لے کر خلائی سائنس کی نئی وسعتوں اور گہرائیوں تک ایلن مسک کا نام اور کام بازگشت پیدا کرتا رہا۔ جدید کار سازی سے لے کر بِٹ کوائن کی مالی سحرکاریوں تک اس نام نے دُنیا میں ہلچل ہی نہیں، انقلاب بپا کیے رکھا۔ ایلن مسک کے نام اور بیان سے بِٹ کوائن نے سارا سال عالمی مالیات میں متنوع لہریں پیدا کرکے کروڑوں انسانوں کو فائدہ بھی پہنچایا اور کروڑوں کے مالی خوابوں کو تلپٹ کرکے رکھ دیا۔
ایلن مسک دُنیا بھر میں الیکٹرک کاریں بنانے میں معروف ہُوئے ہیں۔ وہ کھرب پتی ہیں۔ اُن کی دولت کا تخمینہ ایک کھرب ڈالر (ایک ٹریلین ڈالر) سے زیادہ کا لگایا گیا ہے۔ پٹرول کے بغیر اور صرف بجلی کی طاقت سے چلنے والی کاریں بنا کر دُنیا کی مارکیٹ میں ایلن مسک نے محیر العقول کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس ایجاد سے دھوئیں کی عالمی آلودگی سے نجات کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ ان گاڑیوں کی تعداد اور ڈیمانڈ میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے۔
ایلن مسک بغیر ڈرائیور کے گاڑیاں بھی بنا رہے ہیں۔ ایلن مسک کی عالمی شہرت یافتہ کمپنی اب صنعتی دُنیا کا ایک جانا پہچانا ہی نہیں بلکہ غالب نام ہے۔ اس کے پرچم تلے اتنی گاڑیاں تیار ہو کر عالمی مارکیٹ میں آ چکی ہیں کہ اب کہا جارہا ہے کہ کار سازی کی دُنیا میں "ٹیسلا" کا نام اور حجم "فورڈ موٹرز" اور " جنرل موٹرز"سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔
ایلن مسک کی عمر صرف 50برس ہے۔ انھیں دُنیا کا امیر ترین شخص ہونے کا اعزاز بھی مل چکا ہے۔ ایلن مسک ویسے تو جنوبی افریقہ میں پیدا ہُوا لیکن آج وہ بیک وقت جنوبی افریقہ، کینیڈا اور امریکا کا شہری ہے۔ اُس کی صنعتوں کا جال تینوں مذکورہ ممالک میں پھیل چکا ہے۔ تینوں ممالک کے اسٹاک ایکس چینجز فقط اس ایک شخص کی مُٹھی میں ہیں۔ ایلن مسک کی والدہ کینیڈین اور والد جنوبی افریقن ہیں۔ تعلیم اُس نے جنوبی افریقہ اور کینیڈا سے حاصل کی۔
ذہین اس قدر کہ صرف بارہ سال کی عمر میں ایک منفرد کمپیوٹر پروگرام تشکیل دیا اور اس سے500ڈالرز کا منافع کمایا۔ یہ اُس کی زندگی کی پہلی صنعتی و کاروباری کامیابی تھی۔ ایلن مسک نے الیکٹرک کار سازی سے لے کر اسپیس ٹیکنالوجی تک کئی میدانوں میں بیک وقت لا تعداد اور حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اُن کی دولت کا حجم دن رات بڑھ رہا ہے، شاید اِسی لیے انھوں نے حال ہی میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ ریٹائر ہو کر صرف بنی نوع انسان کی بہبود کے لیے خود کو وقف کردیں گے۔ ٹائم میگزین نے انھیں 2021کا "پرسن آف دی ایئر" قرار دیا ہے۔